گدھا اس قدر بھی گدھا نہیں

ہم انسان اپنے حال و خیال میں اتنے مست ہیں کہ اردگرد کی حیاتِ دیگر نظر ہی نہیں آتی بھلے وہ کتنی ہی انسان دوست ہو۔مثلاً انسان اور گدھے کا تمدنی ساتھ کم ازکم چھ ہزار برس پرانا ہے اور اب اسی انسان کے ہاتھوں ہمارا یہ محسن بقائی خطرے سے دوچار ہے۔

گدھوں کی فلاح و بہبود پر نگاہ رکھنے والی ایک برطانوی تنظیم ڈنکی سنگچری (خر پناہ) اس وقت ان پر مصیبت کا ایک بڑا سبب چین میں گدھے کے گوشت اور اس سے بھی بڑھ کے اس کی کھال کی مانگ بتاتی ہے۔اس کھال کے اجزا سے ایجیا نامی جیلاٹن تیار ہوتی ہے۔اسے چینی طب میں فشارِ خون کے جملہ مسائل اور عمومی بدنی طاقت کے لیے اکسیر گردانا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے ایف اے او کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں انیس سو ستانوے کی خر شماری کے مطابق گدھوں کی تعداد لگ بھگ اڑتالیس لاکھ تھی جو دو ہزار اٹھارہ تک آٹھ لاکھ رہ گئی۔یعنی بیس برس میں چھ گنا کمی۔البتہ گدھوں کے گوشت اور کھال کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت سالانہ عالمی مانگ چالیس لاکھ کھالوں کی ہے جب کہ رسد تیس سے پینتیس لاکھ کھالوں کی ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں پانچ کروڑ گدھوں میں سے سوا کروڑ کے لگ بھگ چار افریقی ممالک ایتھوپیا، سوڈان، چاڈ اور برکینا فاسو میں ہیں۔ چنانچہ کھال کے متلاشی گروہوں اور گدھوں پر زرعی انحصار کرنے والی آبادی کے مابین کھینچا تانی ، زور زبردستی، چوری چکاری بھی بڑھ رہی ہے۔ غربت میں جب کسان کی فی کس آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہو اس وقت کسی مالک کو اپنا گدھا فروخت کرنے کے لیے پچاس ڈالر کے مساوی رقم کی پیش کش کی جائے اور انکار کی صورت میں چھینا جھپٹی درپیش ہو تو ہتھیار ڈالتے ہی بنتی ہے۔

گدھے کی کھال کی مانگ کے سبب بہت سے افریقی ممالک میں ان کی افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ بہت سوں میں اندھا دھند لالچ اس جانور کو نسل کشی کی جانب لے جا رہی ہے۔مثلاً پچھلے چودہ برس کے دوران بوٹسوانا میں گدھوں کی تعداد میں سینتیس فیصد، جنوبی امریکی ملک برازیل میں اٹھائیس فیصد اور وسطی ایشیائی ریاست کرغزستان میں تریپن فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان میں اگرچہ کبھی باقاعدہ خر شماری نہیں ہوئی مگر اندازہ ہے کہ یہاں پچاس لاکھ گدھے پائے جاتے ہیں۔جب عالمی مانگ میں اضافہ ہوا تو پاکستان میں بھی گدھے کو اپنی کھال بچانی مشکل ہو گئی۔دو ہزار چودہ میں گدھوں کی ایک لاکھ سے زائد کھالیں برآمد ہونے کی خبر آئی تو حکومت کے بھی کان کھڑے ہوئے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ستمبر دو ہزار پندرہ میں گدھے کی کھال برآمد کرنے پر پابندی لگا دی۔اس اعتبار سے پاکستان پہلا ملک تھا جس نے نسل درنسل وفاداری نبھانے والے اس جانور کی جان بچانے کے لیے اہم اقدام کیا۔تب سے اب تک سترہ ممالک پاکستان کی تقلید میں اس نوعیت کی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔یہ الگ بحث کہ ان پابندیوں پر کس قدر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

جب پی ٹی آئی کا دور شروع ہوا تب بھی یہ پابندی برقرار رہی۔البتہ فروری دو ہزار انیس میں خیبرپختون خوا حکومت نے سی پیک کی چھتری تلے خیبرپختون خوا چائنا سسٹین ایبل ڈنکی پروگرام (اس کا اردو ترجمہ کیسے ہو)کاقابلِ عمل خاکہ پیش کیا۔یعنی گدھوں کی ایکسپورٹ سے تین ارب ڈالر تک کمائے جا سکتے ہیں۔

اس فیزبلٹی کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان اور مانسہرہ میں گدھوں کی صحت مند ماحول میں دیکھ بھال اور افزائش کے لیے دو بڑے مراکز کے قیام کا عندیہ بھی دیا گیا اور ابتدائی طور پر ایک ارب روپے بھی مختص کیے گئے۔ایک چینی کمپنی سے بات چیت بھی شروع ہو گئی۔ پروگرام کے تحت سالانہ اسی ہزار گدھے برآمد کرنے کا منصوبہ تھا۔مگر جیسا کہ ہوتا ہے، چند ماہ بعد اس پروگرام پر خود بخود اوس پڑ گئی۔سنا ہے اب دوبارہ اسے آگے بڑھانے کے لیے انگڑائی لی جا رہی ہے۔

چونکہ ہم لوگ ہمیشہ سے گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ہزاروں برس سے ساتھ نبھانے کے بعد بھی ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔اس سے زیادہ صابر، قانع ، سخت جان اور غیر نخریلا جانور شاید ہی کوئی اور ہو۔ حالانکہ اس کی پشت پر ہماری تمدنی تاریخ لدی ہوئی ہے۔

مصریوں نے اسے باقاعدہ باربرداری و کاشت کاری کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔دو ہزار برس قبل شاہراہ ریشم کی تجارت چین سے یورپ تک مرہونِ خر تھی۔رومن فوج نے اس سے باربرداری کے فوجی ٹرکوں جیسا کام لیا۔تب سے پہلی عالمی جنگ تک اس جانور کا فوجی سامان کی نقل و حرکت میں کلیدی کردار رہا۔

اگر گدھوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال کی جائے تو وہ اوسطاً پچاس برس تک زندہ رہتے ہیں۔ بظاہر سر جھکا کے خاموشی سے اپنے کام سے کام رکھنے والے جانور کی یادداشت حیرت انگیز ہے۔وہ کسی بھی علاقے اور وہاں رہنے والے ہم نسلوں کو پچیس برس بعد بھی پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گدھا کیسی بھی مسکین طبیعت کا ہو مگر آپ اسے خوفزدہ کرکے یا زور زبردستی سے کام نہیں کرواسکتے۔ذاتی خطرہ سونگھنے کی اس کی صلاحیت اور قوتِ سماعت حیرت ناک ہے۔ وہ صحرا میں ساٹھ میل دور سے آنے والی ڈھینچوں ڈھینچوں کی صدا بھی محسوس کر سکتے ہیں۔

چونکہ غریب طبیعت ہے لہٰذا جب بھی چرنے کو وافر سبزہ میسر آ جائے تو خوب چرتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ گدھے کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ یہ اس لیے پیٹ بھرتا ہے تاکہ کھائی ہوئی پچانوے فیصد غذا اس کے معدے میں زخیرہ رہ کر اسے مسلسل بنجرجگہ پر بھی توانائی فراہم کرتی رہے۔

دیگر جانوروں کے برعکس گدھا موسمِ گرما میں زیادہ خوش رہتا ہے۔اسے نہ پالا پسند ہے نہ ہی بارش۔مٹی بہت پسند ہے جس میں لوٹنیاں لگائی جا سکیں۔گدھا تنہائی پسند نہیں بلکہ دیگر گدھوں کی سنگت میں زیادہ خوش رہتا ہے۔البتہ تنہا ہو تو اس کی بکریوں کے ساتھ اچھی نبھتی ہے۔

پسماندہ ممالک کے سڑک اور جدت سے کٹے علاقوںمیں انسان باربرداری اور سواری کے لیے جس جانور پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے وہ آج بھی گدھا ہی ہے۔گھوڑے اور خچر کے نخرے برداشت کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔غریب کے لیے تو گدھا اور گدھے کے لیے غریب بہت ہے۔ دونوں کی زندگی میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ان میں ہر حال میں صبر و شکر سب سے نمایاں ہے۔ ایسے وفادار کو محض قوت بڑھانے والی جیلاٹن بنا دینا ناشکری کی آخری منزل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے