اگر شوکت ترین بچ گئے

’’سر وہ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں‘‘ پی اے نے دوسری بار بتایا‘ شاہ صاحب نے نخوت سے جواب دیا ’’بٹھاؤ ابھی ان کو میں میٹنگ میں ہوں‘‘ میں نے کرسی پر بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’شاہ جی آپ میری وجہ سے کام کا حرج نہ کریں‘ ہم پھر بھی مل سکتے ہیں‘ آپ اپنے وزیٹر سے مل لیں‘ اچھا نہیں لگتا‘‘۔

میرے دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’ آپ میرے دوست ہیں‘ 20سال بعد آپ سے ملاقات ہوئی‘ یہ روز کا کام ہے‘ میں وزیٹرز سے تھوڑی دیر میں مل لوں گا‘‘ ہم اس کے بعد کافی پینے لگے ‘ شاہ صاحب نے یونیورسٹی کے باب کھول لیے‘ وہ کہاں چلا گیا‘ اس کا کیا بنا‘ کیا اس کی اس سے شادی ہو گئی۔

کیا میڈم نازلی واپس آئی اور جوس والے ننھے کا کیا بنا؟ وغیرہ وغیرہ‘ ہماری جوانی کے قصے شروع ہوئے اور بات دور تک نکل گئی‘ پی اے اس دوران دو تین مرتبہ آیا لیکن شاہ جی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے واپس بھجوا دیا‘ ہم دو گھنٹے گپیں مارتے رہے‘ میں اٹھنے لگا تو میرے دوست نے مجھے اشارے سے بٹھایا اور پی اے سے کہا‘ آپ مخدوم صاحب کو اندر بھیج دو‘ تھوڑی دیر میں ایک جسیم شخص اندر آ گیا‘ اس کے چہرے پر شدید بے زاری تھی‘ اس نے اندر آ کر کمرے کا جائزہ لیا‘ چائے کے کپ‘ کافی کے مگ اور کھانے کی گندی پلیٹیں دیکھیں اور سر جھکا لیا‘ وہ جان گیا تھا اندر کیا میٹنگ ہو رہی تھی اور اسے کس اہم کام کی وجہ سے تین گھنٹے باہر بٹھایا گیا تھا؟ بہرحال شاہ صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور ڈھیلے ڈھالے لہجے میں فرمایا’’ میں معذرت چاہتا ہوں۔

آپ کو انتظار کرنا پڑا‘ میں ایک اہم کام میں مصروف تھا اس لیے آپ کو زحمت ہوئی‘ آپ حکم کیجیے‘‘ جسیم شخص نے ایک بار پھر کپوں اور پلیٹوں کی طرف دیکھا اور پھر ادب کے ساتھ عرض کیا ’’سر ہم نے تمام ریکوائرمنٹس پوری کر دی ہیں‘ مال پورٹ پر پڑا ہے‘ ہمیں روزانہ کرایہ اور جرمانہ پڑ رہا ہے‘ آپ مہربانی فرما کر آرڈر کر دیں ہماری سپلائی چین بھی ٹوٹ رہی ہے اور فیکٹری میں کام بھی بند ہے‘‘ شاہ صاحب نے نخوت سے فون اٹھایا‘ نمبر ڈائل کیا اور اپنے ماتحت سے پوچھا ’’بھٹی وہ ۔۔۔۔ٹریکٹر کی فائل کا کیا بنا؟‘‘ وہ اس کے بعد دوسری طرف سے سنتے رہے اور پھر ہنس کر بولے ’’کیا واقعی تین دن میں ہو جائے گا‘‘ میں نے یہ فقرہ سن کر وزیٹر کی طرف دیکھا‘ اس کے ماتھے پر پسینہ تھا اور وہ حیرت سے شاہ صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا‘ شاہ صاحب نے دوسری طرف سے مزید بات سنی‘ فون رکھا اور ہماری طرف مڑ کر بولے ’’مخدوم صاحب آپ تین دن بعد لیٹر لے لیجیے گا‘‘ مخدوم صاحب لجاجت سے بولے ’’سر ہم نے جب تمام ریکوائرمنٹس پوری کر دی ہیں تو آپ آج ہی خط جاری کرا دیں۔

ہم تین دن بعد لیٹر لیں گے‘ یہ اسلام آباد سے کراچی جائے گا‘ دو تین دن کا پراسیس وہاں ہے‘ ہمارا بہت نقصان ہو جائے گا‘ آپ مہربانی فرما کر ہماری جان چھڑا دیں‘‘ یہ سن کر شاہ صاحب کا چہرہ غصے سے تمتما گیا اور وہ ذرا سے ترش لہجے میں بولے ’’مخدوم صاحب آپ کا کام دس دن کا تھا‘ ہم یہ تین دن میں کر کے دے رہے ہیں لیکن آپ کو پھر بھی تسلی نہیں ہو رہی‘ میں مزید کیا کر سکتا ہوں‘‘ مخدوم صاحب نے منمنا کر دوبارہ درخواست کی لیکن شاہ صاحب انھیں رخصت کرنے کے لیے اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے۔

وزیٹر کو ناچار ان سے ہاتھ ملا کر رخصت ہونا پڑ گیا‘ وہ نکل گئے تو میرے دوست نے بڑے فخر سے بتایا‘ یہ فلاں ٹریکٹر کمپنی کا مالک ہے‘ یہ پچھلے سات دن سے میرے دفتر کے چکر لگا رہا ہے‘ شروع میں اس کا جی ایم آیا تھا لیکن ہم نے کہا‘ یہ جب تک خود نہیں آئیں گے‘ کام نہیں ہو گا لہٰذا یہ دفتر آ کر بیٹھا رہتا ہے‘ شاہ جی کی آنکھوں میں اس وقت غرور‘ نفرت اور سفاکی تینوں تھے‘ میں نے ان سے عرض کیا‘ یہ بہت بڑا بزنس مین ہے‘ اگر اس کا کام ٹھیک تھا تو آپ کر دیتے اور اگرغلط تھا تو انکار کر دیتے‘ اس بے چارے کو چکر لگوانے اور دفتروں میں ذلیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاہ جی نے ہنس کر جواب دیا‘ یہ مطلب کے بندے‘ دنیا کے۔۔۔۔ ہیں‘ ذلت ان کا مقدر ہے۔

یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے اور یہ میرے ذہن میں نقش سا ہو کر رہ گیا ہے‘ ہمارے ملک کا سب سے بڑا بحران ہماری سوچ ہے‘ ہم من حیث القوم اینٹی پراگریس‘ اینٹی ڈویلپمنٹ اور اینٹی بزنس ہیں جب کہ معاشرے ان تینوں سے چلتے ہیں‘ ملک میں اگر ترقی کرنے والوں کی عزت نہیں ہو گی‘ہماری نظر میںاگر ٹاٹ یا سائیکل سے ایوان صدر پہنچنے والے لوگ ولن ہوں گے‘ دوسرا قوم اگر سڑک‘ میٹرو‘ اسپتال‘ یونیورسٹی ریل کی پٹڑی‘ ڈیمز اور ایئرپورٹس کی مخالف ہو گی اور لوگ غصے میں باہر نکل کر گاڑیوں‘ میٹروز‘ ایمبولینسز‘ پلوں اور عمارتوں پر حملوں کو اپنا فرض سمجھیں گے۔

یہ سرکاری املاک کو آگ لگا دیں گے یا اسپتالوں کے شیشے توڑ دیں گے اور تیسرا ہم اگر بزنس کرنے والوں‘ نوکریاں دینے والوں کو چور بنا دیں گے‘ کام کرنے والوں کو ذلیل کریں گے اور نکموں کو عزت دیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا؟ میں یہ فقرہ سن سن کر بوڑھا ہو گیا ہوں فلاں بندے کے پاس سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی‘ فلاں کے گھر سالن نہیں پکتا تھا اور فلاں کی ماں ہم سے لسی لے کر جاتی تھی‘ آپ یہ فقرے ہر دوسرے شخص کے منہ سے سنیں گے جب کہ دنیا غربت سے امارت کے اس سفر کو ٹرافی سمجھتی ہے۔

گوگل کا سی ای او سندر پچائی نلکے سے پانی بھر کر لاتا تھا اور اس کے خاندان کی سب سے بڑی معاشی اچیومنٹ ٹیلی فون‘ فریج اور اسکوٹر تھا‘یہ اور اس کی قوم آج بھی اس کے ماضی پر فخر کرتی ہے‘ انڈیا کا بچہ بچہ آج کہتا ہے اگر سندر پچائی دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والوں میں شامل ہو سکتا ہے تو میں بھی کر سکتا ہوں جب کہ ہمارے ملک میں ماضی کے سائیکل‘ کچھے‘ لسی اور مانگی ہوئی فیسیں طعنے ہیں‘ ہماری نظر میں ترقی کرنے والے لوگ قابل نفرت ہیں جب کہ دنیا میں یہ لوگ ہیرو ہوتے ہیں‘ دوسرا حکومت آج کوئی سڑک‘ اسپتال‘ اسٹیڈیم یا ڈیم شروع کر دے لوگ سڑک پر لیٹ کر احتجاج کرنے لگیں گے‘ ہم 7 جون کے ٹرین حادثے کے بعد ایم ایل ون کا ذکر سن رہے ہیں۔

حکومت اسے ریلوے کے لیے ناگزیر کہہ رہی ہے لیکن جس دن یہ منصوبہ شروع ہو گیا‘ آپ دیکھ لیجیے گا ہم پہلے اسے اورنج لائن ٹرین کی طرح مکمل نہیں ہونے دیں گے اور یہ اگر خدانخواستہ مکمل ہو گیا تو کارنامہ سرانجام دینے والے باقی زندگی نیب کے کیس بھگتیں گے‘ ہم حادثوں کے ذمے داروں کو سزا نہیں دیتے لیکن سسٹم اور ادارے بنانے والوں کو الٹا لٹکا دیتے ہیں‘ غلام سرور خان کے ایک بیان نے پی آئی اے کو آٹھ ارب روپے کا نقصان پہنچا دیا‘ یہ آج بھی وزیر ہیں لیکن آج اگر کوئی پی آئی اے میں نئی بھرتیاں کر دے یا نئے جہاز خرید لے تو وہ کل جیل میں ہو گا‘ جنرل مشرف اور زرداری صاحب کی حکومتوں میں لوڈ شیڈنگ تھی‘ کسی نے نہیں پوچھا‘ ن لیگ نے بجلی بنا دی موجودہ حکومت تین سال سے سیاپا کر رہی ہے ان لوگوں نے ضرورت سے زیادہ اور مہنگی بجلی بنا دی یعنی نہ بنانے والے ٹھیک تھے اور زیادہ بنانے والے مجرم ہیں! کیا بات ہے؟ آپ اپروچ دیکھیں اور آپ آج ملک میں کوئی بزنس شروع کر دیں۔

دکان کھول لیں یا اپنے خالی پلاٹ میں تربوز بیچنا شروع کر دیں پوری سرکار غول بنا کر آپ کا گھیراؤ کر لے گی‘ دنیا جابز پیدا کرنے والوں کو ہاتھوں پر اٹھاتی ہے لیکن ہم انھیں عبرت کا نشانہ بنا دیتے ہیں‘ یہ ہماری نظر میں چور اور فراڈیے ہوتے ہیں‘جب ملک کا وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں بزنس مینوں کے بارے میں کہے گا ’’یہ پیسے بناتے ہیں‘‘ تو پھر کون ان لوگوں کی عزت کرے گا؟ حکومت روز بڑے فخر سے اعلان کرتی ہے ہم احساس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو امداد دے رہے ہیں لیکن دو سال میں دو کروڑ لوگ بے روزگار اور 30لاکھ بزنس بند ہو گئے‘ ہم میں سے کوئی ان کے بارے میں نہیں سوچ رہا گویا ملک کو امداد لینے والے چاہییں‘ روزگار دینے والے نہیں‘ کیا اس سوچ کے ساتھ ملک چل سکتا ہے؟

دنیا میں بجٹ کا تصور امام غزالی ؒ نے دیا تھا اور اس تصور کا انحصار تین چیزوں پر تھا‘ روزگار‘ بچت اور اخراجات‘ بجٹ ان تینوں کے توازن کا نام ہوتا ہے اور یہ تینوں چیزیں پراگریس (ترقی)‘ ڈویلپمنٹ (انفرااسٹرکچر) اور بزنس (کاروبار) سے آتی ہیں لیکن ہم ان تینوں کے جانی دشمن ہیں‘ ملک ریاض ہو‘ میاں منشاء ہو‘ چینی سفیر ہو یا پھر چیمبر آف کامرس یہ آرمی چیف سے ملتے ہیں تو ان کے مسئلے حل ہوتے ہیں‘ آپ اس سے نیشنل فلاسفی کا اندازہ کر لیجیے‘ میں آج بہرحال وزیر خزانہ شوکت ترین کی تعریف کرنا چاہ رہا ہوں۔

یہ عقل مند انسان ہیں‘ یہ ملکی معیشت کو اسحاق ڈار ماڈل پر لے آئے ہیں چناں چہ آپ کو اثرات نظر آ رہے ہیں‘ یہ جانتے ہیں آپ لوگوں کو کمانے دیں گے تو ملک چلے گا ورنہ نہیں چلے گا اور یہ اسحاق ڈار کا فارمولا تھا‘ حکومت نے عقل مندی کی‘یہ اس ماڈل پر واپس آگئی‘ اب اگر شوکت ترین ٹک گئے اور یہ اگر وزیراعظم کی دانش وری سے بچ گئے تو ملک واقعی ٹریک پر آ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں چار فیصد کی گروتھ کو منفی چار ہوتے دیر نہیں لگے گی‘ ہم دوبارہ جوہڑ میں جاگریں گے لہٰذا ملک کا مقدر اب شوکت ترین کے سروائیول پر منحصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے