عثمان کاکڑ کی موت کا معمہ

بلوچستان کے سابقہ سنیٹر عثمان خان کاکڑ کے ناگہانی موت پر شروع ہونے والا ماتم کہیں رکھنے کا نام نہیں لیے رہا۔ یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر انکے چوٹ لگنے سے شروع ہوا آج ان کی موت کا ایک ہفتہ گزر گیا، مگر انکے تصاویر، ویڈیوز، فیس بک اسٹوری اور کوئٹہ کے تڑوں اور ہوٹل میں آج بھی زیر بحث عثمان لالا ہی ہیں۔

عثمان لالا کے جنازے کو جس طرح بلا رنگ،نسل زبان قوم اور مذہب کے لوگوں نے کراچی سے مسلم باغ تک خراج عقیدت پیش کی اسی طرح انکے فاتحہ میں بھی تمام سیاسی،سماجی، مذہبی اور  قبائلی شخصیات اور کارکنوں کا آج بھی انکے گھر میں ہر وقت جم غفیر رہتا ہے۔

انکے غائبانہ نماز جنازہ پاکستان کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں بھی ادا کی گئی، ایک محتاط اندازے کے مطابق 60 دفعہ سے زیادہ غائبانہ نماز ادا کی گئ ہے اور آج بھی ان ملکوں میں انکا  فاتحہ جاری ہیں۔

بلوچستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما کے نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک نہیں ہوئے، اور نہ ایسا ہوا کہ تمام اقوام، مذہب سیاسی وابستگی سے ہٹ کےلوگ ایک ساتھ کسی رہنما کے لیے نکلے تھے۔

کراچی سے میت بذریعہ روڈ جب قافلے کےشکل میں نکلا تو بلوچ علاقوں کے تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے تنظیموں کو ہدایت کی کہ لالا کے جنازے کو عقیدت و احترام کے ساتھ انکے علاقوں سے گزارا جائے، سخت گرمی میں کھڑے لاکھوں لوگوں نے عثمان خان کاکڑ کے میت پر پھول نچھاور کیئے، کسی نے عقیدت میں ایمبولینس کو بوسہ دیا تو کسی نے بلوچوں کےایک مخصوص انداز میں سلامی دی۔

پانی کے بوند بوند کو ترسنے والا بلوچ قوم پر جب ننگ وناموس کا وقت آیا تو عثمان لالا کے قافلے کو مینرل واٹر تک پیش کیا، محض ہر عام وخاص کی زبان پر لفظ لالا اور آنکھوں میں آنسوؤں تھے۔

کوئٹہ سے انکے آبائی گاؤں مسلم باغ تقریبا 130 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، عام دنوں میں یہ سفر ڈیڈھ گھنٹہ میں طے ہوتا ہیں، مگر جنازے کے دن یہ فاصلہ 6 گھنٹوں میں مکمل ہوا، حد نگاہ لوگ اور گاڑیاں نظر آ رہی تھی۔ خانوزئی کے مقام پرایک بڑی تعداد میں خواتین نے بھی گھروں سے نکل کر شہید عثمان کاکڑ کو والہانہ استقبال اور خراج عقیدت پیش کیا، یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ نیشنل ہائی وے پر کھڑی خواتین نے ایک رہنما کے میت اور قافلے کو خراج تحسین پیش کی۔

سنیٹر عثمان خان کاکڑ کا موت آج بھی ایک معمہ ہیں، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کا کہنا ہیں کہ کاکڑ صاحب کو انکے گھر میں تین افراد نے گھس کر انکے سر پر وار کیا، انکا یہ بھی کہنا ہیں کہ اگر انصاف کرنے والا کوئی ادارہ ہے جو تحقیقات کر کے حقائق کو سامنے لا سکتا ہے تو ہم ان تمام شواہد دینے کو تیار ہیں۔

انکے بڑی بیٹے خوشال خان کاکڑ  نے بھی کہا ہیں کہہ انکے والد کو ایک منظم طریقے سے قتل کیا گیا ہیں، مگر ریاستی ادارے اس موت کو ایک حادثہ قرار دے رہے ہیں جو غلط ہے۔خوشال کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینٹ کے الوداعی تقریر میں انکے والد نے انکے مجرموں کی نشاندہی واضح طور پر کی ہیں۔

بلوچستان گورنمنٹ نے شہید عثمان کاکڑ کے اہل خانہ کو انکے موت پر ہر قسم  کے تعاون کی یقین دہانی کرائیں ہیں۔

اتوار کے دن بلوچستان حکومت نے ایک مراسلہ جاری کیا جسمیں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کر دیا ہے، محکمہ داخلہ بلوچستان نے بلوچستان ہائی کورٹ سے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ پر مشتمل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کردی۔

یہ کمیشن شہید بےنظیربھٹو کے کمیشن سے کتنا مختلف ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

عثمان کاکڑ جاتے جاتے بھی بہت سے پیغامات دےگیا کہہ دنیا میں ایک شخص کا عہدہ، طاقت اور دولت معنی نہیں رکھتا، اگر معنی رکھتا ہیں تو وہ انسان کا کردار ہیں، حق و سچ اور مظلوم کا ساتھ دینے میں ہی عزت ہیں، اس ملنگ کے جنازے میں جس طرح لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور بلا رنگ، نسل، قوم، زبان اور مذہب کے لوگوں نے خراج عقیدت پیش کی اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ ہر مظلوم  کے ترجمان تھے۔

اگر لالا کے فلسفے کو زندہ رکھنا ہے تو بلا رنگ، نسل، قوم اور مذہب کے مظلموں کا ساتھی بننا ہوگا، وقت کے فرعونوں کو دلیری سے للکارنا ہوگا۔ لالا بننے کے لیے لالا کے فلسفے پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے