میرا فخر۔ میرے ابو جی

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ میرے ابو جی سب کے ابو کی طرح نہیں تھے، وہ ہمیں انگلی پکڑ کے سکول لے کر نہیں گئے، ہمارے سکول کے ایونٹس میں بھی صرف اس وقت شریک ہوتے جب وہ ہمارے سکول کے پرنسپل اور اپنے دوست آنجہانی کیپٹن (ر) ثنا اللہ کے کہنے پر کسی وی آئی پی کو مہمان خصوصی کے طور پر بلواتے اور پھر ان کی کوریج کے لیے آتے۔

ایسے ہی ایک مہمان خصوصی شیخ عشرت علی (مرحوم) کو انہوں نے سٹیج پرفارمنس کے دوران بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کس کلاس میں ہے؟۔ تو ابو جی کو نہیں معلوم تھا۔ میرے سٹیج سے نیچے آنے پر انہوں نے پوچھا کون سی کلاس میں ہو بیٹے؟۔ جب ہم سکول جاتے تو وہ سو رہے ہوتے تھے جب وہ دفتر سے واپس آتے تو ہم سو رہے ہوتے تھے۔ ایسے ہی ہماری سکول کی خراب پرفارمنس رپورٹ پر ہم ان کے سوتے میں ہی دستخط بھی کرا لیتے۔ یہ درست ہے کہ ہمیں ان سے ڈر بھی لگتا تھا لیکن یہ بھی ہے کہ ہمیں آرام دینے کی خاطروہ خود پیدل چلتے تھے لیکن اپنے بچوں کے آرام کے لیے گاڑی دے رکھی تھی۔ وہ اپنے بینک روڈ راولپنڈی سے ریڈیو پنڈی تک پیدل چل کر جاتے اور پروگرام کرتے تھے۔ ویگن کی عیاشی بھی نہیں کرتے تھے ، وہاں سے اگر ریڈیو اسلام آباد بھی آنا ہوتا تو آتے تھے۔ کبھی ہم پر احسان نہیں جتایا کہ میں کتنا پیدل چلا ہوں۔ ہمارے جوان ہونے کے بعد ہمیں اکثر بتاتے کہ قومی اسمبلی چونکہ چونگی نمبر ۲۲ کے قریب ہوتی تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ کم ہوا کرتی تھی تو ہم وہاں تک بھی پیدل چلے جاتے تھے۔کبھی اس بات پر شاکی نہیں رہے کہ گھر چھوٹا ہے نہ ہی کبھی اس بات پر غرور کیا کہ اس چھوٹے سے گھر کے ڈرائنگ روم میں پاکستان کے تمام بڑے سیاستدان اور تمام بڑے افسران آیا کرتے۔ اس چھوٹے سے محلے کے چھوٹے سے گھر کے باہر بڑے بڑے حکمران اور حکام کی گاڑیوں کی قطاریں بنا کرتیں۔ کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں بلکہ فخر سے کہتے کہ جب کیمبلپور (اٹک) سے راولپنڈی منتقل ہوا تو اپنا ذاتی مکان اپنے بڑے بھائی کو دے آیا، زبانی نہیں بلکہ اس کی رجسٹری ان کے نام کروا دی۔جو کچھ بنایا اپنی محنت سے بنایا۔

یوں بھی مختلف تھے کہ کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، سیاست میں بھی سب سے ایک ہی طرح ملتے، کسی جماعت کی طرف جھکاﺅ نہیں تھا۔ کبھی شوگر کوٹڈ سوال نہیں کیا۔ بتاتے تھے کہ مولانا کوثر نیازی مرحوم دوست تھے اور انہوں نے مجھے نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر بنانے کی پیشکش کی مگر میں نے انکار کر دیا۔ غلام مصطفی کھر نے ٹیکسٹائل کا کوٹہ لینے کے لیے کہا مگر میں نے معذرت کر لی۔ سی ڈی اے کے چیئرمین نے مجھے پی اینڈ وی فارمز کا فارم بھر کے دینے کے لیے دیا مگر وہ فارم ان کے گزر جانے تک کورا ہی رہا۔ انہوں نے اسے بھر کے جمع کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے بڑے ہونے پر انہوں نے ہی ہمیں مطالعہ کی عادت ڈالی،پوچھا کرتے کہ کون سی کتاب پڑھی ہے؟۔ کون سا کالم پڑھا ہے؟۔ والدہ کی وفات تک ہمارے اور ان کے درمیان تھوڑا فاصلہ بھی رہا لیکن امی جی کے جانے کے بعد انہوں نے امی جی کی طرح ہمارا خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ رات گئے آنے پر ہم جتنی بھی خاموشی سے گھر میں داخل ہوتے انہیں جاگتے ہوئے پایا۔ آ گئے بیٹا؟۔۔ جی ابو جی۔۔ کھانا کھایا ہے بیٹا؟۔۔ جی ابو جی کھا لیا تھا۔۔۔ پھر وہ ہمارے دوست بھی بن گئے تھے۔ ہنسی مذاق کیا کرتے۔ اپنی جوانی کی تصاویر دکھاتے کہ دیکھو میں بھی شہری جیسا ہی لگتا تھا۔ شادی کے لیے بھی لڑکیاں دکھاتے ہوئے مذاق کیا کرتے اور کہتے بیٹا جی، یہ شادی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔

میں بھی ہنس کر کہہ دیتا جی ابو جی، میں بھی اپنے بیٹے کو یہی بتاﺅں گا۔۔ ہنس پڑتے۔۔ میری بارات لے کر جب لاہور گئے تو ان کے کسی دوست نجومی نے ان کو سمجھایا کہ نکاح کے لیے شام چار بجے کا وقت ٹھیک ہے۔ جو کوسٹر ہم نے کرایہ پر لی اس کا ڈرائیور بہت سست نکلا اور ساٹھ کلومیٹر سے اوپر گاڑی چلانے سے انکار کر دیا۔ اور ابو جی جو ہمیں سو کلومیٹر فی گھنٹہ پر بھی گاڑی نہیں چلانے دیتے تھے وہ اسے گاڑی تیز چلانے کے لیے کہتے رہے۔۔ تاہم پنڈی بھٹیاں پر ہی چار بج گئے۔ میں چونکہ اپنے دوست کے ساتھ دوسری گاڑی میں تھا اس لیے میں نے ابو جی کو فون ملایا اور کہا کہ شبھ مہورت تو ہو گیا ہے، اس لیے میری طرف سے تو قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔۔ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ کوسٹر والا تو مجھ سے بھی زیادہ محتاط ہے۔وہاں پہنچنے کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق گھر پر نکاح ہونا تھا، وہاں پہنچے تو مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے بیٹے ابھی بھی وقت ہے، بھاگ سکتے ہو تو بھاگ لو۔۔ یہ شادی کوئی اتنی اچھی چیز بھی نہیں۔۔ میں بھی ہنس پڑا۔۔ اپنے انتقال سے دو روز قبل اپنے پرانے دفتر نوائے وقت اور نیشن میں سب کو مل کر آئے۔ ایک روز قبل وفا چشتی بھائی نے مشاعرہ رکھا تھا جہاں وہ صدارت کر رہے تھے، وہاں سے اپنے دوست عبد الرزاق سیال کے ہمراہ انہیں گھر پہ چھوڑا۔۔ اس دوران بھی ہنسی مذاق کرتے رہے۔ میں نے کہا وفا بھائی مجھے کہہ رہے تھے کہ تم نے مشاعرے میں غزل کیوں نہیں پڑھی تو میں نے جواباً کہا آپ مجھے افتخار یا وقار سمجھ رہے ہیں لیکن میں تو بہت بے ادب ہوں شاعری سے تعلق نہیں۔ اس پر ابو جی نے کہا نہیں یہ آپ نے غلط کہا، میرا کوئی بھی بچہ بے ادب نہیں۔۔

آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ وفا بھائی میں غزل گو شاعر نہیں ہوں۔ پھر مجھے کہنے لگے کہ مجھے نصف صدی ہو گئی شاعری کرتے میرا کوئی گیت کسی نے نہیں گایا لیکن میرے بیٹے کے گیت گائے گئے ہیں اور اکثر میں گاڑی میں جاتے ہوئے وقار سے کہتا ہوں کہ شہری کا گانا لگاﺅ۔۔ مجھے تو اپنے بچوں پر فخر ہے۔۔ مگر سچی بات یہ ہے ابو جی۔۔ کہ ہم جتنی بھی محنت کر لیں، کوئی بھی مقام حاصل کر لیں، ہم آپ کی جوتی کی خاک کے برابر بھی نہیں، ہم آج جو کچھ بھی ہیں آپ کی وجہ سے ہی ہیں مگر پھر بھی ہم کبھی بھی آپ جیسے بن ہی نہیں سکتے، آج بھی کہتا ہوں کہ ایک انسان میں اتنی خوبیاں کیسے ہو سکتی ہیں، ابو جی، ہمیں آپ پر فخر ہے، آپ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ آج آپ کو دنیا سے رخصت ہوئے آٹھ برس ہو گئے ہیں لیکن کوئی بھی دن ایسا نہیں جب آپ کو یاد کر کے آنکھیں بھیگ نہ گئی ہوں۔ رب کریم آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے