مندر جلانے والوں کی لیے معافی، ایف آئی آر واپس

مقامی افراد کے دباؤ، علاقے کے تقدس اور مذہبی فریضے کے ادائیگی میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہندو برادری نے کرک کے ان مذہبی افراد سے صلح کر کے اپنی درخواست واپس لے لی جنہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں کرک کے علاقہ ٹیری میں ہندو مندر اور سمادھی کو جلانے کے بعد مسمار کر دیا تھا۔

اس ضمن میں ہندو برادری کے زعماء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے صلح نہ کی تو مستقبل میں ہونے والے ان کے مذہبی تہواروں پر مسلح حملے کئے جائیں گے۔ اگرچہ حکومت نے انہیں تحفظ دینے کی یقین دہانی کروا رکھی تھی لیکن اس کے باوجود ہندو برادری عدم تحفظ کی شکار تھی اس لئے انہوں نے صلح کرلی۔

جس کے بعد صوبائی محکمہ داخلہ اس ماہ کی سات تاریخ کو کوہاٹ کے پبلک پراسیکیوٹر کو مراسلہ بھیجا ہے کہ گزشتہ سال جن لوگوں نے ٹیری کے مندر اور سمادھی کو جلایا تھا ان کےخلاف دہشتگردی سمیت تمام دفعات خارج کر دی جائیں۔

[pullquote]30 دسمبر 2020ءکو کیا ہوا تھا؟؟؟ [/pullquote][pullquote]

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک کے علاقہ ٹیری میں مشتعل افراد نے مقامی میدان میں ایک جلسے کا انعقاد کیا۔ اس دوران جمعیت علماءِ اسلام (فضل) سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماوں نے لوگوں کو بتایا کہ ٹیری کے علاقے میں ہندو مذہب کی ترویج کے لئے مقامی سمادھی اور مندر کو توسیع دی جارہی ہے جسے ہندو مذہب کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ مزید برآں اگر یہ سمادھی قائم رہی تو مقامی لوگوں کے مذہبی عقائد خطرہ میں رہیں گے۔

اس قسم کی باتوں سے وہاں پر موجود لوگوں کو اشتعال دلایا گیا اور مشتعل افراد نے ٹیری کی سمادھی کا رخ کیا۔ پہلے سمادھی میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پھر اسے آگ لگا دی گئی۔ اس دوران پولیس نے مقامی افراد کےخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی ۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو منظر عام آنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلہ کا نوٹس لیا اور ویڈیو کے ذریعے تین سو سے زائد افراد کےخلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے اس مسئلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک بھی کمیشن تشکیل دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کرک مندر پر قبضہ کرنے کے لئے سازش کی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اس موقع پر سمادھی اور مندر کی تعمیر کے لئے 3کروڑ 30 لاکھ روپے کی منظوری دی۔ کمیشن کی ہدایات پر 9 پولیس اہلکاروں کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا۔

[pullquote]حکومت نے ایف آئی آر کیوں واپس لے لی؟؟؟[/pullquote]

کرک کے علاقہ ٹیری میں واقع گرو پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی پر جن لوگوں نے حملہ کیا تھا ان کےخلاف عدالت میں جب کیس شروع ہوا تو ہندو برادری کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ انہیں دھمکی دی گئی کہ مندر اور سمادھی کا رخ کیا تو ٹانگیں توڑ دی جائیں گی جس پر ہم نے انہیں بتایا کہ ہم سروں پر کفن باندھ کر آئیں گے جو کرنا ہے کرلیں۔ اس کے بعد حکومت نے سمادھی اور مندر کی تعمیر پر کام آغاز کیا تاہم مارچ کے مہینے میں جے یو آئی کے مقامی رہنماوں نے دوبارہ ہندو برادری سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا اور مقامی مذہبی رہنماوں نے باقاعدہ ہندو برادری سے معافی مانگی۔ جس کے بعد ہندو برادری نے عدالت کو بتایا کہ وہ ایف آئی آر واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد محکمہ داخلہ نے 7 جولائی کو ضلع کوہاٹ کے پراسیکیوٹر کو مراسلہ بھیجا کہ 30 دسمبر کو درج کئے گئے ایف آئی آر کی تمام دفعات ختم کی جائیں۔ ضلع کرک کے ڈی پی او ہارون الرشید نے بتایاکہ ایف آئی آر واپس لینے سے متعلق انہیں علم نہیں لیکن اس سال 10 جولائی کو گرو پرم ہنس کے جنم دن کے سلسلہ میں ٹیری میں ہونے والی تقریب میں شامل ہونے والے ہندوؤں کو فول پروف سیکورٹی دی گئی۔

[pullquote]ہندو برادری کا موقف کیا ہے؟؟؟[/pullquote]

ہندو برادری کے مقامی رہنما ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ ہندو برادری سے یہ صلح بندوق کے زور پر کی گئی ہے۔ ہمیں عدالتوں میں اس کیس کی پیروی کرنی چاہئے تھی۔ وقتی طور پر مقامی لوگوں نے معافی مانگی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ دوبارہ خطرہ بنیں گے۔ ہمیں قانون کو تحفظ کا ذریعہ بناتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے تھا۔ ہارون سرب دیال نے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ باہر سے آ کر انہوں نے مقامی ہندو برادری سے متعلق غلط فیصلہ کیا ہے۔ تاہم رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی کہتے ہیں کہ مقامی لوگ جرگہ لے کر معافی مانگنے کے لئے آئے تھے۔ جس پر ہم نے انہیں معاف کیا اور حکومت نے ایف آئی آر واپس لے لی۔

تاہم انہوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ اگر مقدمے کی سماعت ہوتی تو ہندو برادری کو خطرات لاحق ہوتے۔ رمیش کمار نے بتایا کہ پاکستان میں کبھی کسی مجرم کو سزاہوئی ہے جو سمادھی جلانے والے کو دی جاتی؟حکومت کے مطابق کرک کی سمادھی کا 60 فیصدکام مکمل ہو چکا ہے لیکن معافی مانگنے کے باوجود ہندو برادر ی کو مقامی سطح پر آرام کرنے کےل ئے جگہ بنانے اور واش رومز کی تعمیر کے لئے اجازت نہیں دی جارہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے