مالی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہے!

بعض اوقات قربانی کے دنوں میں‘ سیلاب یا کسی اور قسم کی ناگہانی آفات کا سلسلہ رونما ہو جاتا ہے، ایسی صورتحال میں بعض لبرل حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں ”ہمارے ملک میں تباہ کن سیلاب آیا ہے، جس سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، قربانی کو موقوف کر کے یہ رقم ان متاثرین کی مدد پر صرف کی جانی چاہیے‘‘۔ ہمیں ایک صاحب نے خط لکھا ”ایک ادارے کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بدترین سیلاب کی زَد میں ہیں، لوگوں کے گھر، مال، مویشی اور جانیں تباہ ہو رہی ہیں، لہٰذا 10 ذوالحجہ کو سنّتِ ابراہیمی کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے‘ اس سال نہ کی جائے اور وہ رقم سیلاب زدگان کو بطور امداد دی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہو سکے، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج و عمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘، بظاہر اس رائے میں بڑی اپیل ہے۔ پس اس سلسلے میں عرض ہے: نہ مالی صدقہ قربانی کا بدل ہے اور نہ دین کے فرائض و واجبات کو ساقط کرنے کا کسی کو اختیار ہے۔ وہ عبادات‘ جو شریعت میں مقرر اور مشروع ہیں، وہ بجائے خود مقصود ہیں اور ان کو شارع کے حکم کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد و عورت پر واجب ہے۔ ق

ربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اورقربانی کیجیے‘‘ (الکوثر: 2)، لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہو سکتا۔ قربانی، جسے عربی میں”اُضْحِیَہ‘‘ کہتے ہیں، گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت اور روح ایامِ قربانی میں عبادت اور تقرُّبِ الٰہی کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق حلال جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کاخون بہانے (اِِھْرَاقُ الدَّم یا اِرَاقۃُ الدّم) سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور یہ (قربانی کاجانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اورکھروں سمیت (یعنی سالم وجود کے ساتھ) آئے گا اور (قربانی کے جانور کاخون) یقینا زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پا لیتاہے‘ سو (اے اہلِ ایمان!) تم خوش دلی سے قربانی کیاکرو‘‘ (سُنن ترمذی: 1493)۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ قربانی کی حقیقت اور اصل عبادت ”اِھراقُ الدَّم‘‘ یا ”اِرَاقۃُ الدَّم‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: خون بہانا، یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرنا، جو خون بہانے کا سبب ہے۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان (قربانی کے جانوروں) کا نہ گوشت پہنچتا ہے اورنہ اُن کا خون، بلکہ تمہارا (فعلِ قربانی سے حاصل ہونے والا) تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے‘‘ (الحج: 37)، ہاں! اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن مدد کرنا بھی ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے اور پوری قوم کو اس ذمہ داری سے عُہدہ برا ہونا چاہیے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو مالی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے‘ تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ: 3123)۔ قربانی نہ کرنے پر وعید کا تقاضا ہے کہ قربانی واجب ہے، (۲) ”حضرت جندب بن سفیا ن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں عید الاضحی کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا، جب آپﷺ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے، آپﷺ نے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا تو فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے‘‘ (صحیح مسلم: 5060)۔

آیت و احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ جس حدیث میں رسول اللہﷺ نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت فرمایا ہے (ابن ماجہ: 3127) اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جاری کردہ طریقہ ہے اوراس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔ علامہ برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں: ”امام احمد بن محمد قدوری نے کہا: ہر آزاد، مسلمان، مقیم، مالدار پر ایّامِ قربانی (10تا 12 ذوالحجہ) میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام محمد، امام زفر، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسف رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک قربانی واجب ہے‘‘۔ (ہدایہ، جلد: 7، ص: 154)۔ ”ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔

علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: ”ہر آزاد‘ مقیم‘ مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے (حنفی مذہب کی) ”ظاہرالروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے‘‘، اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ”ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ کے لیے قربانی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے؛ البتہ صدقۂ فطر واجب ہے۔ امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے مگر فتویٰ ”ظاہر الروایۃ‘‘ پر ہے اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے۔ ایک روایت کے مطابق اگر بلا اجازت بھی کر دی تو استحساناً جائز ہے۔ (ردالمحتار، جلد: 9، ص: 382)۔

فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے۔ حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ شخصِ مذکور کا یہ کہنا بھی غلط ہے: ”علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج و عمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا، علماء کا بیان یہ تھا: ”فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا؛ البتہ نفلی حج کو مؤخر کرکے یہ رقم سیلاب زَدگان پر خرچ کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور عمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایک نفلی عبادت ہے، لیکن واجب قربانی کو نہ ترک کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے وجوب کوساقط کیاجا سکتا ہے۔ البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم سیلاب زَدگان کی مدد پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور اعلیٰ انسانی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے، اُسے زمین میں قرار ملتا ہے‘‘ (الرعد: 17)۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ”بہترین انسان وہ ہے،جس کی ذات انسانیت کیلئے زیادہ نفع رساں ہو‘‘ (الجامع الکبیر: 11760)۔

قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے۔ مویشی پالنے والے لوگ سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی ضروریات پوری کریں گے۔ قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اورکھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے، نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے، حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی سنّتِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیں اور برکات ہیں۔

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کرنے تک نہ ناخن کاٹے اورنہ بال کٹوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے: ”حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جب تک قربانی نہ کر لے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے‘‘ (سُنن ترمذی: 1523)۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور بغل و زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رکھنا ممنوع و مکروہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں‘‘ (صحیح مسلم: 599)۔

امام احمد رضاقادری قُدِسَ سِرُّ ہ العزیز لکھتے ہیں: ”اگرکسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب، خواہ بلاعذر، ناخن نہ تراشے ہوں نہ خط بنوایا ہو کہ ذی الحجہ کا چاند ہو گیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائے گا اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لیے گناہ نہیں کر سکتا۔ ردالمحتار، شرح منیہ اور مضمرات میں عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن کاٹنے اور سر منڈانے کی بابت ابن مبارک نے کہا: سنّت کو مؤخر نہ کیا جائے جبکہ اس کی بابت حکم وارد ہے؛ تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ پس یہ بالاجماع مستحب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے، سوائے اس کے کہ اباحت کی مدت (واجب میں) تاخیر کو مستلزم ہو تو مستحب نہ ہوگا، اباحت کی مدت کی انتہا چالیس دن ہے، تو اس سے زیادہ تاخیر مباح نہ ہو گی، واللہ اعلم بالصواب‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد: 20، ص: 354)۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ عشرۂ ذوالحجہ کے دس دن تک ناخن نہ کاٹنے اور بال نہ تراشنے کی صورت میں ناخن اور بال چھوڑے ہوئے چالیس دن سے زیادہ ہو رہے ہوں تو پھر ان دنوں میں بھی ناخن کاٹ لے اور بال تراش لے،کیونکہ عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن نہ کاٹنا اور بال نہ تراشنا مستحب ہے، جبکہ چالیس دن سے متجاوز ان کو چھوڑنے سے ترکِ واجب لازم آتا ہے تو واجب پر عمل کرنے سے اگر مستحب کا ترک لازم آئے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ پس افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ ذی الحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے ناخن کاٹ لیں اور بڑھی ہوئی مونچھیں تراش لیں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے