بچوں کو بلیک میلنگ سے کیسے بچایا جاسکتاہے؟؟؟

جب سے سوشل میڈیا چھایا اور ویڈیو کیمرہ موبائل میں آیا ہے، بہت سے راز اور معاشرے کا ننگاپن آشکار ہوتا جارہا ہے۔ متقی تو قیامت کے دِن کے سی سی ٹی وی اور موبائل کیمرہ کی ویڈیو سے خوف زدہ رہتے ہیں، جس کی بدولت وہ یہاں بھی بداخلاقیوں اور ظلم سے بچنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہیں لیکن جرائم پیشہ افراد کو ڈر صرف دُنیا میں پکڑے جانے کا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ چُھپ چُھپا کے بہت کچھ کر گزرتے آئے ہیں۔

مدارس اور دیگر مقامات پر بچوں، بچیوں کے ساتھ جنسی ہراسمنٹ کے واقعات اب بہت زیادہ سامنے آنے لگے ہیں۔ بہت سے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کے بغیرنکاح جنسی تعلقات بھی ویڈیوز کی صورت سامنے آرہے ہیں۔

گولڑہ واقعہ نے ایک اور طرز کی جنسی ہراسمنٹ کی کلی کھول دی ہے۔

اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اہلِ فکر اپنی فہم کے مطابق حل تلاش کررہے ہیں اور بیان کر رہے ہیں۔

ایک بات تو یہ کی جارہی ہے کہ لڑکوں لڑکیوں کی شادی جلد کرنے کو رواج دیا جائے۔ بات تو بالکل اچھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قبائلی نظامِ زندگی کے علاوہ اب لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جو بچے بچیاں تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں، اُن میں سے لڑکیاں تو کسی صورت دورانِ تعلیم شادی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ یعنی اُن کی شادی اکثر پچیس تیس سال کے درمیان امکانات ہوتے ہیں۔ جب کہ جنسی ہیجان بھی سترہ اٹھارہ سال سے تیس سال کے درمیان زیادہ ہوتا ہے۔

اس دورانیے میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ کالج یونیورسٹی اور ہاسٹل لائف میں بچوں کے بننے کے ساتھ ساتھ جنسی حوالے سے بگڑنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

وہ بچے جو صرف اپنی تعلیم اور کھیل، ہم نصابی سرگرمیوں تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔ وہ خوابوں میں تو کچھ کر گزریں تو کر گزریں ورنہ کسی جنسِ مخالف کے ساتھ جنسی تعلق سے بچے رہتے ہیں۔

ہم چوں کہ خود اس عمر سے گزرے ہیں۔ انسان کو بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی تک ان مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں تو شادی کے بعد بھی جائنٹ فیملی سسٹم میں میاں بیوی کو ڈھنگ سے پیار محبت اور جنسی خواہش کی تکمیل کے مواقع بس فارمیلٹی یا بچے پیدا کرنے کی حد تک میسر ہوتے ہیں، اس لیے جیسے ہی باہر کہیں موقع ملتا ہے، خصوصاََ مرد حضرات پینگیں بڑھانا، چن چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔

اس عمر میں لڑکوں کو کھیل کود، ہم نصابی سرگرمیوں اور گھومنے پھرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اگر چاہیں تو جنسی میلان سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ اُنہیں پڑھائی اور کھیل کود سے فرصت ہی نہیں ملتی لیکن لڑکیوں کے لیے سکول، کالج سے گھر اور پھر گھر کے کام کاج، ٹی وی اور اب موبائل وغیرہ کے سوا کوئی تفریح یعنی کھیل کود اور دیگر سرگرمیاں پہلے سے بھی زیادہ ناپید ہوچکی ہیں۔ اچھی بھلی صحت مند کِھلی کِھلی لڑکیاں اس ماحول میں مرجھانے لگتی ہیں۔

گھر میں والدین کے ساتھ ایسی بے تکلفی ہوتی نہیں کہ کچھ اپنے دِل کی بات کر سکیں۔ اس گُھٹن میں باہر سے مصنوعی بارش کا ماحول بھی میسر آجائے تو اِسے غنیمت سمجھ کے اِسی ماحول میں جا پڑتی ہیں۔

اب یہاں سے مسائل شروع ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو لڑکا ہو یا لڑکی اکثر دونوں اپنے اپنے والدین سے چُھپ کے پیار محبت کی منزلیں طے کرنے لگتے ہیں۔ دونوں کا جذبہ چاہے کتنا ہی خالص کیوں نہ ہو، بہرحال والدین سے چُھپ کر تعلق چل رہا ہوتا ہے۔ سمجھدار لڑکی تو نکاح کے بغیر اس محبت کے حدود پھلانگ کر جنسی تعلق تک نہیں جاتی لیکن جو یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اکثر لڑکا پھر نکاح سے بھاگتا اور لڑکی کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کئی لڑکیوں کو پھر لڑکے کی بے وفائی کی صورت میں خودکُشی سے گزرتا دیکھا گیا ہے۔

لیکن اگر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں لیکن حدود آشنا نہیں رہے اور یہ سب کچھ ظاہر ہے وہ چُھپ کے کر رہے ہیں تو پھر اگر وہ عثمان مرزا جیسے درندوں کے ہتھے چڑھ جائیں تو لڑکی کے لیے دوہرا امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ وہ بار بار جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے اور اپنی جمع پونجی بھی ان بلیک میلروں کو دینے پر مجبور ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کے والدین یا بھائیوں تک یہ بات نہ پہنچے۔ لڑکا بھی بلیک میل ہوتا ہے لیکن اس حد تک نہیں جتنا لڑکی ہوتی ہے۔

پاکستان کی لمحہ موجود کی صورتِ حال میں یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ والدین ہر وقت اپنی بیٹیوں کے ساتھ چمٹے رہیں۔ خاص کر وہ بچیاں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے دُور رہنا ہوتا ہے۔

سینکڑوں بچیوں میں سے بہرحال کوئی نہ کوئی بچی اس چکر میں پھنس جاتی ہے۔ تو پھر یہاں تک نوبت آنے سے کیسے بچا جائےَ؟؟؟

پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ والدین اللہ سے ڈریں اور اپنی اولاد کو سب سے پہلے اپنا قیمتی اثاثہ سمجھیں۔ اپنے اور ان کے درمیان خواہ مخواہ کے پردے حائل نہ کریں۔ گھر میں جن بھوت بن کر نہ رہیں، اپنے بچوں کے دوست بن کے رہیں۔ والدین خود اس عمر سے گزر چکے ہوتے ہیں اور سب کیفیات سے واقف ہوتے ہیں۔ اور خوب سمجھتے ہیں کہ والدین کو کیسا ہونا چاہیے۔

اپنے بیٹوں سے اگر آپ دوستی نہیں رکھیں گے تو وہ کبھی پندرھویں روزے کو تو کبھی اٹھائیسویں روزے کو چاند چڑھا دیں گے۔ اور آپ سمجھ رہے ہوں گے میرا بیٹا روزے سے ہے۔ اِسی طرح بیٹی سب سے پہلے تو اپنے پسندیدہ انتخاب سے بلیک میل ہوگی، کیوں کہ والدین نے اُسے یہ جرات ہی نہیں دی کہ وہ اپنی پسند بتا سکے اور نکاح کر سکے تو پھر اگر کچھ محتاط ہوئی تو چُھپ کر نکاح کر لے گی ورنہ نکاح سے پہلے بے راہ روی کا شکار ہوجائے گی۔ چُھپ کے نکاح بھی اُس کے لیے اکثر سود مند کم ہی ثابت ہوتا ہے۔ لڑکا ظرف والا نکلا تو کام چل گیا ورنہ اِدھر کی رہتی ہے نہ اُدھر کی۔

آج کے دور میں معقول رویہ یہ ہے کہ اپنی اولاد کو اعتماد دیں۔ انہیں جنسی بے راہ روی کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ اور اس کے ساتھ یہ حوصلہ بھی دیں کہ اگر حادثاتی طور پر یا ارادی طور پر کہیں اٹیچمنٹ ہوگئی ہے تو اِسے والدین سے ہر گز نہ چُھپائیں۔ والدین سے بڑھ کر کوئی اپنی اولاد کا خیرخواہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے لیے واقعی آپ کو اپنی اولاد کا خیرخواہ ہونا ثابت کرنا پڑے گا۔ اولاد کو بوجھ نہیں سمجھنا ہوگا۔ بیٹی کی بات کو بھی تحمل سے سُننے کا ظرف پیدا کرنا ہوگا۔

تاکہ آپ کے بیٹے یا بیٹی کو یہ مکمل یقین ہو کہ اس موقع پر میرے والدین میرا ساتھ دیں گے۔ میری مکمل راہنمائی کریں گے۔ اور مجھے کسی خطرے کے حوالے ہونے سے بچائیں گے اور اگر میری پسند یا خواہش معقول ہوئی تو اُسے خواہ مخواہ رَد بھی نہیں کریں گے، تب بچے آپ کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں گے۔ پھر آپ کی بیٹی کسی بوائے فرینڈ سے بلیک میل ہوگی نہ ہی عثمان مرزا جیسے خبیث سے کئی ماہ بلیک میل ہوگی۔ بلکہ پہلے ہی دِن بتا دے گی کہ میرے ساتھ یہ معاملہ ہو گیا ہے۔ ویسے تو اگر والدین اپنی اولاد کو اعتماد سے نوازیں تو یہ نوبت ہی نہیں آئے گی اور باعزت طریقے سے آپ کا بیٹا یا بیٹی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں گے۔

لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اچھے بھلے سمجھدار لوگ اپنی انا کے ہاتھوں اور معاشرتی دباؤ میں اپنی اولاد کی خواہشوں کا گلا دبائے رکھتے ہیں۔ کئی سال تک بچے بے چارے والدین کے گرین سگنل کے منتظر رہتے ہیں، کبھی ماں تو کبھی باپ اور کبھی بھائی کی غیرت آڑے آئی رہتی ہے اور معقول رشتے تک کو ٹھکرا دیتے ہیں۔

پھر بیٹا یا بیٹی ساری زندگی والدین کے انتخاب پر گزر اوقات کر لیتے ہیں یا پھر من مرضی کر کے معاشرے سے کٹ جاتے ہیں۔

میری اپنی قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں سے بس اتنی گزارش ہے کہ وہ جنسی ہیجان کے دورانیے کو صبر و حوصلے سے گزاریں۔ سب سے پہلے اپنے مستقبل کا خیال کریں۔ اگر آپ مالی طور پر محفوظ مستقبل رکھتے ہیں تو جلد شادی کر لیں۔ شادی کے لیے کوشش کریں کہ خوبصورتی کو اولیت دینے کی بجائے لڑکی کی صحت و اخلاق کو مدنظر رکھیں۔ اُس کی گردن اور قد کی لمبائی کے بجائے اُس کے کردار و اخلاق کی لمبائی پر توجہ مرکوز کریں اور اگر تعلیم کے بل بوتے آگے بڑھنا ہے تو پہلے تعلیم کو مکمل کریں۔ بیٹیوں سے گزارش ہے کہ وہ خدا را کسی خوبصورت چہرے کے پیچھے دوڑنے کی بجائے خود دار، محنتی، شائستہ اور سنبھالنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کو اپنے خوابوں کا شہزادہ بنائیں تاکہ آپ کی زندگی معاشی و معاشرتی حوالے سے پریشانیوں سے محفوظ رہے۔

یہ میرے کچھ بکھرے، کچھ اُلجھے اور کچھ سُلجھے خیالات ہیں۔ آپ احباب اس بارے غلطیوں کی نشاندہی بھی کریں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ بہتر تجاویز بھی دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل بے راہ روی سے بچ سکے۔

اکثر بیٹے بیٹیاں شادی کے فیصلے والدین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن کے متعلق والدین پوری احتیاط کے ساتھ ان کے مزاج کے مطابق انتخاب کریں اور جہاں بیٹا یا بیٹی اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں وہاں اُن کی راہنمائی کریں۔ اُنہیں اعتماد سے نوازیں کہ وہ آپ سے معاملات کو شیئر کرسکیں۔

کسی لڑکے یا لڑکی کا رشتہ سے انکار بنتا بھی ہو تو شائستگی کے ساتھ اس مرحلے سے گزریں۔ انکار کی ٹھوس وجوہ نہ ہوں تو اس سے بچیں۔ وسوسے تو ہر گز نہ پالیں لیکن جانچ پڑتال ضرور کرلیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے