کبھی اس پہلو پر بھی غور فرمائیے!

کمشنر کی سطح کے ایک افسر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری روا ہے یا نا روا‘ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی! یوں تو تاریخ بھی ایک عدالت ہی ہے! غیر رسمی عدالت! تاہم تاریخ کی عدالت کا فیصلہ دیر سے آتا ہے! یہ گرفتاری رنگ روڈ سکینڈل کا شاخسانہ ہے جو ہمارا آج کا موضوع نہیں! ہم تو اس گرفتاری کے حوالے سے ایک اور مضمون چھیڑنا چاہتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے‘ عساکرِ پاکستان کا حصہ ہونا ایک نوجوان کے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے۔ یہ نوجوان سپاہی ہو یا کیڈٹ‘ دونوں صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ اسے عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج! جسے پوری دنیا کی افواج میں بھی ممتاز مقام حاصل ہے! اس فوج میں لفٹین ہونا پھر کیپٹن‘ میجر‘ کرنل اور بریگیڈیر بننا کوئی معمولی بات نہیں! سخت تربیت کے مراحل پورے کیریئر میں جاری رہتے ہیں! موت ہر شخص کو آنی ہے مگر عساکرِ پاکستان میں جا کر شہادت کی موت حاصل ہونا ایک اعزاز ہے! شہید خود تو شہید ہے‘ شہید کی ماں‘ شہید کا باپ‘ شہید کے بچے اور شہید کی بیوہ کو بھی ہمارا معاشرہ عزت و احترام کا جو درجہ دیتا ہے‘ معاشرے کے دوسرے طبقات کو بہت کم نصیب ہوتا ہے! ہمارے عساکر کا تعلق صرف دنیا سے نہیں‘ آخرت سے بھی جڑا ہے اسی لیے اس پیشے کو مقدس کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپنے گھروں کی محفوظ چھتوں کے نیچے‘ بستروں پر‘ جب محو استراحت ہوتے ہیں اس وقت یہ محافظ‘ کارگل اور سیاچن کے بے مہر برف زاروں پر کھڑے ہو کر پہرا دے رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ہی مغربی سرحد پر شہید ہوئے۔ کتنے ہی مجاہد اور غازی اپاہج ہو کر اور کچھ مصنوعی اعضا کے ساتھ‘ زندگی گزار رہے ہیں۔

فوجی خاندان اپنے فوجی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ نسلوں تک اپنی اپنی یونٹ کا افتخار چلتا ہے۔ بیٹا اسی یونٹ میں ہو تو باپ فخر سے پھولا نہیں سماتا۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے فخر سے بتایا کہ وہ‘ اس کا بیٹا‘ اس کا داماد اور داماد کا باپ‘ یعنی سمدھی‘ سب ایک ہی یونٹ سے ہیں۔ یونٹ کا یہ تعلق مضبوطی میں بعض اوقات خونی رشتے کا مقابلہ کرتا ہے۔ فوج کے نظم و نسق سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک عام سپاہی اپنی یونٹ سے تعلق رکھنے والے جرنیل تک‘ وہ جہاں بھی ہو‘ ہر وقت رسائی رکھتا ہے۔ اور یہ تعلق ریٹائرمنٹ کے بعد بھی رہتا ہے۔ غرض دنیا اور آخرت‘ دونوں لحاظ سے فوج کا پیشہ بہترین ہے۔

عساکر پاکستان کا سول سروس میں دس فیصد قانونی کوٹہ ہے۔ اصولی طور پر اس کا طریقہ یہ تھا کہ عساکر کے اندر امتحان ہو یا میرٹ پر نامزدگی ہو۔ غالباً ابتدا میں یہ درست طریقہ رائج بھی رہا مگر پھر دو رخنے پڑ گئے۔ جنرل ضیاالحق نے باقی اداروں کی طرح یہاں بھی سفارش کی بنیاد رکھ دی۔ ابتدا تو جنرل ایوب خان ہی نے کر دی تھی کہ صاحبزادے کو فوج سے واپس بلا لیا۔ جنرل ضیاالحق نے اپنے اے ڈی سیز اور دیگر جاننے والوں کو فوج سے سول سروس میں لانا شروع کیا۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس نا قابلِ رشک عمل کو جاری رکھا۔ کس کو نہیں معلوم کہ میاں نواز شریف نے اپنے داماد کو‘ جو اُن کے اے ڈی سی تھے‘ اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا۔ باقی با اثر اصحاب نے بھی اس عمل کی پیروی کی۔ یہ با اثر اصحاب عساکر سے بھی تھے اور اہلِ سیاست سے بھی۔ یہاں تک کہ میاں صاحب سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے بھی‘ جو عسکری تھی اور مذہبی بھی‘ اپنے فرزند کو فوج سے سول سروس میں منتقل کر دیا۔ دوسرا رخنہ یہ آن پڑا کہ اس راستے سے سول سروس میں آنے والے یہ نوجوان‘ با اثر خاندانوں سے تھے‘ اور کسی پروسیس کے ذریعے نہیں بلکہ بیک جنبشِ قلم لائے گئے تھے‘ ان سب کا انتخاب سول سروس کے صرف اُن تین گروپوں تک محدود رہا‘ جن میں حکمرانی کی لذت زیادہ ہے۔ یہ سب ضلعی انتظامیہ میں آئے یا پولیس سروس میں یا فارن سروس میں‘ جہاں سفیر بننے کا چانس تھا۔ سول سروس کے باقی گروپ ان کی نگاہ کرم سے محروم رہے۔ چلیے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ کسٹم اور ٹیکس تو مشکل اور ٹیکنیکل محکمے ہیں مگر عساکر کے کوٹے سے انفارمیشن سروس‘ ریلوے سروس‘ پوسٹل سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ اور سیکشن افسری میں بھی کوئی نہیں آتا کیونکہ سول سروس کے ان شعبوں میں حاکمیت کا وہ طمطراق نہیں پایا جاتا جو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا نمایاں پہلو ہے!

شاید غزالی نے لکھا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتا! جو کچھ نظر آ رہا ہے‘ اسی کی بنیاد پر اس نے معاملات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اور اس کے حق میں کیا بہتر ہے‘ یہ صرف قدرت ہی کو معلوم ہے۔ حافظ ظہورالحق ظہور کیا خوب کہہ گئے ہیں؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِ نہاں کا راز داں کوئی

اسی لیے فرمایا گیا کہ عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

ہم ایک صورت حال کو نا پسند کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ یہ صورت حال بدل جائے۔ کسی کی سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرتے ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش کی وجہ سے وہ صورت حال بدل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتا ہے کہ نئی صورت حال تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ گرفتار ہونے والے کمشنر صاحب پہلے فوج میں کپتان تھے۔ وہاں سے سول سروس میں آئے۔ خدا ان کی مشکلات آسان کرے‘ کیا عجب آج وہ سوچتے ہوں کہ اس سے بہتر تھا کہ فوج ہی میں رہتا۔ یونٹ کمانڈ کرتا۔ بریگیڈ کمانڈ کرتا۔ بخت یاوری کرتا تو جنرل ہو کر ڈویژن یا کور بھی کمانڈ کرتا۔ ہمارے دوست جناب ہاشم خاکوانی ایک چینی کہانی سنایا کرتے ہیں۔ ایک بوڑھے کے پاس قیمتی گھوڑا تھا جسے وہ کسی صورت فروخت کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایک دن گھوڑا غائب ہو گیا۔ لوگ افسوس کرنے آئے تو اس نے کہا افسوس کس چیز کا؟ یہ تو اصل واقعہ کا صرف ایک حصہ ہے۔ کچھ عرصہ بعد گھوڑا واپس آیا تو ساتھ اکیس گھوڑے اور بھی تھے۔ ہوا یہ تھا کہ گھوڑا خود ہی جنگل میں چلا گیا تھا۔ وہاں جنگلی گھوڑوں کے ساتھ اس کی دوستی ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو وہ سب ساتھ آ گئے۔ اب لوگ مبارک دینے آئے کہ سدھائے جانے کے بعد یہ گھوڑے تمہیں دولت سے مالا مال کر دیں گے۔

مگر بوڑھے نے کہا کہ مبارک کیسی؟ یہ تو اصل واقعے کا صرف ایک ٹکڑا ہے۔ چند دن بعد گھوڑوں کو سدھاتے ہوئے اس کا نوجوان بیٹا گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب کے لوگ افسوس کرنے آئے۔ بوڑھے نے پھر وہی بات کی کہ ابھی واقعہ مکمل نہیں ہوا۔ اب یہ ہوا کہ دوسرے ملک کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ حکومت نے جبری بھرتی شروع کر دی اور نوجوانوں کو میدانِ جنگ بھیجا جانے لگا۔ بوڑھے کا بیٹا ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی وجہ سے بچ گیا۔

اسی لیے اس دعا کی تعلیم دی گئی کہ اَصلِح لِی شانی میرے سارے معاملات درست ہو جائیں۔ سارے معاملات وہی ذات درست کر سکتی ہے جو دیوار کے دونوں طرف دیکھنے پر قادر ہے!

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے