وقت بھی کیسا جادوگر ہے‘ کس طرح اپنے سحر سے مانوس چیزوں کو اجنبی بنا دیتا ہے‘ یا شاید وقت کی دھند میں کھو کر ہم مانوس چیزوں کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ اس روز بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ عید کا تیسرا دن تھا اور صبح کا وقت۔ عید کے پہلے دو دنوں کی ہماہمی سے تھک کر سب گھر والے سو رہے تھے۔ میں نے گاڑی نکالی اور راولپنڈی کا رُخ کیا۔ میری منزل ہارلے سٹریٹ کا قبرستان تھی‘ جہاں میرے والدین اور بھائی کی قبریں ہیں۔ اسلام آباد سے راولپنڈی کا سفر اتنا زیادہ نہیں۔ اس روز تو سڑکیں بھی خالی تھیں۔ یوں لگتا تھا راولپنڈی کی سڑکیں اور گلیاں سو رہی ہیں۔ راولپنڈی جانا میرے لیے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی خواب نگر کا سفر ہو۔ لالکرتی سے ہو کر جب میں گورا قبرستان کی سڑک سے گزر رہا تھا تو مجھے وہ سہ پہریں یاد آ گئیں جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ گورا قبرستان کے گھنے سر بلند درختوں کی چھاؤں میں بنچ پر بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ گورا قبرستان کے گیٹ کے بالکل سامنے مسجد تھی جس کے ایک طرف ایک دو دکانیں تھیں اور دوسری طرف ایک میدان‘ جہاں ہم کھیلا کرتے تھے۔ اس سڑک سے گزرتے ہوئے مجھے یوں لگا‘ وہ سارے دن رات ایک بار پھر سے جاگ اُٹھے ہوں۔ میں نے گاڑی دائیں طرف والی سڑک پر موڑی اور پھر ایک دو سڑکوں سے گزرتا ہوا اس مسجد کے سامنے پہنچ گیا جس کے قریب ہی ہارلے سٹریٹ کا قبرستان ہے۔ مسجد کے سامنے والی جگہ پر گاڑی پارک کر کے میں قبرستان میں داخل ہو گیا۔
ساون نے ہر طرف ہریالی کی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ قبروں کے درمیان تنگ راستوں پر چلتے ہوئے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ سب سے پہلے انعام بھائی کی قبر تھی جو مجھ سے پانچ سال بڑے تھے اور جو 2013 میں رمضان کی 27 تاریخ کو ہم سے بچھڑ گئے تھے۔ انعام بھائی کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو ایک شفیق، مہربان اور دوسروں پر ہر دم سب کچھ لُٹا دینے والی شخصیت کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ یہاں سے آگے بڑھتا ہوں۔ اب میں والد صاحب کی قبر کے پاس کھڑا ہوں۔ کیا باغ و بہار اور مہربان شخص تھے بالکل دوستوں جیسے۔ ان کی شخصیت میں بہت سے فنون جمع ہو گئے تھے۔ کتابت، حکمت، خطابت، مصوری، شاعری۔ میں نے دیکھا ان کی قبر پر کاسنی رنگ کے پھول کِھلے ہوئے تھے جو رُک رُک کر چلتی ہوا میں جُھول رہے تھے۔ یہاں سے آگے کُچھ قبروں کے فاصلے پر میری والدہ کی قبر ہے۔ میں نے جُھک کر لوحِ مزار کو دیکھا جس پر تاریخِ وفات درج تھی: 5جنوری2007۔ اچانک مجھے خیال آیا آج بھی جمعہ کا دن ہے۔ والدہ کے بغیر چودہ سال کا یہ عرصہ ایسے ہی گزرا جیسے زندگی کی کڑی دھوپ میں سر پر دعائوں کا سائبان نہ ہو۔ اگر والدہ کی شخصیت کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ قربانی ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قربان کر دی تھی۔ والدہ کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر مجھے عجیب سکون محسوس ہوا۔ ایسا لگا کُچھ دیر کے لیے میں زندگی کے سارے شوروغُل سے کَٹ کر ماں کی آغوش میں سر رکھ کر سو گیا ہوں۔ قبرستان کے متولی کی آواز نے مجھے جگا دیا۔ وہ کہہ رہا تھا: ساون کی وجہ سے گھاس زیادہ اُگ آئی ہے لیکن آپ فکر نہ کریں میں قبروں کے اردگرد سے فالتو گھاس صاف کردوں گا۔ میں نے اسے ہمیشہ کی طرح کُچھ پیسے دیے اور ماں سے اجازت لے کر بوجھل قدموں سے واپس چلنے لگا۔
گاڑی میں بیٹھ کر میں نے سوچا‘ اسلام آباد میں میرے گھر والے تو ابھی تک سو رہے ہوں گے۔ کیوں نہ یہاں سے کُچھ فاصلے پر اس گلی میں جاؤں جہاں میرا بچپن اور جوانی گزرے تھے۔ وہی گھر جہاں ہم سب بہن بھائی اکٹھے رہتے تھے۔ جہاں والدہ، والد اور انعام بھائی بھی ہوتے تھے۔ اس گلی میں گئے ہوئے ایک مدت ہو گئی تھی۔ سُنا ہے گلی کے اکثر مکین اب وہاں سے چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگ آ گئے ہیں۔ اب تو یہ علاقہ پہچانا نہیں جا رہا۔ ہارلے سٹریٹ سے سڑک نشیب میں آ کر اوپر اُٹھتی ہے۔ وہیں نشیب میں بائیں طرف ایک اور گہرا نشیب تھا‘ جس کے قریب اینٹیں بنانے والا بھٹہ تھا۔ اس میدان میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ بھٹے کی وجہ سے اس میدان کو بھٹہ گراؤنڈ کہتے تھے۔ آج میرے بائیں طرف مکانوں کی قطاریں تھیں۔ اب کوئی اس جگہ کو دیکھے تو اسے یقین نہ آئے کہ یہاں ایک گہرا نشیب تھا جو بھٹہ گراؤنڈ کہلاتا تھا‘ جہاں ہر شام لڑکے کرکٹ کھیلنے آتے تھے۔ اب سڑک اونچائی کی طرف جا کر سیدھی ہو گئی ہے۔ آگے سے مجھے دائیں ہاتھ مڑنا ہے۔ اس موڑ پر گوشت کی ایک دکان ہوتی تھی اور اس کے برابر مِینے نائی کی دکان تھی۔ مِینے کا اصل نام امین تھا لیکن لوگ اسے مِینا کہہ کر بُلاتے تھے۔ ذرا آگے جا کر دائیں ہاتھ وہ گلی ہے جہاں میرا بچپن کا گھر ہوا کرتا تھا‘ جس کے قریب جاتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔ گلی میں بائیں طرف والے پہلے گھر میں شبیر رہا کرتا تھا۔ اس کی طبیعت میں شرارت کا رنگ نمایاں تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا‘ اور پُرانے گیتوں کی بے شمار کیسٹس اس کے پاس تھیں۔ سرِ شام اس کی بیٹھک میں دوست آ جاتے۔ اس سے اگلے گھر میں فیصل اور طغرل رہتے تھے جن کے والد پولیس میں تھے۔ ان کی چھت شبیر کی چھت سے ملی ہوئی تھی۔
ایک روز گرمیوں کی دوپہر میں شبیر دبے پاؤں اپنی چھت سے فیصل اور طغرل کی چھت پر گیا جہاں مرغیوں کا ڈربہ بنا ہوا تھا۔ وہاں سے اس نے ایک مرغی کو پکڑا اور واپس اپنی چھت پر آ گیا۔ میں آج تک سوچتا ہوں‘ مرغی نے شور کیوں نہیں مچایا‘ اور اگر شبیر اس روز پکڑا جاتا تو کیا ہوتا؟ خیر اس روز رات کو شبیر نے سب کو گھر میں دعوت دی جس میں اس نے چکن کڑاھی بنائی تھی۔ دعوت میں فیصل اور طغرل بھی شریک تھے۔ سب نے شبیر کی کوکنگ کی تعریف کی۔ بہت دنوں بعد شبیر نے خود یہ راز فاش کیا کہ وہ مرغی کہاں سے آئی تھی۔ شبیر یہاں کرائے پر رہتا تھا۔ اسی طرح فیصل اور طغرل بھی کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ میں نے دیکھا‘ یہ دونوں مکان اپنی جگہ پر تھے لیکن وہاں کے مکین اب نجانے کہاں ہوں گے۔
اس سے آگے والا گھر مسعود صاحب کا تھا۔ انتہائی نفیس اور شریف النفس انسان۔ دن میں وہ کسی دفتر میں کام کرتے تھے‘ اور شام کو ٹیوشنز پڑھاتے تھے۔ ان کے پاس ویسپا سکوٹر تھا۔ جب رات کو ویسپا سکوٹر کی آواز آتی تو ہم سمجھ جاتے کہ مسعود صاحب دن بھر کی مشقت کے بعد واپس گھر لوٹے ہیں۔ ان کی بیگم مِس طاہرہ لالکرتی کے ایک سکول میں پڑھاتی تھیں۔ اسی سکول میں میری بہن بھی پڑھاتی تھیں۔ یوں دونوں کی خوب دوستی تھی۔ یہ ساٹھ کی دہائی کا زمانہ تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا نیا نیا آغاز ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں اس وقت تک ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا اور ‘الف نون‘ ڈرامہ دیکھنے مِس طاہرہ کے گھر جاتا تھا۔ وہیں پہ میں نے ٹی وی پر پاکستانی ٹیم کے ہاکی میچ دیکھے تھے۔ ان کا مکان یہیں ہے لیکن اب اس مکان میں نئے مکین آ گئے ہیں۔ مسعود صاحب کے فوت ہونے کے بعد مِس طاہرہ نے یہ گھر بیچ دیا تھا۔ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں‘ معلوم نہیں اب وہ کہاں رہ رہے ہوں گے۔ مِس طاہرہ کے گھر کے بالکل سامنے ہمارا گھر تھا جس کی کشش مجھے آج یہاں کھینچ لائی تھی۔
اس گلی کے ہر گھر سے کتنے ہی چہروں کا تصور وابستہ تھا۔ گلی میں کچھ گھروں کو چھوڑ کر زیادہ تر گھروں میں کرایہ دار رہتے تھے جن کا قیام مستقل نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے کئی کردار آئے او رگئے۔فیصل اور طغرل کے اس گھر میں آنے سے پہلے یہاں بابر صاحب رہا کرتے تھے۔ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ڈاکٹر وصال بابر رہتے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے جنرل نصیر اللہ بابر تھے جنہیں ہلالِ جرأت کا اعزاز ملا تھا۔ بعد میں وہ گورنر اور پاکستان کے وزیرِ داخلہ بھی رہے۔ ان کے والد گھر کے سامنے خالی پلاٹ پر ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھتے اور انگریزی اخبار کا مطالعہ کرتے۔ مس طاہرہ کے گھر سے آگے بھی ایک خالی پلاٹ تھا اور اس کے ساتھ والے گھر میں ماسٹر تاج صاحب رہتے تھے۔ گرمیوں کی راتوں میں وہ مجھے اکثر چھت پر بچھی چارپائی پر نیم دراز لالٹین کی روشنی میں کوئی کتاب پڑھتے نظر آتے۔ اس زمانے میں گرمیوں میں چھتوں پر چارپائیاں ڈال کر سونا معمول کی بات تھی۔ اس سے اگلے گھر میں لطیف صاحب رہتے تھے۔ انتہائی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی۔ ان کے بیٹے کا نام عروج تھا‘ اسی نام سے انہوں نے گلی سے کچھ فاصلے پر ایک لائبریری کھول رکھی تھی۔ اس لائبریری سے میں نے بھی کرائے پر لے کر بہت سی کتابیں پڑھیں۔ انہی میں تیرتھ رام فیروزپوری کا جاسوسی ناول ”مقدس جوتا‘‘ بھی تھی جس کی کہانی نے مجھے ایک عرصے تک اپنے حصار میں لیے رکھا۔گلی کے آخر میں ایک تنگ راستہ دائیں ہاتھ جاتا تھا جو ہارلے سٹریٹ جانے والی بڑی سڑک سے مل جاتا تھا۔ گلی سے بائیں ہاتھ جانے والا راستہ ٹاہلی موہری کی طرف جاتا تھا۔ گلی کے آخری سرے پر اکا دُکا قبریں تھیں۔ پھر بہت بڑا نالہ اور اس سے پرے ہارلے سٹریٹ کی آبادی تھی۔
وہ عید کا تیسرا دن تھااور صبح کا وقت۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ میں گلی کے آخری سرے تک جاکر واپس چلنے لگا۔ اب میرے بائیں ہاتھ وہ مکان تھا جہاں ماسٹر صاحب رہتے تھے۔ ان کا اصل نام تو کسی کو نہ پتا تھا۔ سب انہیںماسٹر صاحب کہتے تھے۔ ان کے پاس ایک سائیکل تھی۔ مجھے یاد ہے کیسے وہ سائیکل کا اگلا پہیہ اُٹھا کر اپنے گھر کی بلند دہلیز کو پار کرتے تھے۔ ماسٹر صاحب کے گھر سے آگے شفیع صاحب کا گھر تھاجو خراب صحت کے باوجود آخر دم تک مسجد جاکر نماز ادا کرتے رہے۔ وہ گلی میں ہر آنے جانے والے کو خود سلام کرتے تھے۔ شفیع صاحب کے گھر سے آگے ایک بہت بڑی حویلی تھی جہاں دو تین چھوٹے چھوٹے گھر تھے لیکن اس حویلی کی پہچان ایک بارعب خاتون تھیں جن سے سب ڈرتے تھے۔ اور اگر کبھی گلی میں کھیلتے ہوئے گیند اس حویلی میں چلی جاتی تو کوئی وہاں جانے کو تیار نہ ہوتا۔ اس حویلی سے آگے خالی جگہ اور پھر ہمارا گھر آتا تھا۔ اس سے آگے خالی پلاٹ اور پھر گلی کا اختتا م ہو جاتا تھا۔ بعد میں ان خالی پلاٹوں میں بھی مکان بن گئے۔ گلی میں چلتے چلتے میں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے آکر رُک گیا۔ دروازے پر تالا تھا۔ میں نے سر اُٹھا کر دیکھا وہی چھت کی فصیل کی جالیاں جن میں پاؤں کی انگلیاں پھنسا کر میں گلی میں آنے جانے والوں کو دیکھا کرتا تھا۔
اس چھت پر کھڑے ہوکر ہم عید کا چاند دیکھا کرتے تھے اور پھر چاند رات کو میں انعام بھائی کے ساتھ بینک روڈ جایا کرتا تھا جہاں ہم کون آئس کریم کھاتے اور دوستوں کے ساتھ بینک روڈ پر بے مقصدگھومتے رہتے۔ پھر بچپن کا دور بیت گیا۔ اور ہم سب بہن بھائی تلاشِ روزگار میں بکھر گئے‘ لیکن یہ گھر ہمارا مرکز تھا اور اس مرکز میں ہماری والدہ کی حیثیت مقناطیس کی تھی جس کی کشش ہمیں عید کے موقع پر کھینچ کر یہاں لے آتی۔ انعام بھائی نے شادی نہیں کی تھی اور اس گھر میں والدہ کے ہمراہ رہتے تھے۔ مجھے لاہور سے آنا ہوتا تو موٹر وے کے سفر میں وقفے وقفے سے ان کے فون آتے اور جب گاڑی گلی میں داخل ہوتی تو میرا دل زورزور سے دھڑکنے لگتا۔ اس گلی میں آکر میں کیسے وہی بچہ بن جاتا جو صبح وشام اس گلی میں کھیلا کرتا تھا۔ انعام بھائی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر بیٹھے ہوتے۔ آخر میں والدہ کی صحت جواب دے گئی تھی لیکن میں جب گھر میں داخل ہوتا تو وہ تیز تیز چلتی ہوئی آتیں اور مجھے گلے لگا لیتیں‘ بچوں کوپیار کرتیں۔ قربانی والی عید پر انعام بھائی میرے بیٹے صہیب کو لے کر بکرے لینے جاتے۔اب صہیب کینیڈا میں شادی شدہ زندگی گزار رہا ہے لیکن اب بھی بچپن کی یہ یاد اس کے ذہن میں جھلملاتی رہتی ہے۔ منڈی سے بکرے لانا‘قصائی کا بندوبست کرنا‘گوشت کے حصے بنانا اور پھر انہیں تقسیم کرنا۔ اس سارے عمل میں انعام بھائی متحرک ہوتے۔
ہم سب محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے۔ اس روز مسجد میں خوب رش ہوتا اور ہمیں مسجد کی دوسری منزل پر جگہ ملتی۔ اس رو ز مولوی صاحب مسجد کی تعمیر کے لیے چندے کے لیے خصوصی اپیل کرتے اور مسجد کے کچھ اہلکار چادروں کا کشکول بنائے ہر قطار کے سامنے سے گزرتے اور سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ ڈالتے۔نماز کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملتے۔ مسجد سے متصل ایک کٹیا نما تنور تھاجس کے مالک کا اصل نام تو مجھے پتا نہ چل سکالیکن ہم اسے ملک کا تنور کہتے تھے۔ یہ لکڑیوں کا تنور تھا اور اس کی روٹی کا اپنا ذائقہ تھا۔ وہ تنور عرصہ ہوا ختم ہو گیا۔ ملک نجانے کہاں چلا گیا لیکن میرے ذہن میں اس کی صورت روشن ہے۔ وہی لکڑیوں کا دھواں اور اس کا آنکھوں کو بار بار رومال سے صاف کرنا۔ اس زمانے میں لکڑیوں کے یہ تنور اور اس میں پکنے والی سرخ گندم کی خوشبو دار روٹی ہماری تہذیب کا حصہ تھی۔ دوپہر کو صحن میں چٹائی بچھائی جاتی۔پیڈسٹل فین لگایا جاتا اور سب مل کر کھانا کھاتے۔ میٹھے میں ہمیشہ کھیر ہوتی جووالدہ بناتیں ان کے ہاتھ میں خاص ذائقہ تھا یا پھر ان دنوں سے جڑی ہوئی ہر چیز ہمیںخوش رنگ اور خوش ذائقہ محسوس ہوتی ہے۔ پھر بچوں میں عیدی تقسیم ہوتی۔
انعام بھائی کو عید کی دعوت کا انتظام کرنے میں خاص لطف آتا تھا وہ ہم سب بہن بھائیوں کو اکٹھے دیکھ کر خوش ہوتے۔ شام کو انعام بھائی کے دوست آجاتے۔ عید کے دو تین دن آنکھ جھپکتے گزر جاتے۔ ہم سب بہن بھائی عید کے بعد مرکز سے رخصت ہوجاتے اور والدہ اور انعام بھائی کے پھر اکیلے ہوجانے کا موسم آجاتا۔ اب انعام بھائی ڈرائنگ روم کا گلی والا دروازہ کھول کر اس دن کا انتظار شروع کر دیتے جب ہم میں سے کوئی پھر واپس آئے گا لیکن آج ایک مدت بعد میں اس گلی میں کھڑا تھا۔آج یہ دروازہ بند تھا۔مجھے یوں لگا کہ جیسے بند دروازے کے باہر کھڑے کھڑے صدیاں گزر گئی ہیں۔ وقت کے ساحر نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ میں نجانے کتنی دیر یوں ہی کھڑا رہتا کہ ایک آٹھ نو سال کے بچے کی آوازنے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔اس نے بھولپن سے پوچھا ”آپ کس سے ملنے آئے ہیں؟‘‘ میری آواز گلے میں اٹک گئی۔ میں نے اس معصوم سے چہرے کو دیکھا اور بمشکل کہا ”کوئی نہیں بیٹا ،غلطی سے ادھر آ نکلا تھا‘‘ میرا جواب سن کراس کی آنکھوں میں حیرت جاگ اُٹھی۔میں نے آخری بار اپنے گھر پر نگاہ ڈالی اوربوجھل قدموں سے گاڑی کی طرف چلنے لگا۔میں بچے کو کیسے بتاتا کہ یہاں میں اپنے بچپن کے دنوں سے ملنے آیا تھا۔ جو اَب مجھے کبھی نہیں ملیں گے۔(ختم)