امجد اسلام امجد (آخری حصہ)

وقت کی چلمن سے جھانک کر دیکھوں تو اپنے کالج کے دن شوخ و شنگ رنگوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ میرے یہ دن راولپنڈی شہر میں گزرے تھے‘ جہاں پہلے سر سید کالج اور پھر گورڈن کالج میں پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ ستّر کی دہائی کا زمانہ تھا۔ جب کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی بہتات ہوتی تھی۔ مشاعروں کی روایت اپنے عروج پر تھی۔ میں انگریزی ادب کا طالبِ علم تھا لیکن اُردو ادب سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ہم دوست شام کو ملتے تو شعروادب پر گفتگو ہوتی۔ نئی کتابوں کا تذکرہ ہوتا۔ انھی دنوں ایک نئے شاعر کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ سادہ اسلوب اور آسان ڈکشن، دل کَش استعارے اور تشبیہیں اور جذبے کی ایک رو جو پڑھنے اور سننے والے کو اپنے ساتھ بہا کر لے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس شاعر کا نام امجد اسلام امجد تھا۔ وہ جلد ہی نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں امجد کی ”محبت کی ایک نظم‘‘ خاص و عام میں مقبول تھی۔ اس کا آغاز کُچھ یوں ہوتا تھا:
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا

یہ نظم طوالت کے باوجود بہت سے نوجوانوں کو حفظ ہو گئی تھی۔ ستر کی دہائی میں ہی امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ ”بَرزَخ‘‘شائع ہوا‘ اور اس کے چار سال بعد اس کا دوسرا مجموعہ ”ساتواں در‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ یہ نظم ”ساتواں در‘‘ میں موجود ہے۔ جلد ہی امجد ملکی سطح پر شعری منظر نامے میں نمایاں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر تو جیسے تخلیقی وفور کے بند کُھل گئے اور امجد نے شعر و ادب کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنے آپ کو منوایا۔ امجد کی زندگی محنت اور تخلیق کا امتزاج ہے‘ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص سرکاری ملازمت کے ساتھ پچاس سے زائد کتابیں تخلیق کر سکے۔ ”برزخ‘‘ کی اشاعت کے اگلے برس امجد کی فنی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا‘ جس نے اسے شہرت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔

یہ 1979ء کا سال تھا جب امجد کو ڈرامہ لکھنے کی پیش کش کی گئی۔ یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر 1977ء میں برسرِ اقتدار آ چکے تھے‘ اور ملک میں ہر چیز کو اسلامیانے کا عمل جاری تھا۔ اس عمل کی زد میں ملک کی فلم انڈسٹری بھی آ چکی تھی جو اس دور میں ایسی گھائل ہوئی کہ پھر جانبر نہ ہو سکی۔ یوں فلم کا نعم البدل ٹیلی ویژن ڈرامہ بن گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس دور میں پی ٹی وی ڈراموں نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنے آپ کو منوایا۔ امجد اسلام امجد کو ڈرامے کی پیش کش ہوئی تو اس نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف پی ٹی وی کا ایک چینل ہوا کرتا تھا۔ پرائیویٹ چینلز ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ پی ٹی وی پر ان دنوں ہفتہ وار ڈرامے نشر ہوتے تھے۔ ایسے میں اعلان کیا گیا کہ ایک نیا قسط وار ڈرامہ ”وارث‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ امجد کا امتحان تھا کہ کیا وہ شعری سلطنت کے بعد ڈرامے کی اقلیم میں بھی نمایاں مقام حاصل کر سکے گا۔

وہ 1979ء کا سال تھا اور 29 دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شام جب ”وارث‘‘ ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہوئی۔ پہلی قسط نے ہی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی تھی۔ یہ تیرہ قسطوں پر مبنی ڈرامہ تھا‘ جس میں کہانی، اداکاری اور ہدایت کاری اپنے عروج پر تھی۔ جس دن اس ڈرامے کی قسط نشر ہوتی بازار اور سڑکیں ویران ہو جاتیں۔ شہرت کا یہ درجۂ کمال بعد میں شاید ہی کسی ڈرامہ نگار کے حصے آیا ہو۔ اب ملک کے طول و عرض میں امجد کا تعارف اور پہچان ایک ڈرامہ نگار کی بن گئی تھی۔”وارث‘‘ کے بعد بھی امجد نے پی ٹی وی کی تاریخ کے چند مقبول ترین ڈرامے لکھے جن میں دہلیز، وقت، دن، رات، سمندر، بندگی اور فشار شامل ہیں۔ یہ امجد کے لکھے ہوئے ڈراموں کی طویل فہرست سے کُچھ نام ہیں۔

یہ 1980ء کی بات ہے وارث ڈرامے کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔ انھی دنوں لاہور میں میری امجد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ایک دوست نے امجد کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ان سے ملیے یہ وارث ڈرامے کے تخلیق کار ہیں۔ میں نے امجد سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: میرے لیے ان کا تعارف ایک شاعر کا ہے۔ امجد نے یہ سُن کر قہقہہ لگایا اور کہا: مجھے خوشی ہوتی ہے جب مجھے کوئی بحیثیتِ شاعر ملتا ہے۔ امجد کا قہقہہ بے ساختہ اور جاندار ہوتا ہے۔ اس کے پاس لطیفوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ہم نے 1987ء میں ملتان سے لودھراں تک ایک وین میں سفر کیا تھا۔ اس وین میں عطاء الحق قاسمی بھی تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر امجد اور عطاء کی گفتگو کی پھلجھڑیوں میں گزر گیا‘ اور ہم لودھراں کے قصبے میں جا پہنچے جہاں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا‘ جس میں منیر نیازی بھی شریک تھے‘ اور جس کی نظامت پروین شاکر کر رہی تھیں۔

پھر مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب نو دس برس قبل ہم لاہور میں ایک پبلشر کے آفس میں بیٹھے تھے۔ میں نے امجد سے کہا: آپ کے لکھے ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے‘ ان میں سے ایک ”میرے بھی ہیں کُچھ خواب‘‘ میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔ امجد نے کہا: ہاں وہ ایک گونگے درزی کی کہانی ہے‘ جس کا کردار معروف اداکار محمد شفیع نے کیا تھا‘ اور ہیروئن ماضی کی معروف اداکارہ مصباح تھیں۔ میری فرمائش پر امجد نے اس ڈرامے کی VHS کیسٹ بذریعہ ڈاک مجھے بھجوا دی تھی۔ اسی محفل میں امجد نے میری فرمائش پر اپنی نظم ”سنو پیارے‘‘ سُنائی‘ جس کا آغاز یوں ہوتا تھا:
سُنو پیارے! محبت کرنے والوں کی نگاہیں بھی
ہوا میں ڈولتی خوشبو کی صورت منظروں میں
اپنے ہونے کی نشانی چھوڑ جاتی ہیں

وہ ایک یادگار محفل تھی جس میں ہم نے دیر تک امجد سے اس کی شاعری سُنی۔ امجد اسلام امجد کی شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کی داستان کڑی مشقت اور محنت سے عبارت ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کرنے کے بعد وہ ایم اے او کالج میں لیکچرر کی پوزیشن پر فائز ہوا‘ لیکن یہ اس کی منزل نہیں تھی۔ اس کے خواب اس کے سامنے نئی منزلوں کے در کھول رہے تھے۔ ان خوابوں میں ایک خواب شہرِ سُخن کی سیر تھی۔ اس خواب کی تعبیر اسے جلد ہی مل گئی۔ اس کا سادہ مگر منفرد اسلوب لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ مشکل مضامین اس کی شاعری میں موم ہو جاتے۔ امجد کی ایک نظم کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
ایک اور نظم کی سطریں دیکھئے:
میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی
ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے
رات کیوں ہو گئی

پھر ایک روز نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے مہتمم، معروف شاعر اور عزیز دوست انعام الحق جاوید نے اطلاع دی کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ادبی میلے میں ایک سیشن امجد اسلام امجد کے حوالے سے ہے۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ ہم اپنے ہم عصر ادیبوں کی تعظیم کرنا جانتے ہیں۔ میں نے کہا: دعوت کا شکریہ میں اس سیشن میں ضرور شرکت کروں گا۔ انعام الحق جاوید نے ہنستے ہوئے کہا: اور امجد صاحب کا انٹرویو آپ نے کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کُچھ کہتا ٹیلی فون بند ہو چُکا تھا۔

نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ادب میلے میں امجد اسلام امجد کے ساتھ سیشن میں خوب لطف آیا۔ بہت سے لوگ پہلی بار امجد کی ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوئے۔ ان میں سے ایک پہلو کرکٹ کے ساتھ امجد کی جنون کی حد تک محبت تھی۔ وہ کالج کی کرکٹ ٹیم کا اہم رکن تھا۔ اس روز امجد کے شہر سُخن کے بہت سے رنگ بھی سامنے آئے۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ: غزل، نظم، ڈرامہ، بچوںکا ادب، ترجمے، سفر نامے، مضامین، تنقید، اور کالم۔ حیرت ہوتی ہے سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ امجد نے اتنا کُچھ لکھنے کے لیے کیسے وقت نکالا۔ اسے دیکھیں اور سُنیں تو خوشگوار بشاشت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر موقع کے لیے لطیفے، بر جستہ جملے، اور قہقہے۔ لیکن اس کے اندر کی سنجیدگی اور اُداسی اس کی شاعری میں اُتر آئی ہے۔ شاعری کی دیوی اس پر شروع ہی سے مہربان تھی۔ مُجھے حیرت ہوئی کہ اس کی معروف غزل اس کے زمانۂ طالب علمی میں لکھی گئی تھی۔ آپ نے یقینا یہ غزل پڑھی یا سُنی ہوگی جس کا یہ شعر زبانِ زدِ عام ہے:؎
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن اسے بُھول جا اسے بُھول جا

مجھے اسلام آباد کی ایک بھیگی ہوئی شام یاد آ گئی جب میں گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھ رہا تھا۔ ایسے میں مجھے امجد کی ایک نظم یاد آگئی۔ میرا جی چاہا‘ میں امجد کی زبانی یہ نظم سُنوں۔ اس روز امجد نے میری فرمائش پر فون پر یہ نظم سُنائی تو یوں لگا آسمان پر پھیلے رنگوں میں کتنے ہی اور رنگ شامل ہو گئے ہیں۔ کیا خوب صورت نظم تھی:
”تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو/ اس کا روپ امر/ تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو/ وہ موسم کا رنگ/ تُم جس پھول کو ہنس کر دیکھو/ کبھی نہ وہ مُرجھائے/ تُم جس حرف پر انگلی رکھ دو/ وہ روشن ہو جائے‘‘

اسلوب کی یہی سادگی امجد کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ اچھے ادب کی ایک تعریف یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری کو ایک Pleasure of recognition ہو۔ دوسرے لفظوں میں ”میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ امجد کی نظم ”سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘ پڑھیں تو بہت سے لوگ اسے اپنی کہانی سمجھتے ہیں۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
”روشنی مزاجوں کا کیا عجیب مقدر ہے/ زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو/ راہ سے ہٹانے میں/ ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں/ خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں/ عمر کاٹ دیتے ہیں‘‘

اسی طرح امجد کی نظم ”تمھیں مُجھ سے محبت ہے‘‘ ایک بنیادی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح محبت کو ہر دم تائیدِ تازہ کی ضرورت رہتی ہے:
”محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے/ کہ یہ جتنی پُرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے/ اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے/ اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے‘‘

امجد کی نظموں میں خیال کی رفعت اور نغمے کی مٹھاس گھل مل گئے ہیں۔ فلسفیانہ تصورات امجد کے اسلوب میں ڈھل کر عام فہم بن جاتے ہیں۔ محبت اس کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے‘ لیکن جوں جوں امجد کی شاعری کا سفر آگے بڑھتا گیا۔ اس میں نت نئے موضوعات کی چاندنی بکھرتی گئی۔ اس کی بعد میں آنے والی نظموں میں ایک لطیف فلسفیانہ دبازت تہہ در تہہ اُبھرنے لگی۔ امجد کی شاعری میں ‘وقت‘ بھی ایک اہم موضوع ہے۔ وقت کا دریا جو ہر دم رواں رہتا ہے۔ وقت جو کبھی لوٹ کر نہیں آتا:؎
زندگی کے میلوں میں خواہشوں کے ریلے میں
تُم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں
وقت کی رو انی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے

وقت کے سفر میں چلتے چلتے بعض اوقات اچانک ایک حقیقت اس پر منکشف ہوتی ہے‘ جس سے اس سفر کی غرض و غایت ہی بدل جاتی ہے؎
تلاشِ منزل جاناں تو اک بہانا تھا
تمام عمر میں اپنی طرف روانہ تھا

امجد کے ہاں بعض اوقات اس کی سنجیدہ شاعری میں ہلکا سا مزاح کا رنگ شامل ہو کر معنی کو بلیغ اور لطف کو دوبالا کر دیتا ہے؎
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا تھا
دل سے بڑا جہان میں امجد عدو نہیں
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو میرے دستِ بے ہنر سے ہوا

وقت کا بہتا دریا ہر لحظہ منظر بدلتا آگے بڑھتا رہا ہے۔ وقت کے دریا کی تیز رفتاری ہر چیز کے کے عارضی پن کو اور واضح کر دیتی ہے۔ امجد کی شاعری میں وقت کی تندی و تیزی اور اپنی نارسائی کا تذکرہ یہاں وہاں ملتا ہے:؎
خواب کیا کیا چُنے، جال کیا کیا بُنے
موج تھمتی نہیں، رنگ رُکتے نہیں
وقت کے فرش پر، خاک کے رقص پر
نقش جمتے نہیں ابر جُھکتے نہیں

یہی عارضی پَن جذبوں کی کیفیت کا بھی ہے۔ امجد کو اس بات کا ادراک ہے کہ جذبوں کے دریا نے ایک دن اُتر جانا ہوتا ہے:؎
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر آنا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے

امجد جتنا بڑا شاعر ہے اتنا ہی اہم ڈرامہ نگار ہے۔ اس کی شاعری میں تمثیل کا رنگ نظر آتا ہے اور اس کے ڈراموں پر شاعری کی گہری چھاپ ہے۔ امجد کے ہاں کائنات کو سمجھنے اور کھوجنے کا عمل مسلسل نظر آتا ہے۔ سمجھنے اور جاننے کے عمل میں سوالات کا کردار انتہائی اہم ہے۔ امجد کی شاعری میں یہ استفہامیہ انداز کائنات کو سمجھنے کی کوشش ہے:
”گزرتے لمحو مجھے بتاؤ کہ زندگی کا اصول کیا ہے؟ تمام چیزیں اگر حقیقت میں ایک سی ہیں تو پھول کیوں ہیں ببول کیا ہے؟‘‘

امجد کا تخلیقی سفر چھ دہائیوں سے جاری ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اسے ہر دم متحرک رکھتی ہے۔ نئے منظروں کے خواب اسے اب بھی اپنی طرف بُلاتے ہیں لیکن اب وہ ان رنگوں کو دور سے دیکھتا ہے۔ کبھی کبھی شام کو لاہور میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگوں کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اپنا شعر یاد آجاتا ہے:؎
سمے کے سمندر، کہا تو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے