امام عالی مقامؓ کے خطبات… (حصہ اول تا دوم)

شبِ عاشور جب کہ موت سر پر کھڑی تھی ‘امامِ عالی مقام حضرت حسین بن علی رضِی اللّٰہُ عَنْہما نے رات کے پہلے پہر اپنے گھر والوں کو کچھ وصیتیں کیں اور فصیح وبلیغ کلمات میں حمد وصلوٰۃ بیان کرنے کے بعداپنے اصحاب کو فرمایا : ”تم میں سے جو بھی شخص آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہے‘ میں اسے بخوشی اجازت دیتا ہوں ‘کیونکہ دشمن کو صرف میں مطلوب ہوں‘‘مالک بن نضر نے کہا: ”مجھ پر قرض ہے اور پیچھے میرے بیوی بچے ہیں ‘ آپ نے فرمایا: ”رات کی تاریکی تم پر چھا چکی ہے ‘ اسے اپنے لیے آڑ بنائو‘ تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے کسی فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور اس رات کی تاریکی میں زمین کی وسعتوں میں نکل جائے ۔ اپنے شہروں اور بستیوں کا رخ کرو ‘بلاشبہ دشمن کو میں ہی مطلوب ہوں اور وہ صرف میرے ہی خون کے پیاسے ہیں ‘سو جب وہ مجھے پا لیں گے تو دوسروں کی تلاش سے بے نیاز ہوجائیں گے ‘ لہٰذاتم لوگ چلے جائو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی پیدا فرمائے‘‘۔

یہ سن کر آپ کے بھائیوں ‘بیٹوں اور بھتیجوں نے کہا: ”آپ کے بعد جینا کس کام کا ‘آپ کا ساتھ دینا ہمیں ہر حال میں پسند ہے‘‘۔ امام حسینؓ نے فرمایا: ” اے بنی عقیل! مسلم بن عقیلؓ پر جو بیت چکی اسے کافی سمجھو‘تم سب نکل جائو ‘ میں تمہیں بخوشی اجازت دیتا ہوں‘‘۔انہوں نے کہا: ”اے امام!لوگ ہمیں کیا کہیں گے کہ ہم نے اپنے شیخ ‘اپنے سردار اوراپنے بہترین چچا کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑدیا‘ہم نے آپ کے دفاع میں ایک تیر بھی نہ چلایا ‘ آپ کے دشمن کو ایک نیزہ بھی نہ گھونپااوراس کے خلاف تلوار بھی نہ چلائی ‘کیا یہ گریز جینے کی تمنا میں تھا‘نہیں ‘بخدا! ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے ‘بلکہ ہم اپنی جانیں‘ اموال ‘اہل وعیال حتیٰ کہ ساری متاعِ حیات کو آپ پر قربان کردیں گے اور آپ کے ساتھ لڑتے رہیں گے حتیٰ کہ آپ جیسے انجام سے دوچار ہوجائیں ‘ آپ کے بعد جینا کتنا بے لذت ہوگا ‘‘۔

مسلم بن عو سجۃُ الا سدی نے یہی بات کہی اور سعید بن عبد اللہ حنفی نے کہا: ”بخدا!ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ یہ دکھادے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی غیر موجودگی میں آخری سانس تک آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی حفاظت کی ہے ‘ بخدا! یہ تو ایک جان ہے ‘اگر مجھے یکے بعد دیگرے ایک ہزار زندگیاں بھی دی جائیں اور میں ایک ایک کرکے ہر زندگی کو آپ پر قربان کردوں ‘تو میرے لیے اس سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہوگی‘‘۔پھر آپ کے سب اصحاب نے اسی سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار کیا اور کہا: ”ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ‘ہماری جانیں آپ پر قربان ہوجائیں ‘ہم اپنے جسموں‘ اپنے ہاتھوں ‘اپنی پیشانیوں اور اپنے گلوں کو ڈھال بناکر آپ کی حفاظت کریں گے ۔ہاں!جب ہم آپ کی حفاظت میں قتل کردیے جائیں ‘عہد وفا کو نبھا لیں ‘تو پھر ہم پر جو بھی گزرے قبول ہے‘‘۔آپ کے بھائی عباسؓ نے کہا: ”ہمیں ایک دن بھی ایسا نصیب نہ ہو ‘جس میں آپ سامنے نہ ہوں‘ہمیں آپ کے بعد زندگی نہیں چاہیے‘‘ ۔

امام زین العابدینؓ نے کہا: ”جس صبح میرے بابا شہید ہوئے‘ اس رات میں بیٹھا ہوا تھا ‘ میری پھوپھی زینبؓ میری تیمار داری میں مصروف تھیں کہ میرے بابااپنے خیمے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ الگ ہوئے‘ ان کے ساتھ حُوی مولیٰ ابو ذرغفاری بھی تھے‘وہ اپنی تلوار کی دھار تیز کررہے تھے اورمیرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے:ترجمہ: ”اے زمانہ! تجھ پر اُف ہے ‘رفقامیں سے کس قدر ساتھی صبح وشام قتل کیے جاچکے ہیں اور تو اس پر بھی قانع نہیں ہے ‘ تمام امور کی بازگشت ربِ جلیل کی طرف ہے اور ہر ذی روح اپنے راستے کو طے کررہا ہے ‘‘۔

آپ نے یہ اشعار دو تین مرتبہ دہرائے حتیٰ کہ مجھے یاد ہوگئے اور آپ جو کہنا چاہ رہے تھے میں سمجھ گیا‘آنسوؤں سے میرا دم گھٹنے لگا‘ میں ان الفاظ کو دہرانے لگا اور پھر خاموش ہوگیا‘مجھے اندازہ ہوگیا کہ مصیبت سر پر آچکی ہے ‘میری پھوپھی حسرت زدہ ہوکر ان کے قریب گئیں اور کہا: ہائے ماں!کاش کہ آج میں زندہ نہ ہوتی ‘میری ماں فاطمہؓ ،میرے بابا علیؓ اور میرے بھائی حسنؓ وفات پاچکے‘اے اسلاف کے بہترین جانشین اوراخلاف کے فریاد رس!اے ابو عبداللہ !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں ‘آپ کی شہادت سر پر ہے ‘وہ فریاد کرتے کرتے بے ہوش ہوگئیں ‘امام عالی مقام نے ان پر پانی چھڑکا اور فرمایا: ”بہن!اللہ سے ڈر اور صبر کر‘اللہ سے صبر کی التجا کر ‘شیطان آپ کی بردباری کو ختم نہ کردے ‘جان لو! جو بھی زمین پر ہے‘ سب نے موت سے ہمکنار ہوناہے اور آسمان والوں کو بھی بقا نہیں ہے‘اللہ کے سواہرچیز نے فناہونا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے اپنی قدرت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور وہی اپنی قوت و غلبہ سے سب کو مار دے گا اور پھر زندہ کرے گا ‘پھر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہوگی‘وہ یکتا ہے۔ جان لو! میرے باپ مجھ سے بہتر تھے ‘میری ماں مجھ سے بہتر تھیں ‘میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے۔

میرے لیے ‘ان کے لیے اور ہر مسلمان کے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں نمونہ ہے‘‘ ۔پھرآپ نے اُنہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ” میرے مرنے کے بعدنوحہ وبین نہ کرنا‘چہرے کو نہ پیٹنا ‘سینہ کوبی نہ کرنا ‘پھر وہ پھوپھی جان کو لے کر میرے پاس آئے اور اپنے اصحاب کی طرف نکل گئے اور انہیں ہدایات دیں کہ خیموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دو حتیٰ کہ طنابیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑجائیں ‘دشمن کے لیے خیموں کی طرف ایک راستے کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑو ‘ خیموں کو دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف رکھو‘پھر امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب رات بھر نماز پڑھتے رہے ‘ استغفار کرتے رہے‘ گڑگڑاکردعائیں مانگتے رہے‘جبکہ دشمن کے گھوڑے نگرانی کے لیے ان کے گرد چکر کاٹ رہے تھے‘ (البدایۃ والنہایۃ:ج:8ص:176‘177)‘‘۔

مؤرخین لکھتے ہیں: ”مکہ معظمہ سے روانہ ہوتے وقت امام عالی مقام کے ساتھ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کھڑے تھے‘حضرت عبداللہ نے ان سے کہا:اے فرزند فاطمہؓ !نزدیک آؤ‘امام عالی مقام قریب ہوئے تواُنہوں نے سرگوشی کی ‘پھر امام ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:تمہیں معلوم ہے عبداللہ بن زبیر نے کیا کہاہے‘ہم نے عرض کی:ہم آپ پر فدا ہوں ‘ہمیں نہیں معلوم ‘آپ نے فرمایا: عبداللہ بن زبیر نے کہا:آپ اس مسجد میں ٹھہر یں ‘میں آپ کی حمایت کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں‘ امام عالی مقام نے فرمایا: ”بخدا! اگر میںاس مسجد سے ایک بالشت باہر شہید کیا جائوں تو یہ ایک بالشت اندر شہید ہونے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ اللہ کی قسم !اگر میں حشرات الارض کے کسی بل میں بھی گھس جائوں تو دشمن اپنے مذموم ارادوں کو پورا کرنے کے لیے مجھے نکال باہر کریں گے ‘بخدا !یہ میرے حوالے سے حق سے بالکل اسی طرح تجاوز کریں گے جیسے یہود نے ہفتے کے دن کی حرمت کو پامال کرکے کیا تھا ‘‘۔

پھر امام عالی مقام کوفہ روانگی کے لیے مکہ معظمہ سے اپنے اصحاب کے ساتھ رخصت ہوگئے ‘عبداللہ بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں:ہم مکہ مکرمہ سے باہر نکلے ‘ مقامِ صفاح پر پہنچے توعرب کے مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی‘وہ امام حسین ؓکے پاس رکا اوران سے کہا:اللہ آپ کی مراد پوری کرے ‘امام حسینؓ نے ان سے کہا:ہمیں لوگوں کے بارے میں کچھ بتائو‘فرزدق نے کہا:آپ نے ایک باخبر شخص سے پوچھا ہے ‘ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنو اُمیہ کے ساتھ ہیں ‘قضا وقدر کے معاملات اللہ کی طرف سے آتے ہیں ‘ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘امام عالی مقام نے فرمایا:آپ نے سچ کہا‘ہر معاملے کی زمامِ کار اللہ کے دست قدرت میں ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے ‘ہر دن ہمارے رب کی ایک نئی شان ہے ‘اگر اللہ کی قضا طے ہوچکی ہے ‘تو ہم اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں ‘ وہی مدد فرمانے والا ہے ‘ اگر اُمید کی راہ میں قضا حائل ہوگئی تو جس کی نیت حق ہو اور باطن تقویٰ سے لبریز ہو ‘ اسے کوئی پروا نہیں ہوتی ‘پھر آپ نے اپنی سواری کو ایڑ لگائی اور سلام کرکے جدا ہوگئے‘ (تاریخ طبری : ج:5ص:385)‘‘۔
کربلا کے سفرکے دوران خطبات:
(1):پھر جب امام حسین مقامِ زبالہ پہنچے تو وہاں آپ کو حضرت مسلم بن عقیلؓ،ہانی بن عروہؓ اور عبداللہ بن بقطرؓ کی شہادت کی اطلاع پہنچی‘آپ نے اپنے اصحاب کو ایک تحریر پڑھ کر سنائی:”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم!مسلم بن عقیل ‘ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطر شہیدکردیے گئے ہیں اور ہمارے حامیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے ‘لہٰذا تم میں سے جو شخص جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے‘ ہماری طرف سے اس کی کوئی مذمت نہیں ہوگی ‘یہ سنتے ہی سب لوگ متفرق ہوگئے‘ کوئی دائیں طرف کواورکوئی بائیں طرف کو روانہ ہوگیا‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ مدینہ طیبہ سے آپ کے ساتھ چلے تھے‘ صرف وہی باقی رہ گئے‘ (طبری :ج:5ص:399)‘‘۔

(2):پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ مقامِ شَراف پر پہنچے تو حُر ایک ہزار سواروں کا لشکر لے کر آپ کے مقابل آکھڑا ہوا۔ حُر نے آپ کو اس مقام پر روکے رکھا اور آگے جانے نہ دیا ۔اسی دوران نماز ظہر کا وقت آگیا‘ آپ نے حجاج بن مسعودؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ‘ انہوں نے اذان دی ‘پھر جب اقامت کا وقت ہوا تو امام حسین تہبند‘ چادر اور جوتے پہنے ہوئے اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا: ”لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور اور تمہارے سامنے ایک عذر پیش کررہا ہوں ‘چونکہ تم لوگوں کے خطوط اور تمہارے قاصد میرے پاس یہ پیغام لے کر آئے: ” آپ ہمارے پاس تشریف لائیں ہمارا کوئی امام نہیں ہے شاید آپ کے سبب اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر جمع فرمادے‘‘ ۔اس لیے میں تمہارے پاس آیا ‘اب اگر تم اس قول پر قائم ہو تو میں تمہارے پاس آچکا ہوں ‘تم میرے اطمینان کے مطابق مجھ سے پیمانِ وفا کرلو تاکہ میں تمہارے ساتھ تمہارے شہر چلوں ‘ اگر ایسا نہیں کرتے اور میرا آنا تم کو ناگوار ہے تو واپس چلا جاتا ہوں ‘ یہ سن کر سب لوگ خاموش رہے ۔پھر مؤذن نے اقامت کہی ‘امام عالی مقام نے حُر سے پوچھا : تم لوگ الگ نماز پڑھوگے‘حر نے کہا :ہم آپ کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے‘ پھر آپ نے سب کو نماز پڑھائی اور اپنے خیمے کے اندر تشریف لے گئے ‘ آپ کے تمام اصحاب وانصار سب آپ کے پاس جمع ہوگئے ‘حرواپس اپنے لیے نصب کردہ خیمے میں چلا گیا ‘اس کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے‘ باقی لوگ اپنی اپنی صفوں میں واپس آگئے ‘پھر امامِ عالی مقام نے سب کو عصر کی نماز باجماعت پڑھائی۔

(3) امام ابن جریر طبری (المتوفّٰی 310 ہجری) لکھتے ہیں: ”(عصر کی) نماز کے بعد سیدنا امام حسینؓ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”لوگو! اگر تم اللہ کا خوف کرو اور حق داروں کے حق کو پہچانو تو تمہارا یہ عمل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہو گا، ہم اہل بیتِ رسول ہیں، یہ لوگ جو تم پر حکومت کرنے کے دعویدار ہیں‘ اس کا انہیں حق نہیں ہے، یہ تمہارے ساتھ ظلم اور تعدّی سے پیش آتے ہیں، ان کی نسبت ہم حکومت کے زیادہ حق دار ہیں، اگر تم ہمیں پسند نہیں کرتے اور ہمارے حق سے واقف نہیں ہو اور تم نے اپنے خطوط میں اور قاصدوں کی زبانی مجھے پیغامات بھیجے ہیں، اب اگر تمہاری رائے اُن کی بابت تبدیل ہو گئی ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر حُر بن یزید نے کہا: خدا کی قسم! جن خطوط کا آپؓ ذکر کر رہے ہیں ان کا مجھے کوئی علم نہیں ہے، تو امام حسینؓ نے عقبہ بن سمعان سے کہا: وہ دونوں تھیلے لے کر آئو جن میں ان لوگوں کے خطوط ہیں، عقبہ وہ دونوں تھیلے نکال لائے، دونوں میں خطوط بھرے ہوئے تھے، سب کے سامنے ان خطوط کو بکھیر دیا، حر نے کہا: جن لوگوں نے آپؓ کو خطوط لکھے تھے، ہم ان میں سے نہیں ہیں، ہم کو حکم ملا ہے کہ ہم جہاں آپ کو پائیں، ابن زیاد کے پاس لے چلیں اور اس کے بغیر آپ کو نہ چھوڑیں۔ امام حسینؓ نے اس سے فرمایا: اس مقصد کوحاصل کرنے کی نسبت تمہارے لیے مر جانا زیادہ آسان ہے، پھر آپؓ نے اپنے اصحاب کو سوار ہونے کا حکم دیا، سب سوار ہو گئے اور انتظار کرنے لگے حتیٰ کہ ان کی مستورات بھی سوار ہو گئیں، آپؓ نے اپنے اصحاب سے کہا: ہم سب کو واپس لے چلو، پس جب وہ واپس جانے لگے تو حر کے لشکر والے مقابل آ گئے، اس پر امام حسینؓ نے کہا: تیری ماں تجھ پہ روئے، تو کیا چاہتا ہے؟ حر نے کہا: اللہ کی قسم! اگر اہلِ عرب میں سے کسی اور نے ایسا کلمہ میرے بارے میں کہا ہوتا تو چاہے وہ کوئی بھی ہوتا‘ میں بھی اس کی ماں کا ذکر اسی طرح کرتا مگر خدا کی قسم! میری مجال نہیں کہ میں حد درجہ تعظیم کے بغیر آپؓ کی ماں کا ذکر کرو ں۔ امام حسینؓ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں۔ امام حسینؓ نے کہا: اللہ کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا، میں تیری پیروی نہیں کروں گا‘‘۔ (تاریخ طبری: ج: 5، ص: 402)۔
(4) عقبہ بن ابی العیزار بیان کرتے ہیں: امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اور حر بن یزید کے اصحاب کو مقام بیضہ میں خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”لوگو! رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہو، اللہ کے عہد کو توڑتا ہو، رسولﷺ کی سنتوں کی خلاف ورزی کرتا ہو، بندگانِ خدا کے ساتھ ظلم و سرکشی کے ساتھ پیش آتا ہو اور پھر عملی یا زبانی طور یہ شخص ایسے حاکم پر اعتراض نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اس حاکم کے اعمال میں شریک فرمائے گا۔ آگاہ ہو جائو! ان حاکموں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے اور خدا کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے، فساد کو ظاہر اور حدود شرع کو معطل کر دیا ہے، مال غنیمت کو غصب، حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رکھا ہے، ان پر اعتراض کرنے کا سب سے زیادہ مجھے حق ہے، تمہارے خطوط میرے پاس آئے، تمہارے قاصد میرے پاس تمہاری طرف سے بیعت کرنے کے لیے آئے کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑوگے، مجھے دشمنوں کے حوالے نہیں کرو گے، اگر تم اپنی بیعت کو پورا کرتے ہو تو بہرہ مند رہوگے، میں حسین ہوں، علی و فاطمہ بنت رسول رضی اللہ عنہما کا فرزند ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل وعیال تمہارے اہل وعیال کے ساتھ ہیں، میں تمہارا پیشوا ہوں، اگر تم نے ایسا نہ کیا اور عہد و پیمان کو توڑا اور میری بیعت کو اپنی گردن سے اتار پھینکا، میری جان کی قسم! یہ بات تمہارے لیے کوئی نئی بات نہیں، یہی سلوک تم نے میرے باپ، میرے بھائی اور میرے چچا زاد مسلمؓ بن عقیل کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے تم پر بھروسا کرکے دھوکا کھایا اور جس نے بدعہدی کی، اس کا وبال اُسی پر آئے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا۔
(5) مقام ذی حَسم پر آپؓ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: ”تم لوگ دیکھ رہے ہو کیا حال ہو رہا ہے، دنیا بدل چکی ہے، پہچانی نہیں جاتی، نیکیاں روگرداں ہو گئیں، اب صرف برتن کا دھووَن باقی رہ گیا ہے اور بدترین اور ناگوار زندگی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا، باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا، مومن کو اب چاہیے کہ حق پر رہ کر خدا سے ملاقات کرے، میں دیکھتا ہوں کہ مر جانا شہادت ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ناگوار امر ہے‘‘ (تاریخ طبری: ج: 5، ص: 403)۔
خطبۂ یومِ عاشور: امام ابن کثیر (المتوفّٰی 774 ہجری) لکھتے ہیں: ”پھر امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے، قرآنِ کریم کو اٹھایا اور اپنے سامنے رکھا، پھر قوم کی طرف رُخ کیا درآں حالیکہ آپ ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا مانگ رہے تھے: ”اے اللہ! ہر مصیبت میں تیری ہی ذات پر میرا بھروسا ہے اور ہر مشکل میں تو ہی میری امید ہے‘‘، پھر آپؓ کے شہزادے علیؓ بن حسین ایک گھوڑے پر سوار ہوئے، وہ کمزور اور بیمار تھے، امام حسینؓ نے بلند آواز میں فرمایا:” لوگو! میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں، توجہ سے سنو!‘‘ سب لوگ خاموش ہوگئے، امامِ عالی مقامؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: لوگو! اگر تم مجھ سے نصیحت قبول کرتے ہو اور میرے ساتھ انصاف کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے سعادت کی بات ہوگی اور تم پر میرا کوئی زور نہیں ہے اور اگر تم میری نصیحت قبول نہیں کرتے تو تم اپنے (خود ساختہ) آقائوں کے ساتھ مل کر سازش کو پختہ کرلو پھر تمہیں اپنے فیصلے میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے، ”پھر تم جو کچھ میرے خلاف کر سکتے ہو، وہ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو‘‘ (یونس: 71)۔ ”بے شک میرا مددگار اللہ ہے، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک لوگوں کی مدد کرتا ہے‘‘ (الاعراف: 196)۔ جب آپؓ کی بہنوں اور بیٹیوں نے یہ سنا تو وہ بلند آواز سے رونے لگیں، اس پر آپؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابن عباسؓ پر رحم فرمائے، انہوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اپنے ساتھ خواتین کو لے کر نہ جائیں اور معاملات درست ہونے تک ان کو مکہ میں رہنے دیں، پھر اپنے بھائی عباسؓ کو بھیجا تو اس نے ان کو خاموش کر دیا، پھر آپؓ نے لوگوں کو اپنی (ذاتی) فضیلت، نسب کی عظمت، مرتبے کی بلندی اور بزرگی بیان فرمائی، آپؓ نے فرمایا: اپنے ضمیر کو ٹٹولو اور اپنا محاسبہ کرو، کیا تمہارے لیے مجھ جیسے شخص کا قتل جائز ہے اور میں تمہارے نبیﷺ کی بیٹی کا بیٹا ہوں، روئے زمین پر میرے سوا کسی نبی کی بیٹی کا کوئی بیٹا نہیں، علی رضی اللہ عنہ میرے والد ہیں، جعفر ذوالجناحین رضی اللہ عنہ میرے چچا ہیں، حمزہ سیدالشہداء رضی اللہ عنہ میرے والد کے چچا ہیں، میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ”یہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘، اگر تم میری بات کی تصدیق کرتے ہو تو میں سچ کہتا ہوں، اللہ کی قسم! جب سے میں نے جانا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر ناراض ہوتا ہے، میں نے جھوٹ نہیں بولا، اگر ایسا نہیں ہے تو رسول اللہﷺ کے اصحاب سے اس بارے میں پوچھ لو، حضرات جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، سہل بن سعد، زید بن ارقم اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم تمہیں اس بارے میں بتا دیں گے، تم پر افسوس ہے، کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے، کیا یہ میرا خون بہانے سے تمہارے لیے رکاوٹ نہیں ہے، تو اس وقت شَمِر بن ذی الجَوشَن نے کہا: وہ ایک کنارے پر کھڑا ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے، اگر میں جانتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں تو حبیب بن مطہر نے اس کو جواب دیا: خدا کی قسم اے شمر! تم ستر کناروں پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہو، اللہ کی قسم! جو وہ کہہ رہے ہیں ہم جانتے ہیں اور بے شک تیرے دل پر مہر لگ چکی ہے، پھر امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ”لوگو! مجھے چھوڑدو تاکہ میں ایسی جگہ لوٹ جائوں جہاں میرے لیے امان ہو اورکوئی خوف وخطر نہ ہو‘‘، انہوں نے کہا: آپ اپنے چچا زاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے، تو آپؓ نے فرمایا: معاذ اللہ! میں ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ (غافر:27)۔ پھرآپؓ نے اپنی سواری کو بٹھایا اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا تو اس نے سواری کو باندھ دیا، پھر فرمایا: مجھے بتائو کیا میں نے تم میں سے کسی کو قتل کیا ہے، جس کا تم مجھ سے مطالبہ کرتے ہو یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے یا کسی زخم کا قصاص مانگتے ہو، اس پر وہ لوگ خاموش ہوگئے۔ راوی کہتا ہے: پھر آپؓ نے بلند آواز سے پکارا: اے شبیث بن رَبعی، اے حجار بن اَبجُر، اے قیس بن الاَشعث، اے زید بن الحارث، کیا تم نے مجھے نہیں لکھا کہ پھل پک چکے ہیں اور درخت سبز ہو چکے ہیں، آپ ہمارے پاس تشریف لائیں، آپ ایک تیار فوج کے پاس تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا: ہم نے ایسا نہیں کہا، آپؓ نے فرمایا: خداکی قسم ! تم نے ایسا ہی کہا ہے، پھر فرمایا: لوگو! جب تم مجھے ناپسند کرتے ہو تو مجھے چھوڑدو تاکہ تمہارے پاس سے چلا جائوں، تو قیس بن الاشعث نے کہا: تم اپنے چچا زاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے وہ تمہیں تکلیف نہیں دیں گے اور آپ ان کو اچھا پائیں گے۔ امام حسینؓ نے اس سے فرمایا: تم اپنے بھائی کے بھائی ہو، کیا تم چاہتے ہو کہ بنوہاشم تم سے مسلمؓ بن عقیل کے خون سے زیادہ کا مطالبہ کریں، نہیں! اللہ کی قسم! میں ذلیلوں کی طرح اس کی بیعت نہیں کروں گا اور نہ غلاموں کی طرح اس کو تسلیم کروں گا‘‘ (اَلْبِدَایَۃ وَالنِّہَایَۃ: ج:8، ص:180)۔
ستم یہ ہے کہ محبتِ حسینؓ کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں، ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں، علامہ اقبال نے سچ کہا تھا: ؎
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ و فرات

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے