دو ہزار چودہ میں جب عمران خان نے دھرنا دیا تو بہت سے لوگوں نے اس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لیں۔ میڈیا جو کچھ اس وقت کر رہا تھا ہم اس وقت بھی اس پہ احتجاج کرتے تھے کہ کسی سیاسی جماعت کے جلسے کو اتنی کوریج نہیں ملتی جتنی مینار پاکستان کے جلسے سے پی ٹی آئی کو ملا کرتی۔ جلسہ اس طرح دکھایا جاتا کہ بسم اللہ سے صدق اللہ العظیم تک مکمل دکھایا جاتا۔ اس میں غیر معروف سیاستدانوں کی تقریروں کے ساتھ ابرار الحق، عطا اللہ اور سلمان کے گانے بھی مکمل چلائے جاتے جو پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔
اس سٹیج سے تمام سیاست دانوں پہ الزامات لگائے جاتے مگر اس کا جواب چلانے کی اجازت کسی چینل کو نہ تھی۔ حال یہ تھا کہ عمران خان اکثر خالی کرسیوں سے خطاب کر رہے ہوتے مگر چینلز کو خالی کرسیاں دکھانے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔ اکثر وہاں ریکارڈڈ کراو¿ڈ چلایا جاتا۔ایسا بھی ہوا کہ لندن سے ایک دوست کا فون آیا تو اس نے کہا دیکھا پھر خان کا دھرنا۔۔ بیس پچیس لاکھ لوگ ہیں، میں ہنس پڑا۔۔ اس وقت تک چونکہ وڈیو کال کی سہولت میسر نہیں تھی تو میں نے اسے وڈیو بنا کر بھیجی جہاں شاید دو ڈھائی سو لوگ بھی نہیں تھے۔۔وہ کہنے لگا تم سٹیج کے پیچھے کھڑے ہو میں لائیو دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اسے سٹیج کے بالکل نیچے کھڑے ہو کر وڈیو بھیجی۔جس میں عمران خان تقریر فرما رہے تھے اور نیچے چند درجن لوگ ٹولیوں کی صورت کھڑے تھے، میرا خیال تھا وہ اب کہے گا، یار یہ میڈیا والے جھوٹی وڈیو کیوں دکھا رہے ہیں لیکن اس نے مجھے جھٹ سے پٹواری اور لفافے کا خطاب دیا۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ جناب فرق یہ ہے کہ آپ لائیو ٹی وی پہ دیکھ رہے ہیں اور میں یہاں بذات خود موجود ہوں۔۔لیکن وہ عمران خان کے سپورٹر ہی کیا جو دلیل پہ قائل ہو جائیں اور ویسے بھی اس وقت تمام کے تمام چینلز عمرانیات کو دنیا کا سب سے اچھا مضمون مان چکے تھے۔ جو کچھ بھی کہا جاتا وہ دکھایا جاتا، اکثر جو کچھ وہاں ہوتا وہ ایک چینل کے سوا سب کے سب ایمانداری کے ساتھ چھپا جاتے۔
خود میں نے ایک لڑائی کے بعد ایک واقعہ کی فوٹیج بنوائی لیکن وہ ہمارے چینل پہ چل نہیں سکی۔ بہرحال اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ شاید بہت سے لوگوں کو علم نہیں کہ ایک ادارہ پاکستان میں ایسا بھی ہے جس کی ملک میں اجارہ داری ہے۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں اس ادارہ کی بات کر رہا ہوں جو الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ جاری کرتا ہے اس ریٹنگ پر اشتہارات ملتے ہیں، اس ادارہ کا سربراہ بھی سٹیج پہ موجود ہوتا اور جو اینکر بھی عمران خان کا انٹرویو کرتا اس کی ریٹنگ کا تعین وہیں کیا جاتا۔ اس دھرنا کی بنیاد تھی 2013 کے انتخابات میں پینتیس پنکچر کا الزام، عمران خان کا کہنا تھا نجم سیٹھی نے پنجاب میں پینتیس نشستوں پہ دھاندلی کرتے ہوئے ن لیگ کو جتوایا اور پی ٹی آئی کے امیدواران کو ہرایا گیا۔ بعد میں اپنے دوست حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے اپنے اس پینتیس پنکچر کے الزام کو سیاسی بیان قرار دیا۔
بطور اپوزیشن عمران خان نے الزام تراشی، بد زبانی اور گالم گلوچ کی نئی روایات کو جنم دیا۔ ایک ایسا کلچر متعارف کروایا جہاں کسی مخالف کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ جب تک کوئی سیاستدان پی ٹی آئی کا ترنگا اپنے گلے میں نہیں بندھواتا اس وقت تک وہ کرپٹ قرار پاتا ہے تاہم جیسے ہی وہ مشرف بہ عمران ہوتا ہے، وہ دنیا کا سب سے ایماندار اور پیارا سیاستدان بن جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو بابر اعوان، فردوس اعوان، نذر گوندل کی مثال ہی لے لیں۔ حتیٰ کہ آج شہباز شریف اگر پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر دیں تو ان کے تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
کنٹینر پہ چڑھ کے بجلی اور گیس کے بل کو آگ لگاتے ہوئے عمران خان کہتے تھے کہ بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو حکمران وہ رقم چوری کر رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا بھی اضافہ ہو تو سمجھے کہ آپ کا حکمران چور ہے اور اربوں روپے اس کی جیب میں چلے گئے ہیں۔ آج الحمد للہ، بجلی گیس کے بلوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قدر میں ساٹھ روپے کے قریب اضافہ ہو چکا ہے پھر بھی بندہ ایماندار ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں جب ملکی معیشت ترقی کر رہی تھی اور جی ڈی پی پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی اس وقت اس ملک کے ایک بڑے ادارے کے ترجمان نے معیشت کو مایوس کن قرار دیا۔ عمران خان کی حکومت میں وہی جی ڈی پی جب منفی صفر اعشاریہ پانچ ہوئی تو وہ اسی ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کینسر کا علاج کرتے ہوئے تکلیف تو ہوتی ہے۔ ملکی معیشت کو پستی کے کیچڑ میں گھسیٹنے والے فخر سے کہتے ہیں آئندہ حکومت بھی کارکردگی کی بنیاد پر ہم ہی بنائیں گے۔ ہمارا ویژن والا کپتان یہ جانتا ہے کہ آزاد میڈیا، سوشل میڈیا اور موجودہ الیکشن نظام میں تو ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے وہ میڈیا، سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ انتخابی نتائج کو بھی قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔
ان سب بد حالیوں، معاشی خرابیوں، مہنگائی، بے روز گاری، بد امنی، لاقانونیت کے باوجود جب پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کو نیند سے جگا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے لیے لایا گیا تو انہوں نے بند آنکھوں کے ساتھ کہا دنیا کو عمران خان کی مریدی اختیار کرنی چاہئے۔ ان کی نیند کی انتہا دیکھئے کہ انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ان کی حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے میڈیا کو پریس گیلری میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے تالے لگوا دئیے تھے۔ وہ روانی میں میڈیا کا شکریہ ادا کر رہے تھے لیکن ان کی نظر جیسے ہی پریس گیلری پہ پڑی تو وہ حیران رہ گئے۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میڈیا کا اب شکریہ ادا نہیں کرنا بلکہ ان کی باگیں کھینچنی ہیں۔کم بخت اگر ہمیں اقتدار میں لانے کے لیے ہمارے جھوٹے الزامات یہ چوبیس گھنٹے چلا سکتے ہیں تو پھر ہمیں نکالنے کے لیے تو حقائق ہی بے پناہ ہوں گے اس لیے انہیں کنٹرول کرنے کے لیے فواد چوہدری کو دوبارہ وزیر اطلاعات بنایا گیا۔ ان سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کا مسودہ تیار کر ایا گیا۔ فیک نیوز پہ ایک نجی چینل سے نکالے جانے والے فواد چوہدری ان فیک نیوز کے نقصانات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ غلط خبر پہ رپورٹر کو دس کروڑ روپے اور ادارہ کو پچیس کروڑ روپے تک جرمانہ کیا جائے۔ بہرحال ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ میڈیا کے سرپھرے لوگ جیل جانے سے بھی نہیں ڈرتے، کوڑے کھانے سے بھی نہیں ڈرتے۔یہ کبھی ڈکٹیٹرز سے نہیں خوف زدہ ہوئے تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟۔
بہرحال اپنے خطاب میں صدر صاحب کی یہ بات سب سے اچھی تھی کہ دنیا عمران خان کی مرید بن جائے اور ان سے سیکھے۔ ظاہر ہے دنیا کے لیے تو یہ سیکھنا بہت ضروری ہے کہ تین سال بھی صفر کارکردگی کے ساتھ آپ ہر طرح کی خرابیوں کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر کیسے ڈال سکتے ہیں۔الزام لگا کر کیسے مکر جائیں، جھوٹ بول کر بھی چہرے پہ شرمندگی نہ ہو، یو ٹرن پہ یوٹرن لیں مگر صادق اور امین ہی رہیں۔ آپ کے دائیں بائیں جہانگیر ترین، عامر کیانی، ظفر مرزا، ندیم بابر جیسے لوگ تباہی مچائے رکھیں اربوں روپے کے گھپلے ہو جائیں لیکن آپ نے خود کو کیسے ایماندار ثابت کرنا ہے یہ تو سب کو آپ سے سیکھنا چاہئے بلکہ یہ سیکھنے کے بجائے پیر خان کی مریدی اختیار کرنی چاہئے کہ ایسا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔