16دسمبر2014ءکوآرمی پبلک سکول کے ہولناک واقعے میں 132طلباءسمیت143افرادجاں بحق ہوئے تھے تاہم ساڑھے تین سال تک مختلف پلیٹ فارمزپروالدین کی جانب سے شدیداحتجاج کے بعد مئی2018ءمیں پشاورمیں قائم سپریم کورٹ رجسٹری میں اسوقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے درخواست منظورکرتے ہوئے وعدہ کیاکہ آرمی پبلک سکول واقعے کی تحقیقات کےلئے کمیشن قائم کیاجائے گا کچھ ماہ بعدپانچ اکتوبر2018ءکو سپریم کورٹ کی جانب سے کمیشن قائم کیاگیاجس کے سربراہ جسٹس محمدابراہیم خان تھے اوراس کمیشن کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ چھ ہفتوں میں اپنی رپورٹ مرتب کرے تاہم مختلف وجوہات کی بناءپراس کمیشن نے 21ماہ بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کردی اس رپورٹ میں والدین،صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام،فوج کے افسروں،سپاہیوں،ضلعی انتظامیہ اوردیگرکئی لوگوں کے بیانات قلمبندکئے گئے ۔
[pullquote]اے پی ایس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں کیابتایا گیاہے۔۔؟[/pullquote]
پشاورہائیکورٹ کے جسٹس محمدابراہیم خان پرمشتمل یک رکنی کمیشن نے سینکڑوں افرادکے بیانات قلمبندکرنے کے بعد رپورٹ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کی یہ رپورٹ525صفحات پرمشتمل ہے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ وزارت دفاع نے کمیشن کوبتایاہے کہ مجموعی طور پر آرمی پبلک سکول کے ہال میں بچوں کوتربیت دینے والے ڈاکٹرمیجرعاصم سمیت پانچ اہلکاروں کو برطرف کیاگیاہے اسی طرح حولدار منظرحسین شاہ اور پانچ سپاہیوں کو28،28کی قید بھی دی گئی ہے اور یہ قید انکے آئندہ پوسٹنگ پربری اثرات مرتب کرسکتی ہے اس کے علاوہ دس اہلکاروں کو مزیدسزاوارٹھہراتے ہوئے ان کی حساس مقامات پر تعیناتی نہ کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دوسری ملازمت پرپابندی عائد کی گئی ہے جن میں بریگیڈئرمدثرعالم،لیفٹیننٹ کرنل حضر ت بلال،لیفٹیننٹ کرنل مظفرالدین انصاری،میجرمحمداسجدبگٹی شامل ہیں تاہم کمیشن نے سفارش کی ہے کہ بریگیڈئرمدثراعظم اورلیفٹیننٹ کرنل حضرت بلال کی سزا کو ختم کیاجائے کمیشن رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 28اگست2014ءکو نیکٹاکی جانب سے جوتھریٹ لیٹرجاری کیاگیاتھا جس کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈرعبیداللہ فوج کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر حملہ کرسکتاہے.
رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ ایک عمومی تھریٹ لیٹرتھا لیکن آرمی پبلک سکول کی انتظامیہ کو سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے بری الزمہ قرارنہیں دیاجاسکتا سکیورٹی میں جوسقم تھا اس کاخاتمہ ہوناچاہئے اورمزید سکیورٹی کے سخت انتظامات ہونے چاہئے تھے کمیشن رپورٹ میں کہاگہاہے کہ مختلف فوجی اہلکاروں کے بیانات کے مطابق پشاورکینٹ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن کے باعث دہشتگردی کے نشانے پرتھااورساتھ ہی سکول کے قریب واقع کالونی ،افغانستان کی جانب سے لوگوں کی بلاٹوک آمدورفت ،عام لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت اوربے ہنگم آبادی وہ عناصرتھے جواس حملے میں کارفرماثابت ہوئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ آرمی کے زیرانتظام سکولوں کوسکیورٹی فراہم کرنا کورہیڈکوارٹرکی ذمہ داری تھی اوریہ ذمہ داری انہوں نے فراہم کی سکول کےلئے دوویلیجنس ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں لیکن دہشتگردان کی توجہ ہٹانے میں کامیاب رہے اورچارکلومیٹر دور ایک گاڑی کوجلاکرویجیلنس ٹیموں میں سے ایک کی توجہ ہٹانے میں کامیاب رہے جس کے باعث دہشتگردسکول میں داخل ہوگئے اگرویجیلنس ٹیموں کی گاڑی اپنا راستہ نہ بدلتی تو دہشتگردوں کو روکاجاسکتاتھا ۔
[pullquote]کمیشن کے مطابق کالعدم تنظیموں نے کیاکیاہے۔۔؟[/pullquote]
آرمی پبلک سکول کے حوالے سے قائم جسٹس محمدابراہیم کی سربراہی میں قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ دسمبر2014ءکو کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو اہم اجلاس ہوا جس میں سکول پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی دہشتگردوں پرمشتمل خصوصی گروپ بنایاگیا اور انہیں قبائلی ضلع خیبرکے علاقہ شین درنگ میں تربیت دی گئی تاکہ وہ حملے کے دوران زیادہ سے زیادہ اہداف کوحاصل کرسکیں کمیشن رپورٹ کے مطابق آرمی پبلک سکول پرحملے کی جامع منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اوریہ تاثر حقیقت پرمبنی ہے کہ افغانستان میں اس دورمیں بھارتی خفیہ ایجنسی راکااثرورسوخ بہت زیادہ تھا جس کے باعث سینکڑوں بچوں او رعملے کو شہید کیاگیا ابتدائی طورپر آرمی پبلک سکول واقعے کی تحقیقات کےلئے ایس پی سی ٹی ڈی ،ایس پی انٹلی جنس اورآرمی کے ایک ریٹائرڈافسرپرمشتمل جے آئی ٹی بنادی گئی اس کمیٹی نے 136زخمیوں اور شہید کے لواحقین کے بیانات قلمبندکئے لیکن بعدازاں کمیٹی کواپناعمل روکناپڑاکیونکہ کمیٹی اراکین کے مطابق والدین شدید ذہنی اذیت سے گزررہے ہیں اورانہیں بیانات دینامشکل ہورہاہے ان تمام بیانات کو بعدازاں کورہیڈکوارٹرپشاورنے اپنی تحویل میں لے لیا کمیشن رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اس عمل سے شہیدبچوں کے والدین کویہ تاثرملاکہ یہ حرکت انہیں آئینی وقانونی حق سے روکنے کے مترادف ہے ۔