کیا عالمی جنگ ناگزیر ہے؟

آج دنیا بھرمیں تہذیبی تصادم کا فلسفہ روبہ عمل ہے، عظیم تر مشرق وسطیٰ کا نظریہ بھی لاگو ہے،جس میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر ریاستوں کے درمیان تصادم کراکے مسلمانوں کو کمزور کرنا مقصود ہے، جس کے بعد عراق، شام، ایران، ترکی، پاکستان کی سرحدوں میں ردوبدل کا معاملہ ہے، عراق تقسیم ہوچکا ہے، شام میں خون بہہ رہا ہے، ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، 40 لاکھ کے قریب نقل مکانی کرچکے ہیں، ترکی، روس، امریکہ اور مغربی ممالک یہاں صف آرا ہیں، ایک ایسی تنظیم کے خلاف جو امریکہ اور مغرب کی پیداوار ہے اورجوکہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے، اُس کا بہانہ بنا کر اِس خطے کو میدانِ جنگ میں تبدیل کیا جارہا ہے مغربی ممالک میں مسلمان دشمنی اس طرح بڑھائی جارہی ہے تاکہ ساری غیر مسلم دُنیا مسلمانوں کے خلاف جنگ کیلئے تیار ہوجائے، اسی طرح سعودی عرب سُنّی ممالک کا اتحاد بنانے کا اعلان کرچکا ہے کہ 34 اسلامی ممالک داعش جو مغرب کی پیداوار ہے،کے خلاف لڑیں گے، اِس میں ایران، عراق اور شام کو شامل نہیں کیا گیا ۔ یہ اتحاد بن گیا تو ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ مسلمان ممالک کے درمیان تصادم ہوجائے۔

دوسری طرف امریکہ، روس اور چین کو اطاعت پر آمادہ کرنے کیلئے اُن پر دبائو بڑھا رہا ہے اور یورپ کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے روس کا خوف اُن پر طاری کررہاہے ۔ امریکہ کی پالیسی ہے کہ دہشتگردی میں اضافہ ہو ، ہر وقت خون بہتا رہے اور حالت جنگ میں رکھ کر دُنیا پر بالادستی قائم رکھی جائے اور کسی طاقت یا طاقتوں کے گروپ کو جو امریکہ کو چیلنج کرسکے یکجا نہ ہونے دینا ہے۔ اس وقت روس اور چین نے امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہوا ہے اس لئے وہ چین اور روس کو بھی پھنسانا چاہتا ہے۔ داعش امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار ہے، ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ امریکہ کا اثاثہ ہے اور اس کے مقا صد میں شام کی حکومت کو ختم کرکے شام کوتقسیم کرانا ، روس کو شام سے نکالنا اور ایران کا لبنان میں حزب اللہ سے رابطے کو توڑنا بھی شامل ہے، شام میں روس کاایک بحری اڈہ بحراوقیانوس کی بندرگاہ طارطوس میں ہے اور فضائی اڈہ لطاکیہ میں ہے، اُن کو ختم کرنا بھی مقصود ہے،اِس صورتِ حال کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اقوام متحدہ کی سترویں سالگرہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی صورتِ حال روس کیلئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے، چنانچہ دو روز بعد اس نے داعش کے خلاف جنگ شروع کردی اور اس پر کروز میزائل کی بارش کردی، جس سے داعش کا اسلحہ خانہ اور تیل کے ڈپو تباہ ہوگئے، بشارالاسد کو اس طرح مدد دی کہ اُس کی پیچھے ہٹتی ہوئی افواج پیش قدمی کرکے داعش کو دھکیلنے لگیں۔ امریکہ نے اِس صورتِ حال میں ترکی کے ذریعے اس کا طیارہ گرا کر تنبیہ کرنے کی کوشش کی۔ روس نے اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا، صرف ترکی کو وارننگ دی، جس پر امریکہ نے اُس کو ’’کاغذی شیر‘‘ کہہ کر یورپ، یوکرائن، جارجیا اور مونٹی نیگرو کے ممالک کو تسلی دی کہ روس میں دم خم نہیں ہے اس لئے وہ ڈٹے رہیں۔ تاہم روس نے اپنا بحری بیڑہ بحراوقیانوس میں بھیج دیا، جو ایٹمی اسلحہ سے لیس ہے، وہ بحر کیسپئن میں استعمال ہونے فلوٹیا جہاز، KAB-500 کروز میزائل جو سیٹیلائٹ سے جڑا ہوا ہے، SU-24 جہازجو کسی بھی متحرک چیز کو منجمد کرسکتے ہیں اور Mi-24 ہیلی کاپٹر لطاکیہ کے فضائی اڈےپر بھیج دیئے ہیں۔
امریکہ نے ایک طرف ترکی کو روس کے خلاف اکسا کر جہاز کو گروایا اور اب اُس کو تنہا کررہا ہے اور یہ خبریں پھیلا رہا ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ کا احیاء اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ترکی کے سلطان بننا چاہتےہیں۔ تمام مغربی ممالک کے اخبارات اِس قسم کے پروپیگنڈےکو روزبہ روز بڑھاتے جارہے ہیں۔ ایک تیر سے دو شکار۔ ترکی یا کوئی مسلمان ملک یہ نہیں سمجھتا کہ امریکہ دہشتگردی کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ پروان چڑھتا ہے اور مسلمانوں اور یورپ کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ترکی روس کا جہاز نہ گراتا تو اچھا تھا کہ اس طرح وہ تنہائی کی طرف نہ بڑھتا، ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایران، ترکی سے اختلافات کے باوجود ترکی اور روس کے تعلقات مزید خراب ہونے سے رکوا دے کیونکہ یہ مسلمانوں کیلئے بہتر ہے۔ مسلمان جنگ کا ایندھن بن رہا ہے۔

پاکستان کو یہ خیال رکھنا ہے کہ اس نے یمن میں اپنی فوج نہ بھجوا کر یمن کے دلدل میں پھنسنے سے اپنے آپ کو بچا لیا، اس دفعہ ریاض کی طرف سے سُنّی ممالک پر مشتمل اتحاد یہ مسلمانوں کیلئے اور بھی خطرناک ہے کہ وہ فرقہ واریت پر منتج ہوگا۔ ویسے امریکہ اور روس و چین جنگ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، ایک سے ایک جدید ہتھیار سامنے آرہے ہیں، اسی طرح جیسے دو پہلوان اکھاڑے میں کودنے سے پہلے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر اکھاڑے میں آکر پنجہ آزمائی کرکے اُس کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہیں، اس وقت یہی ہورہا ہے۔ روس جنگ کو روکنے کیلئے یورپ کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام ہوگیا ہے مگر اُسے ایک اور کوشش ضرور کرنا چاہئے تاکہ یورپ امریکہ کا ساتھ چھوڑ دے یا نیوٹرل ہوجائے تو دُنیا پر جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور دُنیا کے کروڑوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔ پال کریگ روبرٹس نے جو امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری مالیات رہے ہیں نے اپنے ایک مضمون میں روس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یورپ کو تیل بیچنا بند کردے، اس سے اس کو معاشی نقصان تو ہوگا مگر وہ یورپ کو جگانے میں کامیاب ہوجائے گا اور جنگ کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ دوسرے وہ یوکرائن کے روسی اثر والے صوبے اپنے ملک میں شامل کرلے تو یوکرائن جنگ کرے گا تو وہ جارح مانا جائے گا۔ زیادہ تر امکان یہ ہے کہ وہ روس پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ روس یورپ کو جگانے میں ناکام ہوا تو جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔

روسی یہ ضرور کررہے ہیں کہ امریکہ کے مہلک ترین ہتھیار داعش کو کمزور کررہے ہیں جس کو روکنے کیلئے امریکہ کو خاص بندوبست کرنا پڑے گا۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور نیٹو ممالک کے جیٹ طیارے شام کے اطراف روس کو ڈرانے کے لئے موجود ہیں۔ مگر یہ روس کی بقا کا معاملہ ہے اس لئے وہ بے دریغ جدید اسلحہ استعمال کرکے فی الحال داعش کو پسپائی پر مجبور کررہا ہے۔ امریکہ کے قدامت پسند دانشور، اسلحہ انڈسٹری کے مالکان، جو امریکی پالیسی کو کنٹرول کرتے ہیںوہ روس کو مجبور کررہے ہیں کہ روس کے پاس اب جنگ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کے امکانات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جنگ کی تیاری شروع ہوجائے تو جنگ ہو کر رہتی ہے کیونکہ پھر وہ خود راستہ بناتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کہاں سے شروع ہوتی ہے اور یہ کتنی بڑی تباہی لے کر آئے گی؟

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے