پاکستان کے آخری اسکول میں

مختار مسعود صاحب کو کون نہیں جانتا‘ یہ بیوروکریٹ کم مصنف‘ مصنف کم دانشور اور دانشور کم صاحب دل تھے‘ اردو ادب کو آواز دوست‘ سفر نصیب اور لوح ایام جیسی طلسماتی کتابیں دیں‘ لاہور میں مینار پاکستان بنایا‘ منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔

اسلام آباد میں زرعی ترقیاتی بینک کی12 منزلہ عمارت بنوائی‘ یہ 1990کی دہائی تک وفاقی دارالحکومت کی بلند ترین اور خوب صورت ترین عمارت تھی‘مختار صاحب نے اس عمارت کی بنیاد دفتر کے چپڑاسی سے رکھوائی تھی‘ مختار صاحب زندگی کے آخری دور میں گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔

میل ملاقات ترک کر دی‘ 2002 میں ارشاد احمد حقانی صاحب کا کالم پڑھا‘ حقانی صاحب نے ’’ریڈ فاؤنڈیشن‘‘ کے اسکولوں اور تعلیمی انقلاب کا ذکر کیا‘ یہ حقانی صاحب سے ملے‘ اسلام آباد میں ریڈ فاؤنڈیشن کے دفتر آئے اور ایک اسکول فنڈ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا‘ ریڈ فاؤنڈیشن کے اس وقت تک 135اسکول تھے (آج ان کی تعداد 390ہے)‘ فہرست میں چوکی گاؤں کا نام بھی تھا‘ فاؤنڈیشن وہاں کرائے کی عمارت میں چھوٹا سا اسکول چلا رہی تھی۔

مختار مسعود یہ نام پڑھ کر چونک اٹھے‘ ان کے دادا ڈیڑھ سو سال پہلے جموں سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تھے‘ وہ راستے میں ایک رات چوکی گاؤں میں رکے تھے‘ دادا ڈائری لکھا کرتے تھے‘ انھوں نے ڈائری میں لکھا‘ چوکی گاؤں کے لوگ بے انتہا مہمان نواز اور خدمت گزار ہیں‘ میں مسافر تھا‘ مجھے وہاں رات پڑ گئی۔

لوگ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میری بے انتہا خدمت کی‘ میں زندگی بھر ان کی خدمت کو بھلا نہیں سکوں گا‘ مختار مسعود بچپن میں دادا کی ڈائری پڑھتے رہے تھے لہٰذا چوکی کا لفظ ان کے حافظے میں درج ہو گیا‘ انھوں نے فاؤنڈیشن کی انتظامیہ سے چوکی کے بارے میں پوچھا‘ تصدیق ہو گئی یہ گاؤں پرانے جموں سیالکوٹ روڈ پر آباد ہے‘ مختار صاحب نے اس اسکول کو اون کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اپنی ساری جمع پونجی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دی‘ اسکول کی تعمیر شروع ہوئی اور 2005 میں عمارت مکمل ہوگئی‘ مختار مسعود کو افتتاح کی دعوت دی گئی۔

ان کی تین شرطیں تھیں‘ اسکول پر میرے نام کی تختی نہیں لگے گی‘ افتتاح کے لیے کوئی تقریب نہیں ہو گی اور میں اتوار کو چھٹی کے دن اسکول آؤںگا‘ فاؤنڈیشن کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ مختار صاحب اتوار کے دن اسکول آئے‘ بلیک بورڈ پر چاک سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا اور چوکی گاؤں کے لوگوں کا قرض ادا کر کے واپس چلے گئے‘ مختار صاحب نے انتقال سے قبل اپنی لائبریری بھی اسکول کو عطیہ کر دی تھی اور مزید رقم دے کر گرلز اسکول بھی بنوا دیا تھا‘ اس اسکول میں اس وقت 984 طالب علم اور طالبات پڑھتی ہیں اور یہ ایف اے ایف ایس سی تک ہے۔

میں مختار مسعود صاحب کا اسکول دیکھنا چاہتا تھا لہٰذا میں جمعہ کے دن ریڈ فاؤنڈیشن کے محمد شفیق خان کے ساتھ چوکی روانہ ہو گیا‘ چوکی آزاد کشمیر کے سماہنی سیکٹر میں ہے‘ یہ سیکٹر انڈین پائلٹ ابھی نندن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکا ہے‘ ہم نے رات میر پور میں قیام کیا‘ریڈ فاؤنڈیشن کے عثمان برنی نے بھی ہمیں میرپور میں جوائن کر لیا‘ ہم اگلی صبح چوکی کے لیے روانہ ہو گئے‘ چوکی میر پور سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ راستے میں سماہنی کا وہ بازار بھی آیا جو ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد دنیا جہاں کے میڈیا میں دکھایا گیا۔

پاک فوج نے ابھی نندن کوگرفتار کر کے جیپ کے ذریعے منگلا اور پھر راولپنڈی شفٹ کیا تھا‘ جیپ جب سماہنی کے بازار میں پہنچی تھی تو عوام نے اس پر گل پاشی بھی کی اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے‘ چوکی سماہنی سے چند منٹ کی مسافت پر ہے‘ چھوٹا سا بازار ہے اور چند ہزار لوگوں کی آبادی ہے‘ مختار مسعود صاحب کا اسکول بازار سے تھوڑا سا ہٹ کر کھیتوں کے درمیان ہے‘ بوائز سیکشن اور گرلز سیکشن الگ الگ ہیں‘ ٹیچرز اسی اسکول سے پڑھ کر آج وہاں پڑھا رہی ہیں‘ برآمدے میں مختار مسعود کی تصویر اور اقوال لگے تھے‘ افتتاح کے وقت کی ایک تصویر بھی تھی۔

لائبریری میں الماریوں میں مختار مسعود کی ذاتی کتابیں موجود ہیں‘ ہر کتاب پر ’’مختار مسعود عطیہ برائے چوکی اسکول‘‘ کی مہر لگی تھی‘ نقوش کے پرانے نمبر بھی تھے اور اقبالیات اور معیشت کی کتابیں بھی‘ مختار مسعود مرقع پاکستانیت تھے‘ پرنسپل نوید خان نے بتایا‘ مختار مسعود صاحب نے اسکول کی ٹائلز لگواتے وقت فرمایا تھا اگر انڈیا کی ٹائل ایک روپے میں ملے اور پاکستان کی 50 روپے میں تو بھی صرف اور صرف پاکستان کا مٹیریل استعمال کریں۔

پیسوں کی پرواہ نہ کریں‘ میں دو گھنٹے اسکول میں رہا‘ مختار مسعود کی پڑھی ہوئی کتابوں پر ہاتھ پھیرتا رہا اور اس برآمدے میں پھرتا رہا جس میں انھوں نے قدم رنجا فرمایا تھا‘ مختار مسعود نے کسی جگہ لکھا تھا ’’شکر گزار ہمیشہ روشن ضمیر اور روشن دماغ ہوتا ہے اور ناشکر گزار بے ضمیر اور بددماغ ہوتا ہے‘‘ آپ فرماتے تھے ’’میرے والد کشمیری شیخ تھے جب کہ میں سید ہوں‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ ہنس کر جواب دیتے تھے ’’میری پرورش سرسید احمد خان کی علی گڑھ یونیورسٹی میں ہوئی تھی لہٰذا میں سرسید کی نسبت سے سید ہوں‘‘ مختار صاحب کے والد علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے لہٰذا یہ پہلی جماعت سے ایم اے تک علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہے چناں چہ وہ سرسید کی نسبت سے خود کو سید یا سرسیدی کہلانا پسند کرتے تھے۔

وہ بے شک روشن ضمیر اور روشن دماغ تھے لہٰذا جاتے جاتے آزاد کشمیر کے آخری کونے میں روشن دماغی اور روشن ضمیری کا ایک ایسا علی گڑھ بو گئے جس کے سائے تلے ہزاروں مختار مسعود پیدا ہوں گے اور یہ خود کو مسعودی کہیں گے‘ میں نے پرنسپل صاحب سے پوچھا ’’مختار مسعود کا کوئی صاحب زادہ کبھی اس اسکول آیا‘‘ وہ حسرت سے بولے ’’ان کے ایک صاحب زادے ڈاکٹر ہیں‘ ہم نے بڑی مشکل سے انھیں تلاش کیا‘ انھیں بے شمار مرتبہ دعوت دی لیکن ان کے پاس وقت نہیں ہوتا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’میں آپ کی کوئی مدد یا خدمت کر سکتا ہوں‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’مختار مسعود کے اسکول میں 100 یتیم بچے اور بچیاں پڑھتے ہیں‘ ہر بچے پر سالانہ 30 ہزار روپے خرچ آتا ہے‘ مختار مسعود کے ہزاروں فین ہیں‘ آپ اگر ہمیں ان میں سے سو ڈونرز تلاش کر دیں تو یہ بچے بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے‘‘ میں نے ان سے وعدہ کر لیا۔

ہم واپسی کے لیے نکلے تو عثمان برنی نے بتایا‘ چوکی سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر پاکستان کا آخری اسکول ہے‘ یہ عین ایل او سی پر واقع ہے‘ آپ اگر وہ دیکھنا چاہیں تو ہم وہاں بھی جا سکتے ہیں‘ میں فوراً تیار ہو گیا‘ پیانا بنڈالہ میں ریڈ فاؤنڈیشن کا آخری اسکول ہے‘ بنڈالہ 1998 میں پوری دنیا میں مشہور ہوا تھا‘ انڈین آرمی نے ایک رات بنڈالہ گاؤں میں داخل ہو کر دو گھروں کے 22 افراد کو ذبح کر دیا تھا‘ شہداء میں سال سال کے بچے بھی شامل تھے‘ یہ واقعہ آگے چل کر کارگل وار کا باعث بنا تھا‘ پیانا بنڈالہ سے جڑا ہوا گاؤں ہے‘ اس کی دو سائیڈز پر پہاڑ ہیں‘ ایک پہاڑ پر بھارتی فوج کے مورچے ہیں جب کہ دوسرے پہاڑ پر پاکستانی پوسٹیں ہیں‘ مورچے اور دونوں ملکوں کے جھنڈے کھلی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔

گاؤں اور اسکول فائرنگ رینج پر ہیں‘ اسکول میں مارٹر گولوں کے خول پڑے ہیں جب کہ چوتھی جماعت کی کلاس کی کھڑکی کے شیشے میں گولی کا سوراخ بھی موجود ہے‘ کلاس ون اور ٹو دو کمرے فائرنگ سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں چناں چہ جوں ہی فائرنگ کی آواز آتی ہے بچے دوڑ کر کلاس ون اور ٹو میں چلے جاتے ہیں اور فرش پر لیٹ اور بیٹھ جاتے ہیں‘ چھت سے بھارتی مورچے صاف دکھائی دیتے ہیں‘ گاؤں کے باہر بارودی سرنگیں بھی بچھی ہیں‘ لوگ ان سے بھی بچتے رہتے ہیں‘ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بھارتی مورچوں کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ وہ ہماری اور ہم ان کی آوازیں سن سکتے تھے‘ آگے نالہ تھا اور نالے کی دوسری طرف مورچے تھے‘ ہمیں مقامی لوگوں نے آگے جانے سے روک دیا‘ ان کا کہنا تھا آگے بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔

ہم رک گئے اور خوف سے مورچوں کو دیکھنے لگے‘ ایسی خوف ناک جگہ پر اسکول بنانا اور پھر چلانا واقعی دل گردے کا کام تھا‘ میں نے وجہ پوچھی تو محمد شفیق نے بتایا‘ کارگل جنگ کے بعد علاقے کے تمام خوش حال لوگ پنجاب نقل مکانی کر گئے یہاں صرف انتہائی غریب لوگ رہ گئے‘ ان کا کوئی والی وارث نہیں تھا‘ ہمیں پتا چلا تو ہم نے ان کے بچوں کے لیے اسکول بنا دیا۔

پیانا کے اسکول نے بعدازاں آرمی آفیسرز بھی پیدا کیے‘ بیوروکریٹس بھی‘ ڈاکٹرز بھی اور انجینئرز بھی‘ ہم بھی اگر اسکول نہ بناتے تو آپ خود سوچ لیجیے ان لوگوں کا کیا بنتا؟ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مقامی لوگوں نے ہمارے لیے ساگ اور مکئی کی روٹی پکا رکھی تھی‘ توپوں کے سائے اور فوجیوں کی نفرت کے نیچے بیٹھ کر مکئی کی روٹی‘ساگ اور گائے کے دودھ کی لسی یہ زندگی کا شان دار ترین تجربہ تھا‘ میں نے جی بھر کر یہ تجربہ کیا اور لمبی سانس بھر کر واپسی کا سفر شروع کر دیا۔

بشکریہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے