تیسری عالمی جنگ کی ریہرسل!

پہلےمسلمان اور کافر آپس میں لڑتے تھے،مسلمان اللہ کے حکم کی سربلندی کے لیے،جب کہ کافر اپنے دفاع کے لیے۔اس طرح مسلمان عموما بلکہ اکثر فاتح رہتے۔اب کافروں نے اپنے دفاع اور نظریے کو وسعت دینے کے لیے ایک نئی خفیہ چال چلی ہے،اس چال کا آغاز اگرچہ بہت پہلے یہودیوں اور ان کے حواریوں کے مکروفریب سے خوارج کے ظہور سے ہوگیا تھا،لیکن چودہ سوسالہ اسلامی تاریخ میں یہ چال اتنی کامیاب کبھی نہ ہوسکی،تبھی خلافت راشدہ،بنوامیہ،عباسیہ اورعثمانیہ کا ستارہ عروج پر رہا۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد یہودیوں نے اس خفیہ چال کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی اور اب تک کررہے ہیں۔وہ خفیہ چال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر باہم لڑایا جائے،یوں مسلمان نہ ہمارے خلاف لڑنے کا سوچیں گے،نہ ہمیں خوامخواہ ان سے لڑنے کی تکلیف اٹھاناپڑی گی۔چنانچہ پچھلے 50 سالوں سے اس فکر پر بڑی تیزی سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک بڑی حدتک کامیابی بھی یہ دشمن سمیٹ چکے ہیں۔مسلمانوں کی باہمی لڑائی کبھی شیعہ سنی کے نام سے کروائی جاتی ہے،تو کبھی ایک دوسرے کو اقتدار کی لالچ دلاکراوردشمن بناکرلڑائی جاتی ہے۔ بسااوقات مسلم سوسائٹی کا امن وسکون خراب کرنے کے لیے گاہے بگاہے تنظیمی ومسلکی افکار ونظریات کو ہوادے کربھی اپنے خفیہ مقصدکی تکمیل کی جاتی ہے۔شیعہ سنی کے نام پر لڑی جانے والی لڑائی سے عراق،شام،یمن،لبنان کی تباہ حالی دنیا اب تک دیکھ رہی ہے،بلکہ تین دہائیوں سے برپا اس خون ریزی میں اب یہودی اور ان کے حواری وسعت دینے لگے ہیں۔اس کام کے لیے بے ضمیر نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ڈیلنگ کی جاتی ہے،جواپنے مخالف سوچ اور فکر والے کو زیر کرنے کے لیے ہرحدتک جاتے ہیں۔ایسے ہی بے ضمیر لوگوں نے مشرق وسطی میں خون ریزی کے لیے ڈیلنگ کی ہوئی ہے۔

مشرق وسطی میں عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے خانہ جنگی کی آگ تو بہت پہلےسلطنت عثمانیہ کے انہدام اور پھر اسرائیل کے ظالمانہ قیام کی صورت بڑھکائی تھی۔جس پر رفتہ رفتہ”عرب اسرائیل جنگ”،”عراق،کویت جنگ”اور عراق و سعودی عرب کوآمنے سامنے لاکر تیل چھڑکا جاتارہا۔نائن الیون اور پھر عرب بہار کے بعد ان عالمی ٹھیکیداروں نے ایک مرتبہ پھر عیاری ومکاری سے مشرق وسطی کو خون ریز خانہ جنگی میں مبتلاکرنے کا آغاز کیا،چنانچہ عراق کے بعد مصر ،شام اور یمن میں یہ نام نہاد امن کے ٹھیکیدار اپنے عزائم کی تکمیل میں آگے بڑھتے رہے اوربڑھ رہے ہیں۔شام میں جاری خانہ جنگی کے اصل ذمہ دار تو یہی ہیں جو شیعہ سنی والی خفیہ چال کے نام پر ایران،بشار اور شام کے 90 فیصد سنیوں بلکہ 34 ملکوں کےنئے اسلامی فوجی اتحاد کو آمنے سامنے لائے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو داعش کے نام پرایران،روس،یورپ،امریکا اورسعودی قیادت میں 34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کی صورت”تیسری عالمی جنگ” کی ریہرسل کررہے ہیں۔اس جنگ کی ریہرسل کا موقع صرف ایرن کے انتہاءپسندانہ افکار اور شام وعراق میں بے جامداخلت سے مل رہاہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ظالم ایران اپنی بربادی کے ساتھ معصوم لوگوں کا خون بہانے پر بھی تلا ہے۔

خدا فارسیوں اور مجوسیوں کی زمین کو انتہاپسندوں سے پاک کرے۔ایران کی عراق کے بعد شام اور یمن میں مداخلت نہ صرف عالم اسلام،بلکہ خود ایران کے لیے بھی دن بدن مشکلات پیداکررہی ہے۔اس وقت ایران مشرق وسطی سمیت پوری اسلامی دنیا میں تنہائی اور عتاب کا شکارہے۔ورنہ سعودی عرب سمیت 34 اسلامی ملکوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ نیااسلامی فوجی اتحاد بناتے اور اس میں ایران کوشامل نہ کرتے۔اس اتحاد میں ایران کی عدم شمولیت کی بڑی وجہ خود ایران ہے کہ روس جیسےسرخ ریچھ سے مل کر اسلامی ملکوں کے خلاف پر ماررہاہے۔خدشہ ہے کہ ایران کی بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور ہٹ دھرمی سے کہیں پھر اغیار کامیاب نہ ہوجائیں،جوچاہتے ہی یہ ہیں کہ مسلمان باہم خانہ جنگی کی صورت لڑیں اور وہ ان کے وسائل پر قبضہ کریں اور انہیں غلام بنائیں۔

سعودی عرب کی قیادت میں حالیہ اسلامی دفاعی اتحادسے بحسن ظن امید یہی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت الجھنے کی بجائے مذاکرات،ڈائیلاگ اور سفارتکاری کے ذریعے شکست دینے میں ان شاء اللہ کامیاب ہوجائے گا۔اگرچہ یہ اتحاد دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرکوبی کے لیے بنایاگیا ہے۔لیکن اصل شرپسندی فی الحال ایران کی طرف سے دیکھنے میں آرہی ہے،جس سے نمٹنے کے لیے یہ اتحاد کچھ بھی کرے گا۔پاکستان پہلے کی طرح اپنا بنیادی کردارادا کرسکتاہے۔اگر اس اتحاد کی پس پشت کوششوں سے ایران شرانگیزیوں سے بازآگیا تو داعش جیسے فتنے پرباآسانی قابوپالیاجائے گا۔لیکن اس کامیابی کے لیے عالم اسلام کے راہنماؤں کو اپنا بھرپور کردار اداکرناہوگا،پاکستان کی سفارتکاری چوں کہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے اس لیے اسے ضرور ملت اسلامیہ کے کام میں لاناچاہیے۔کیوں کہ پاکستان کی امن وسلامتی مشرق وسطی کی امن وسلامتی پر منحصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے