صوبہ ہزارہ، چال یا حقیقت؟؟

خیبرپختونخوااسمبلی میں چارجون کو ایک مرتبہ پھر ہزارہ صوبے کے متعلق قراردادکی کثرت رائے منظوری سے تحریک صوبہ ہزارہ میں سراٹھالیاہے اور اس متعلق چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ کیاسیاسی جماعتیں واقعی ہزارہ ڈویژن کو نئے صوبے کی شکل میں دیکھناچاہتی ہیں یا ہزارہ صوبے سے متعلق حالیہ قرارداد صرف ایک سیاسی چال ہے جس کا مقصد ہزارہ ڈویژن میں رہائش پذیر عوام کا ووٹ حاصل کرناہے؟چارجون کوصوبائی اسمبلی کی منظورکردہ قراردادمیں یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ 21مارچ2014ءکو خیبرپختونخوااسمبلی میں جوقراردادنمبر468منظورکی تھی اس پر جلدازجلدعملدرآمد کیاجائے قراردادنمبر468میں مطالبہ کیاگیاتھاکہ آئین پاکستان کے اندر انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی ممانت نہیں اسلئے مرکزی حکومت انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی حقیقی ضرورت کے مطابق قومی اتفاق رائے سے انتظامی یونٹس بشمول صوبہ ہزارہ کے قیام کےلئے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پیش کرے اور اس متعلق جلدازجلد کمیشن قائم کیاجائے ۔

[pullquote]ہزارہ ڈویژن کی آبادیاتی ساخت کیاہے۔۔؟[/pullquote]

خیبرپختونخوا سات ڈویژنزپشاور،مردان،ہزارہ،ملاکنڈ،کوہاٹ،بنوں اورڈیرہ اسماعیل خان پرمشتمل ہے ہزارہ ڈویژن میں آٹھ اضلاع ہیں جوہری پورسے شروع ہوکر اپرکوہستان تک جاتے ہیں ان میں ہری پور ،ایبٹ آباد،مانسہرہ،بٹگرام،تورغر،کولی پالس،لوئرکوہستان اور اپرکوہستان شامل ہیں 2017ءکی مردم شماری کے مطابق ہزارہ ڈویژن کی آبادی 53لاکھ نفوس پرمشتمل ہے اور اس کاکل رقبہ 17ہزار64مربع کلومیٹرہے 2017کی مردم شماری رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 30لاکھ کے قریب آبادی ہندکوبولتی ہے اسکے علاوہ11لاکھ آبادی پشتو اور تقریباًدس لاکھ کے قریب آبادی کوہستانی اور دیگرمقامی زبانیں بولتی ہے ہندکوسب سے زیادہ ہری پور،ایبٹ آباداورمانسہرہ میں بولی جاتی ہے جبکہ باقی پانچ اضلاع میں دیگرزبانیں بولی جاتی ہیں ان پانچ اضلاع کا رقبہ نو ہزار247مربع کلومیٹر جب کہ تین اضلاع کا رقبہ سات ہزار817مربع کلومیٹر ہے ہزارہ ڈویژن کے آٹھ اضلاع سے 18اراکین صوبائی اسمبلی اور سات قومی اسمبلی کے اراکین کاانتخاب ہوتاہے ۔

[pullquote]تحریک صوبہ ہزارہ کی تاریخ کیاہے۔۔؟[/pullquote]

2010ءمیں جب صوبے کانام شمال مغربی سرحدی صوبہ سے تبدیل کرکے خیبرپختونخوا رکھاگیا تو ہزارہ ڈویژن میں اس کے خلاف آوازیں اٹھناشروع ہوئیں لیکن ہزارہ کے علیحدہ صوبے سے متعلق تاریخ اس سے بھی پرانی ہے 1980میں کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں قاضی اظہرنامی طالبعلم نے ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اورعمومی طو رپر یہ طلبہ تحریک علیحدہ صوبے کامطالبہ کرتی تھی 18ویں ترمیم کے بعد نام کے ساتھ اختلاف کے بعد ہزارہ صوبے کی تحریک کاباقاعدہ آغاز ہوا لیکن ہزارہ صوبے کےلئے چارمختلف تنظیمیں میدان میں آئیں ہزارہ تحریک کے سب سے بڑے سربراہ باباحیدرزمان تھے مسلم لیگ ن کے موجودہ رکن اسمبلی سرداریوسف نے تحریک صوبہ ہزارہ کے نام سے الگ گروپ قائم کیا تحریک انصاف کے علی اصغر نے تحریک حقوق ہزارہ اور خورشید علی ہزاروی نے ہزارہ قومی محاذ کے نام سے تحریک کاآغاز کیا ان لوگوں نے کئی روز تک شاہراہ قراقرم بندکئے رکھابعدمیں پولیس نے راستہ کھولنے کےلئے آنسوگیس کی شیلنگ کی جسکے نتیجے میں سات افرادجاں بحق ہوئے حیران کن امریہ ہے کہ 2011ءمیں سات افرادکے جاں بحق ہونے کی معاوضے کی ادائیگی کی منظوری صوبائی حکومت نے2021ءمیں دی ۔

تجزیہ کار قریش خٹک بتاتے ہیں ہزارہ صوبے کی تحریک کوپورے ڈویژن کے عوام کی پذیرائی حاصل نہیں تھی اس لئے 2013ءکے انتخابات میں ہزارہ تحریک کی جانب سے میدان میں اتارے گئے تمام امیدواروں کو شکست کاسامناکرناپڑا وہ مزیدبتاتے ہیں کہ2021ءمیں تحریک صوبہ ہزارہ کو ایک قراردادکے ذریعے دوبارہ زندہ کرنا محض ایک سیاسی نعرہ ہے بلدیاتی انتخابات میں اس کا کچھ اثرہونہیں سکتا 2023کے انتخابات میں اس کے کچھ اثرات سامنے آسکتے ہیں مسلم لیگ ن کے ایک اہم رکن اسمبلی جوقراردادپیش کرتے وقت ایوان سے نکل گئے تھے، نے راقم کو بتایاکہ ہماری جماعت بھی عجیب سیاست کھیل رہی ہے خیبرپختونخوامیں نئے صوبے کےلئے قراردادپیش کررہی ہے اورپنجاب میں نئے صوبے جنوبی پنجاب کےلئے کھل کرمخالفت کررہی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے