منی بجٹ،مہنگائی عوام اورحکومت

حکومت ہر بار کامیاب ہو ہی جاتی ہے،آخر اس کے پاس ایسی کیاگدڑسنگھی ہےکہ جوچاہے اسمبلی سے بل پاس کرالیتی ہے۔منی بجٹ کتنی دیراسمبلی میں لٹکا رہا،اپوزیشن کے روکنے، مخالفت اور بے انتہا کوشش کے باوجود بھی آخر حکومت نے یہ بجٹ بھی منظورکروالیا۔جس کا خمیازہ امیروں اورجگیرداروں کےعلاوہ ہر ایک غریب پاکستانی کوہرحال میں بھگتنا پڑےگا۔
” لگدا اے،گل وچ کوئی ہور اے”

گزشتہ دنوں وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نےجو بات کہی تھی کہ ہماری حکومت پر وہ ہاتھ ہےجو اس وقت اپوزیشن پر نہیں ہے۔

ویسے حیرانی کی بات ہے ہاتھ ایک ہی ہے، بس سر بدلتے آرہےہیں اور ممکن ہے یہ ہاتھ کل کسی اور کے سر پر ہوگا۔ویسے ہیں۔۔اس ہاتھ ہی کی ساری کراماتیں جو پارلیمنٹ کے اندر اتنی مخالفت کے ہوتے ہوئے بھی منی بجٹ کا پاس ہوجانا۔اب دیکھتے ہیں یہ ہاتھ کب تک اس حکومت کے سر پر رہتا ہے۔

ویسے پہلے کون سا اس حکومت نے عوام کو جھولے میں ڈالا ہوا ہے۔سانس،سانس کے ساتھ لوگ انھیں بددعائیں دیتے ہیں۔پاکستانی عوام کو جتنا اس حکومت نے،اگر یہ کہے تو بےجا نہ ہوگا،کہ وزیراعظم عمران خان نے مایوس کیا ہےشاید اس مایوسی کوئی ازالہ نہیں۔

پہلے کیا کم مہنگائی تھی جو اس عوام دشمن بجٹ کی ضرورت پڑگئی،جس سے مزید کمر سیدھی نہ ہو گئی۔

اس وقت مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے۔جو حل ہوتا نظر نہیں آرہا،اس جن کو بوتل میں بند کرنا اس حکومت کے بس کا اب روگ نہیں رہا۔

ترجمان جناب وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ اس بجٹ کا بوجھ عوام پر نہیں پڑے گا۔یہ لوگ ایسے جھوٹ گھڑ لیتے ہیں کہ سمجھ سے بالاتر،جھوٹ بھی ایسے جھوٹوں سے منہ چھپائے۔

اس حکومت کو آئی ایم ایف کا ایسا چسکا لگا ہے،ان کی کوئی بھی بات واہ مجال ہے رد کرے،وہ کہے تو پٹرول بڑھ جائے،وہ کہے تو بجلی کی قیمت بڑھ جائے،ان کی ہاں کے ساتھ ہاں ملانا یہ عوام کا خون چوس جمہورے ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔یہ بڑے سیانے،سمجھدارہیں جو ان کا کشکول بھرے اس کی بات یہ کبھی رد نہیں کرتے۔

قارئین یہاں پر کیا ایسا لکھوں کہ جو چیز اس حکومت نے سستی کی ہو۔69ارب روپے کے نئے ٹیکس اس غریب عوام پر تھوپ دئیے گئے ہیں،جس کو معاشی اصلاحات کا نام دیا جارہا ہے۔دال سے لیکر سبزی،دہی سے لیکر دودھ،پٹرول سے لے کے بجلی تک،حتی کہ شیر خوار بچوں کادودھ بھی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ان بےحس حکمرانوں کو تو ان ننھے منے بچوں پر بھی ترس نہ آیا۔استعمال کی ہر ایک چیز غریب آدمی خریدنے سے قاصر،غریب عوام بیچاری پل پل رل رہی،تھاں تھاں پہ دھکے لے رہی،لیکن انھیں کیا لگے،انھیں فکر تو اپنی اییاشیوں کی،اپوزیشن کوگرانے کی،نیچا دیکھانے کی۔
یہ حکومت کیا لڑتی حریف سے
اسے تو ہم سے ہی فرصت نہ ملی

سوچتا ہوں تو کڑتا ہوں کہ یہاں جو بھی حکمران آیا،وعدے،دعوے کر کے آیا،حکومت میں آکے،کرسی پر بیٹھتے ساتھ ہی بدل گیا۔اس کرسی پر بیٹھتے ہی اپنے آپ کو مامے خاں سمجھ لیا۔عمران خان سے بہت امیدیں تھی پاکستانی عوام کو،اپوزیشن میں رہتے ہوئے،باتیں اور تقریریں سن کے کے لگتا تھا کہ عمران خان قائداعظم کے بعد ایسا لیڈر ہے جو پاکستانی عوام کی تقدیر کا دھارا بدلے گا،لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ سارے جمہوریت کی ج سے بھی ناواقف ایک منزل اور گاڑی کے مسافر ہیں۔

باقی چھوڑے منی بجٹ کےبعد جو کچھ ایوان بالامیں ہوا،وہ سب کے سامنے،تھپڑ،گالیاں سے ایوان شرماتا رہا،ویسے افسوس ہے ہم کیسے کیسے لوگوں کو اپنے اوپر منتخب کرکے بیٹھا لیتے ہیں۔

ویسے عمران خان جو بھی وعدے کئیے تھے ان تین سالوں میں ایک وعدہ پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔اور انہی لوگوں کو اپنے کندھوں سے بیٹھایا ہوا،جو %70 اس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔چالیس ماہ گزرنے کو ہے لیکن حال دیکھ لے کہ استعمال کی ضروری اشیاء آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہر گھر چولہ اب بجھنے کے قریب تر ہے اور اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ہر طرف مہنگائی کا رونارویا جارہا ہے۔

‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی’کے مصداق مہنگائی نے یہ کردار ادا کیا ہے۔پی ٹی آئی کے دوراقتدار میں قومی،صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ہونےوالے ضمنی انتخابات اور پھر خیبر پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے پی ٹی آئی کی کارکردگی نے جو اثر دیکھایا ہے۔ان کیلئے وہ کسی حیرانی سے کم نہیں ہے۔لگا تھا اس سارے مناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اس سال2022میں عوام کو کوئی خوشخبریاں دینے والا ریلیف دے گی۔لیکن مایوسی در مایوسی،شرمندگی در شرمندگی ہی دیکھنے کو ملی۔

ابھی وقت بہت تھوڑا رہ گیا،جناب وزیراعظم عمران خان سے بصد ادب ہیں،کہ کچھ ایسا کرے،کہ جو مافیاز آپ کندھوں کےساتھ ہی بیٹھے ہیں،کو کنٹرول کرے،تاکہ اشیاءضروریہ کی تمام چیزیں سستی ہو،غریب کو ریلیف ملے،اورغریب آدمی بھی اپنا پیٹ آسانی سےپال سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے