کیسے کیسے لوگ (آخری قسط)

کبھی کبھی یہ خیال اداس کر دیتا ہے کہ آبادی تو بڑھتی جا رہی ہے لیکن شہر بےرونق اور خالی خالی سا لگتا ہے۔ اب یہاں نہ منیر نیازی ہے، نہ بابا ظہیر کاشمیری، نہ کبھی احمد ندیم قاسمی دکھائی دیتے ہیں، نہ احمد راہی نظر آتے ہیں۔ نہ کوئی قتیل شفائی ہے نہ استاد دامن ….. نہ کوئی خواجہ خورشید انور، نہ بابا چشتی، نہ کوئی یاور حیات، نہ محمد نثار حسین، نہ امانت علی خان، نہ پرویز مہدی، شوکت علی نہ مسافر صادقین، نہ مرشد، نہ ملک معراج خالد، نہ نواب زادہ نصر اللہ، نہ منو بھائی کی آہٹ اور ہکلاہٹ، نہ بھنوئوں سے کھیلتا عباس اطہر، نہ عبدالقادر حسن۔ ہر شعبہ میں جیسے کسی نے جھاڑو پھیر دیا ہو ورنہ چند سال پہلے تک پاک ٹی ہائوس سے لے کر ریڈیو پاکستان لاہور تک پھول ہی پھول کھلے تھے اور کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ باغ بیاباں میں تبدیل ہو جائے گا۔

جب یہ سب اور ان جیسے دوسرے موجود تھے تو کبھی خیال تک نہ آیا کہ کل یہ نہیں ہوں گے۔ سوچتا ہوں کہ تب عقل شعور سے عاری نہ ہوتے تو ان اور ان جیسوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے کہ ویسے بھی کون سے قلعے ڈھا رہے یا توپیں چلا رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اور بہت سے لوگ بھی اسی طرح محسوس کرتے ہوں گے لیکن شاید یہی زندگی ہے۔ دکھ ہے تو اس بات کا کہ آج ان جیسوں کے سایوں جیسے لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے لیکن پھر وہی بات کہ نسلیں اور فصلیں یونہی کٹتی اور اگتی رہتی ہیں لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ گلاب تو کٹ جائیں لیکن پھر دور دور تک گیندے کے پھول بھی دکھائی نہ دیں۔ یہ احساس شدید تر ہوا جب پچھلے دنوں ہمدمِ دیرینہ مرحوم جاوید امین کے نانا عبدالمجید سالک صاحب کی کتاب ’’یارانِ کہن‘‘ مدتوں بعد ایک بار پھر نظر سے گزری۔ سالک صاحب کے بغیر ہماری ادبی و صحافتی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ان کے فرزند عبدالسلام خورشید مرحوم بھی صحافت میں سنگِ میل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان کے کالم ’’افکار و حوادث‘‘ کے ڈنکے بجتے تھے۔

’’تہذیب نسواں‘‘، ’’پھول‘‘، ’’کہکشاں‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ 1920میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی اور پھر 1959میں دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن کئی شہکار چھوڑ گئے جن میں ان کی خود نوشت ’’سرگزشت‘‘ اور ’’یارانِ کہن‘‘ بھی شامل ہے جس نے یہ کالم لکھنے پر اکسایا ورنہ ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ سے تو گھن اور ابکائی آنے لگی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1953میں شائع ہوئی۔ ایسی خاکہ نگاری بھی ہمارے ادب میں خال خال ہی دکھائی دیتی ہے اور خاکے بھی کن کے؟ علامہ اقبالؒ سے لے کر مولانا ابوالکلام آزاد تک، مولانا ظفر علی خان سے لے کر آغا حشر کاشمیری تک۔ مولانا حسرت موہانی سے لے کر خواجہ حسن نظامی تک، تاجور نجیب آبادی سے لے کر چراغ حسن حسرت اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر تک۔ سبحان اللہ۔

علامہ اقبالؒ بارے لکھتے ہیں:

’’میں نے متعدد بار ڈاکٹر صاحب (علامہ اقبالؒ) کو عام مجمعوں میں نظمیں سناتے دیکھا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے چند جلسوں کے علاوہ ’’جواب شکوہ‘‘ موچی دروازے کے باہر باغ میں اور ’’طرابلس کے شہیدوں کا لہو‘‘ بادشاہی مسجد میں پڑھی گئیں۔ نظموں کو ترنم سے پڑھنے کا شعار سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب ہی نے اختیار کیا تھا۔ چونکہ موسیقی کے مبادی سے باخبر ہونے کے علاوہ ان کی آواز میں شیرینی اور لہجے میں سوز و گداز تھا اس لئے ہزاروں کا مجمع مسحور و مبہوت ہو جاتا تھا‘‘۔

دارالاشاعت پنجاب سے سید امتیاز علی تاج نے ایک ماہانہ رسالہ ’’کہکشاں‘‘ جاری کیا۔ اس میں کہیں میں نے ڈاکٹر صاحب کی ایک نظم درج کردی جسے وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں پڑھ چکے تھے۔ حسب عادت ڈاکٹر صاحب نے سید امتیاز علی تاج کو بھی نوٹس بھیج دیا جس پر میں نے خدمت میں حاضر ہو کر کسی قدر تلخ کلامی کی اور کہا کہ ’’آپ اپنی بیرسٹری کا استعمال اپنے نیاز مندوں پر نہ کیا کیجئے۔ چند سال پیشتر آپ نے مجھے نوٹس دے دیا تھا۔ اب امتیاز کو دے دیا اور اس کو بھی میں اپنے نام ہی نوٹس سمجھتا ہوں اس لئے کہ ’’کہکشاں‘‘ کی ترتیب میرے سپرد ہے‘‘۔ کسی قدر بحث کے بعد ڈاکٹر صاحب ٹھیک ہو گئے اور قصہ گیا گزرا ہوا‘‘۔

قارئین! ذرا ’’تکون‘‘ تو ملاحظہ فرمائیں علامہ اقبالؒ، امتیاز علی تاج اور خود عبدالمجید سالک۔ مولانا ابوالکلام آزاد بارے لکھتے ہیں:

’’مولانا شبلی نوعمر ابوالکلام آزاد کی علمیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ’’الندوہ‘‘ کی ادارت انہیں سونپ دی۔ مولانا کی نو عمری کی وجہ سے اکثر بزرگوں کو یقین نہ آتا تھا کہ جو فاضل جلیل ’’الندوہ‘‘ میں مضامین لکھتا ہے وہ یہی لڑکا ہے بلکہ مولانا حالی تو ایک بار انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کا صاحب زادہ سمجھ بیٹھے اور بعد میں بےحد حیرت اور ندامت کا اظہار کیا تھا۔ موجودہ صدی کے عشرۂ دوم کے آغاز میں مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا صحیفہ ’’الہلال‘‘ اس شان و شوکت سے صحافت کے افق پر جلوہ گر ہوئے کہ ملک بھر کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں‘‘۔

’’1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد لاہور آئے۔ موچی دروازہ کے باہر باغ میں ہزار ہا کا مجمع ہوا جس میں مولانا نے بےنظیر تقریر کی۔ بے ریش و بروت سرخ و سفید چہرہ، بڑی بڑی سخن گو آنکھیں، حرکات و سکنات شیریں اور سنجیدہ۔ خطابت کے کمالات اور زبان و ادب کے محاسن۔ ان سب نے مل کر مجمع کو مسحور کر رکھا تھا اور مولانا سے میری شیفتگی اور فریفتگی کی تو کوئی حد نہ تھی‘‘۔

کیسے کیسے اور اب ہم جیسے لوگ۔

[pullquote]عبد المجید سالک لکھتے ہیں:[/pullquote]

1927ءکا ذکرہے ایک دن ایک بالابلند، گندمی رنگ، کالی اور گھنی مونچھوں والا، آدمی سوٹ پہنے ہوئے دفتر ’’انقلاب‘‘ میں مجھ سے ملنے آیا اور کہنے لگا میں چراغ حسن حسرت ہوں۔میں اچھل کر یوں بغل گیر ہوا گویا ہم بچپن سے ساتھ اور دوست تھے۔ پوچھا ’’آپ یہاں کہاں؟‘‘ کہنے لگے میں تو کلکتہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا لیکن مولانا ظفر علی خان نے مولانا ابوالکلام آزاد سے کہلوایا کہ ’’زمیندار‘‘ میں چلے جائو۔مولانا کا حکم میرے لئے واجب التعمیل تھا لہٰذاچلا آیا ہوں اور چند روز سے ’’زمیندار‘‘ میں کام کر رہا ہوں۔ دوران گفتگو حسرت نے کہا ’’سالک صاحب! تعجب ہے ’’زمیندار‘‘ والوں سے آپ کی ان بن کیوں ہوگئی۔ مولوی صاحب اور اختر دونوں ہی پرتپاک اور محبت پرور ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’اس میں کوئی شک نہیں اور اسی وجہ سے میںنے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں سات سال گزار دیئے لیکن وہ پرانی کیفیت نہیں رہی۔ آپ بھی بہت زیادہ خیری کا اظہار نہ کیجئے‘‘۔ ابھی حسرت صاحب نے ایک آدھ مہینہ ہی ’’زمیندار‘‘ میں کام کیا تھا کہ تپ محرقہ نے آن گھیرا۔ پردیس کا معاملہ، کسمپرسی کے عالم میں پڑے رہتے۔ نہ کوئی خبر لیوا، نہ پانی دیوا اور اس پر طرہ یہ کہ ’’زمیندار‘‘ سے واجبات بھی وصول نہ ہوئے۔ پھر دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں نہیں گئے۔ میرے ساتھ حسرت کے تعلقات ہمیشہ گہرے دوستانہ و برادرانہ رہے۔ ہم مذاقی کی وجہ سے کبھی اختلاف کی نوبت نہ آئی۔ اس دوران حسرت ’’عرب ہوٹل‘‘ (متصل اسلامیہ کالج) کی بالائی منزل میں رہتے تھے اور ہوٹل میں ان کی مجلس جمتی تھی جہاں بعض احباب اور اسلامیہ کالج کے طلبہ ان کے گرد جمع رہتے اور ان کی ادبیت اور لطیفہ بازی سے محظوظ ہوتے۔ شادی ہو جانے کے بعد انہوں نے علیحدہ مکان لے لیا لیکن پھر بھی کبھی کبھی عرب ہوٹل آیا جایا کرتے تھے۔

[pullquote]اور اب یہ ’’سچی کہانی‘‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر جیسے شاعر، ادیب، دانشور اور سلمان تاثیر کے والد بارے، سالک صاحب کی زبانی ۔[/pullquote]

’’تاثیر انگلستان سے واپس آئے تو ڈاکٹریٹ کے علاوہ ایک خاتون بھی ساتھ لے آئے جن سے ازدواج طے ہو چکا تھا ۔ میاں نظام الدین مرحوم پرانے وضعدار بزرگ تھے۔ اس معاملہ میں جز بز تو ہوئے لیکن علامہ اقبال کے سمجھانے سے رضا مند ہوگئے اور ڈاکٹرتاثیر کا نکاح کرسٹابل کے ساتھ علامہ اقبال نے خود پڑھایا۔ ڈاکٹر تاثیر ایم اے او کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ وہیں فیض احمد فیض لیکچرر ہوئے۔ امرتسر ہی میں فیض اور ایلس کی شادی ہوئی۔ تاثیر اور فیض ایک دوسرے کے ہم زلف بن گئے۔ تاثیر بے حد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت اور طباعی بے مثال تھی۔ شاعروں میں شاعر، فلسفیوں میں فلسفی، ادیبوں میں ادیب، نقادوں میں نقاد، معلموں میں معلم اور صرف یہی نہیں بلکہ رندوں میں رند لم یزل، مجلس یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور لڑائی میں فولاد کی طرح سخت۔ وہ اخباری لڑائی تو بہت سے دوستوں کو یاد ہوگی جو ان کے اور چراغ حسن حسرت کے درمیان ہوئی۔ صرف یہی نہیں کہ تاثیر صاحب کمیونزم اور اس کے متعلقات سے کاملاً برگشتہ ہو چکے تھے بلکہ ان کی مخالفت میں سرگرم تھے۔ مولانا چراغ حسن کمیونسٹ نہ تھے لیکن ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے لامحالہ میاں افتخار الدین کی رعایت پر مجبور تھے۔

اگرچہ تاثیر اور حسرت کی دوستی پرانی اور گہری تھی اور ہم مشنری کی وجہ سے ان میں اور بھی چار چاند لگ گئے تھے لیکن تاثیر کو تو لڑنا تھا خواہ مقابل کوئی دوست ہی آ جائے چنانچہ انہوں نے اپنے نام سے بھی اور بعض فرضی ناموں سے بھی نظمیں لکھنی شروع کیں جن میں ’’کمیونسٹ اخبار‘‘، حسرت اور افتخار الدین پر بے پناہ چوٹیں ہوتی تھیں۔ ادھر حسرت بھی پرانے پھکیت تھے۔ انہوں نے مقابلے پر دھڑا دھڑ نظمیں جھاڑنی شروع کیں۔ یہاں تک کہ معمولی سی چھیڑ چھاڑ دو تین ہفتوں کے اندر ہی ’’گھمسان کارن‘‘ بن گئی۔ تاثیر کی نظمیں زیادہ تر ’’مغربی پاکستان‘‘ اور حسرت کی ’’امروز‘‘ میں چھپتی تھیں۔ لاہور کے ’’تماش بین اخبار بین‘‘ دونوں کو پڑھتے اور لطف اٹھاتے تھے۔ جب یہ ’’مناظمہ‘‘ لطیف چوٹوں سے بڑھ کر ذاتی حملوں اور متبذل اشارات تک پہنچ گیا تو ایک دن آغا شورش کاشمیری نے مجھ سے کہا ’’اس ناگوار جنگ سے اہل ذوق بیزار ہو رہے ہیں۔ تاثیر اور حسرت دونوں آپ کے دوست ہیں، ان کو منع کیجئے‘‘۔اس وقت تک حسرت نے نظموں کے علاوہ ’’حرف و حکایت‘‘ میںبھی تاثیر کے خلاف لکھنا شروع کردیا تھا بلکہ انجمن حمایت اسلام سے ان کو اسلامیہ کالج کی پرنسپلی سے موقوف کرانے کی اپیل بھی کردی تھی۔میں نے حسرت سے کہا ’’ آپ تو بہت بااصول اور متین صحافت کے دعویدار ہیں۔ آخر یہ ’’امروز‘‘ میں کیا ہو رہا ہے؟، کیا یہی سنجیدہ صحافت ہے؟‘‘۔

چراغ حسن حسرت بہت بگڑے ہوئے تھے لیکن میرے کہنے پر مان گئے کہ ’’اگر تاثیر باز آ جائیں تو امروز میں کچھ نہ لکھا جائے گا‘‘۔ پھر میں نے تاثیر صاحب سے کہا کہ ’’آپ اتنے عالم و فاضل آدمی، کالج کے پرنسپل، اخبار نویس تو اپنی پگڑی رکھتے نہیں اور دوسرے کے سر سے اتارنے میں تامل نہیں کرتے لیکن یہ جنگ و پیکار آپ کی شان کے لائق تو نہیں‘‘ کہنے لگے ’’آپ حکم دیں گے تو میں نہ لکھوں گا لیکن حسرت اس رعایت کے قابل نہیں ہے‘‘۔ پھر میں نے مولانا میکش مدیر ’’مغربی پاکستان‘‘ سے کہا کہ ’’آپ اب اس سلسلہ میں کوئی چیز نہ چھاپیے‘‘۔ غرض راتوں رات یہ متارکہ مکمل ہوگیا اور صبح دونوں اخبار اس ناگوار جھگڑے سے پاک تھے۔ تاثیر اور حسرت کی یہ ساری نظمیں آغا شورش کاشمیری نے جمع کرکے ’’چٹان‘‘ میں چھاپ دیں تاکہ اس تاریخی جنگ کا ریکارڈ محفوظ رہے۔

اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ ’’متارکہ‘‘ کے بعد مصالحت بھی کرا دوں۔ تاکہ دونوں دوست گلے مل جائیں لیکن میں سوچتا ہی رہا اور تاثیر ایک دن دفعتاً حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ حسرت کو ان کی موت کا صدمہ خاص طور پر زیادہ ہوا اس لیے کہ وہ تاثیر سے صلح نہ کر سکے اور دونوں کا سلسلہ کلام و سلام آخر تک منقطع ہی رہا۔

[pullquote]قارئین![/pullquote]

اب چلتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں ڈرامہ کے بادشاہ آغا حشر کاشمیری کی طرف جو خود کو ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے تھے جس پر کسی دل جلے نے تبصرہ کیا کہ ’’جیسا ہندوستان ویسا ہی اس کا شیکسپیئر‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میدان میں آغا حشر نے مدتوں راج کیا۔ عبدالمجید سالک صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’آغا محمد شاہ حسرت کاشمیری نے جب اپنے گھر کی فضا کو اپنے فنی رجحانات کے خلاف پایا تو بھاگ کر بمبئی آگئے اور تھیٹر کی دنیا میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی۔ اس وقت حسن اتفاق سے چند اور ذہین و طباع نوجوان بھی بمبئی میں موجود تھے۔ چنانچہ آغا حشر، مولانا ابوالکلام آزاد، ان کے بھائی ابوالنصر، غلام یاسین آہ، نظیر حسن سخا کی ایک ’’منڈلی‘‘ قائم ہو گئی۔ چند روز مولانا ظفر علی خان بھی ان میں شامل رہے لیکن جلد ہی کسی کاروبار کے سلسلہ میں سومالی لینڈ چلے گئے۔ کیونکہ یہ لوگ تلاش روز گار کے سوا اور کوئی مشغلہ نہ رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے کوئی شغل اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ان حضرات نے مناظرے کا ایک سٹیج قائم کر لیا اور ایک انجمن ’’نظر الاسلام‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے آرگن کی حیثیت سے ایک ماہانہ رسالہ ’’البلاغ‘‘ کے نام سے جاری کر دیا۔

میں نے اس رسالہ کے ایک دو پرچے آغا حشر کے پاس دیکھے۔ مولانا ابوالکلام اس کو مرتب کرتے تھے لیکن کیونکہ ان سب دوستوں کی زندگیوں کا مستقبل غیر یقینی تھا اس لیے بے نقاب ہو کر کسی انجمن یا رسالہ سے اپنا تعلق قائم نہ کرنا چاہتے تھے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اپنے خدمت گار مسمی کالے خان کو جو بالکل ان پڑھ اور کندہ ناتراش تھا رسالے کا ایڈیٹر اور انجمن کا سیکرٹری بنا دیا۔ اس کا نام مولوی عبدالرئوف خان صاحب تجویز ہوا۔ اب گھر میں تو وہی کالے خان چلتا تھا ’’کالے خان پانی پلائو‘‘ …’’کالے خان چلم بھرو‘‘…’’اے کالے خان ادھر آ کم بخت کیا کر رہا ہے‘‘۔ لیکن لوگوں کے سامنے اس کو مولوی عبدالرئوف خان صاحب، ایڈیٹر صاحب، سیکرٹری صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا‘‘۔ اک اور جگہ سالک صاحب لکھتے ہیں۔ ’’آغا حشر نے ڈرامے کی دنیا کو اپنی غیر معمولی قابلیت و صلاحیت کا احساس کرا دیا اور سب سے پہلے … ’’مرید شک‘‘ لکھ کر ڈرامہ میں ایک نیا رستہ پیدا کردیا۔ آغا صاحب سے پہلے اگرچہ احسن، بے تاب اور طالب بنارسی کا طوطی بولتا تھا لیکن ان کی نظم و نثر میں وہ شان و شوکت، وہ پاکیزگی اور وہ قوت بالکل مفقود تھی جو حشر کی تحریرات میں نمایاں تھی۔ کچھ تو آغا کے اسلوب میں ان کی طبعی شور انگیزی اور زور آزمائی کا اثر تھا اور کچھ خطابت و مناظرہ کے مشاغل نے انہیں ایسے فقرے چست کرنے کی صلاحیت بخش دی تھی جنہیں عوام بےحد پسند کرتے تھے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے تھے۔

بمبئی میں آغا حشر نے پے در پے کوئی چھ سات ڈرامے لکھے جو بےحد کامیاب ہوئے اور تھیٹر کی دنیا آغا حشر کے نام سے گونجنے لگی۔ دوسرے ڈرامہ نگاروں نے آغا کو ناکام رکھنے کی بےحد کوشش کی لیکن عصر حشر شروع ہو چکا تھا اور دنیا کی کوئی طاقت اس عصر کی رفتار کو روک نہ سکتی تھی۔ انہوں نے اپنے ڈراموں سے ہزار ہا روپیہ کمایا لیکن طبیعت لکھ لٹ اور سخی پائی تھی۔ متعلقین کی اعانت دریا دلی سے کرتے تھے۔ دوستوں کو کھلا پلا کر اور عیش کرا کر خوش ہوتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اکثر ہاتھ تنگ ہو جاتا تھا‘‘۔

تب کیسے کیسے لوگ

اور اب ایسے ویسے لوگ۔

نوٹ: عبدالمجید سالک مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’یارانِ کہن‘‘ شورش کاشمیری کی ’’توائی‘‘ کے نتیجہ میں لکھی گئی۔

[pullquote]بشکریہ جنگ[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے