جبری پابندی کے نو ماہ کی کہانی

تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہراتی ہے۔ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے، جن میں مجھ ناچیز کو ماضی کی جھلکیاں نظر آرہی تھیں۔

میں ان واقعات کے تناظر میں مستقبل کی ایک تصویر کا خاکہ بھی دیکھ رہا تھا۔ یہ مارچ 2008ء تھا۔ مجھ پر پابندی کو چار ماہ گزر چکے تھے۔ نومبر 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے وطن عزیز میں ایمرجنسی نافذ کی تو تمام پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز پر بھی پابندی لگا دی۔ آہستہ آہستہ یہ چینلز معافیاں مانگ کر بحال ہوتے گئے لیکن چھ ٹی وی اینکرز پر پابندی برقرار رہی۔

ان میں عاصمہ شیرازی، کاشف عباسی، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، ڈاکٹر شاہد مسعود اور یہ گستاخ شامل تھے۔ اس دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور 2008ء میں نئے انتخابات بھی ہو گئے۔ ہم پر پابندی برقرار رہی۔

پھر حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوا۔ ایک دن آصف زرداری اور نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے مخلوط حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ حامد میر سمیت کچھ اینکرز پر پابندی ہے۔ زرداری صاحب نے جواب دیا کہ اب کوئی پابندی نہیں اور اُسی شام کو میں نے جیو نیوز پر دوبارہ کیپیٹل ٹاک شروع کر دیا۔ مارچ 2008ء میں ہونے والی یہ پریس کانفرنس مجھے آٹھ مارچ 2022ء کو دوبارہ یاد آئی۔ 14سال کے بعد آصف زرداری اپنے دائیں طرف شہباز شریف اور بائیں طرف مولانا فضل الرحمان کو بٹھا کر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ان کے پاس مطلوبہ نمبر 172 سے زیادہ ارکان کی حمایت ہے۔

اگلے ہی لمحے انہوں نے اعلان کیا کہ حامد میر پر پابندی ختم ہو چکی ہے اور وہ جیو نیوز پر دوبارہ پروگرام کریں گے۔ دراصل انہیں یہ خبر بلاول بھٹو زرداری سے مل چکی تھی، جن کے ساتھ تھوڑی دیر پہلے وہ کنٹینر پر موجود تھے۔

پریس کانفرنس میں یہ خبر بریک کر کے انہوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی دے دیا کہ اب واقعی تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ان کا اعلان دشمنوں کے لیے ایک بم دھماکہ تھا۔

مئی 2021ء میں اسلام آباد کے ایک صحافی اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر مارا گیا۔ اس سے قبل کچھ لوگ عاصمہ شیرازی کے گھر میں بھی گھسے تھے۔ منیزے جہانگیر کو بھی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، لہذا نیشنل پریس کلب کے باہر ایک مظاہرے میں میری ایک تقریر کو وجہ بنا کر مجھ پر پابندی لگا دی گئی۔

میرے خلاف مختلف شہروں میں بغاوت کے مقدمات درج کرنے کے لیے درخواستیں دی گئیں۔ گوجرانوالہ میں ایک درخواست پر سماعت بھی شروع ہوئی لیکن میں نے اپنی تقریر میں کسی کا نام ہی نہیں لیا تھا۔ اگر میرے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا تو عدالت میں ثبوت کے طور پر صرف میری ایک تقریر پیش کی جاتی، جس میں صرف جنرل رانی کا ذکر تھا۔ مخالفین اور حاسدین نے اسے ریاستی اداروں کے ساتھ لڑائی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

مختلف بار ایسوسی ایشنوں اور سیاسی جماعتوں نے مجھے اپنے اجتماعات سے خطاب کی دعوتیں دینا شروع کر دیں۔ دوسری طرف کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس نے فیلوشپ کی پیشکشیں شروع کر دیں۔ اگر میں مزید تقریریں کرتا تو اداروں کے ساتھ محاذ آرائی بڑھتی اور میں صحافی کی بجائے ایکٹیوسٹ یا سیاستدان بن جاتا۔ فیلوشپ لے کر بیرون ملک چلا جاتا تو شور مچایا جاتا کہ حامد میر بھاگ گیا۔

مشرف دور میں مجھ پر صرف ٹی وی پر پابندی تھی۔ عمران خان کے دور میں ٹی وی کے ساتھ ساتھ اخبار میں لکھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ مجھے پاکستان میں سینسرشپ کی چلتی پھرتی مثال بنا دیا گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے پاکستان میں ہی رہنا ہے اور کسی ایک ادارے کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی بلکہ اس پورے سسٹم کو بے نقاب کرنا ہے، جو میڈیا پر سینسرشپ لگا کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں چھپاتا ہے۔

سب سے پہلے مجھے برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھنے کی دعوت دی۔ پھر واشنگٹن پوسٹ اور پھر ڈی ڈبلیو اُردو نے لکھنے کی دعوت دی۔ میں نے واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اُردو میں مستقل لکھنا شروع کر دیا اور بی بی سی سمیت مختلف غیر ملکی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دینے شروع کر دیے۔

جن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ میری صحافت ختم کر دیں گے، ان کی حالت وہی ہو گئی، جو کسی زمانے میں پرویزمشرف کی تھی۔ بہت کوشش کی گئی کہ مجھے ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے۔ کوئی سیاستدان میرے حق میں بولتا تو اسے روکا جاتا، صحافیوں کی تنظیموں سے کہا گیا کہ میرے حق میں بیان نہ دیں، کوئی مجھے سمینار میں بلا لیتا تو اس کی بھی جوابدہی ہوتی۔

لیکن آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے لے کر مریم نواز، اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک سے لے کر ایمل ولی خان تک سب سیاسی دوستوں نے میرا ساتھ دیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے تو سیاسی جلسوں سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر فورم پر مجھ سمیت تمام ستم زدہ صحافیوں کے نام لے کر ہماری حمایت کی۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے حیدرآباد بلا کر ‘مادر وطن ایوارڈ 2022ء‘ دیا۔

تحریک انصاف میں بھی کچھ دوستوں نے مسلسل رابطہ رکھا اور خاموش اظہارِ یکجہتی کرتے رہے۔ جب جرنلسٹ پروٹیکشن بِل منظور کیا گیا تو ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایوان صدر میں کھڑے ہوکر میرا نام لیا اور بتایا کہ اس بِل کے لیے میں نے بھی ان کی بہت مدد کی تاہم میں نے اس بِل کے ڈرافٹ میں موجود بعض حصوں سے اتفاق نہیں کیا۔

عرض یہ کرنا ہے کہ پابندی کے نو ماہ کے دوران ہر خاص و عام سے مجھے جو محبت اور عزت ملی، وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ پابندی کے باوجود افواج پاکستان کے اہم افسران نے بھی رابطہ رکھا۔ ان میں کچھ بچپن کے دوست بھی شامل ہیں، جو مجھے ہنس کر ملتے اور کہتے کہ ہمیں پتہ ہے کہ تمہاری لڑائی ہم سے نہیں ایک مائنڈ سیٹ سے ہے۔

سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں سے میں کیسے لڑ سکتا ہوں، میری لڑائی تو اس مائنڈ سیٹ سے ہے، جو اپنے آئین شکن رویے سے پاکستان کو کمزور کر رہا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ ایک ادارے تک محدود نہیں ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے لیے ہم سب کو مل جل کر پہلے اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہے اور پھر دوسروں کی غلطیوں کے پیچھے جانا ہے۔

جن صاحبانِ اختیار نے مجھ پر پابندی لگوائی تھی، وہ مجھے غلط ثابت کرنے کے لیے اسد علی طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے تو بہت اچھا ہوتا۔ وہ مجھ پر پابندی کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے لیکن یہ پابندی دراصل میرے موقف کی سچائی بن گئی۔ شاید اسی لیے میں پابندی لگوانے والوں کو اپنا دشمن نہیں محسن سمجھتا ہوں۔

نومبر 2021ء کے بعد کچھ ٹی وی چینلز نے مجھے اپنے ٹاک شوز میں بلانا شروع کیا تو حکومتی وزیروں نے ان چینلز کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ ‘آج ٹی وی‘ کے اشتہارات بند کر دیے گئے۔

بحرحال پابندی کے نو ماہ میں بہت سے پرانے دوست دور چلے گئے، کچھ دشمن دوست بن گئے لیکن اپنے قارئین اور ناظرین سے رشتہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔ مجھے فخر ہے کہ ہر مظلوم مجھے اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتا ہے۔

آٹھ مارچ 2022ء کو میں نو ماہ کے بعد دوبارہ اپنا شو کرنے جیو نیوز کے دفتر پہنچا تو ڈی چوک پر ایک ہجوم تھا اور عمران خان کے خلاف نعرے بازی ہو رہی تھی۔ اگست 2014ء میں بھی میں نے یہ منظر دیکھا تھا۔ 19 اپریل 2014ء کو کراچی میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہو کر میں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج تھا۔ دو گولیاں بدستور جسم میں تھیں۔ کامران خان سمیت کچھ ساتھی جیو نیوز چھوڑ کر ایک اور چینل میں جا چکے تھے۔

اس وقت عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا اور وہ ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ روزانہ جیو نیوز کے دفتر پر پتھر برسائے جاتے تھے۔ میں سہارے کے بغیر چل نہیں سکتا تھا لیکن مجھے کہا گیا کہ اپنا شو شروع کر دیں۔ میں نے زخمی حالت میں میں اپنا شو شروع کیا۔

جب میں شو کے لیے آیا تو ڈی چوک پر تحریک انصاف کے ترانے بج رہے تھے۔ 2014ء میں جو ترانے تھے، ان میں کہا جا رہا تھا کہ ’’جب آئے گا عمران۔۔۔‘‘۔ 2022ء میں جو نعرے لگ رہے تھے، وہ یہ تھے ’’اب جائے گا عمران‘‘۔ عمران خان دھرنے سے اقتدار میں نہیں آئے اور نہ دھرنے سے جائیں گے۔

اسی لیے پیپلزپارٹی والے آٹھ مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ کر کے واپس چلے گئے۔ انہیں پتہ ہے کہ عمران خان کو کیسے بھیجنا ہے۔ انہوں نے ایک آئینی راستے کا انتخاب کیا ہے لیکن خطرہ ہے کہ خان صاحب کچھ ایسا کریں گے کہ کوئی غیر آئینی حادثہ ہو جائے۔

خان صاحب مانیں یا نہ مانیں وہ فارغ ہو چکے ہیں۔ ان کی جگہ جو بھی آنے والا ہے، ان سے گزارش ہے کہ خدارا عمران خان نہ بنیے گا۔ میڈیا سے مت لڑیے گا، آئین کی خلاف ورزی مت کریے گا، بے گناہ شہریوں کو لاپتہ مت کیجیے گا کیونکہ اس آئین شکن مائنڈ سیٹ کے سامنے حامد میر ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ اس مائنڈ سیٹ سے دوبارہ لڑائی ہو گئی، پھر پابندی لگے گی اور پھر ختم ہو گی۔ تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیں بہت مہربانی!

آخر میں ایک دفعہ پھر ڈی ڈبلیو سمیت ان سب کا شکریہ، جو پابندی کے نو ماہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ راحت اندوری نے کہا تھا،

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

[pullquote]بشکریہ ڈی ڈبلیو اُردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے