خوبصورت ہونے کا خبط

حسین ہونا دنیا کی بڑی نعمتوں اور دولت میں سے ایک ہے۔ حسین بندے کی اپنی ایک گریس ہوتی ہے اورپوری دنیا اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ اور اگر بندہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا سیلبرٹی بھی ہو، بڑا کرکٹر، کپتان اور پھر ملک کا وزیراعظم بھی ہو تو یقینا وہ دوسرے لوگوں کی شکل، یا چہرے یا شخصیت پر نیگٹو کمنٹس کرنا یا ان کا مذاق اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیتا ہے۔

عمران خان پہلے ایسے نہیں تھے۔ شرمیلے تھے۔ بات کرتے جھجکتے تھے۔ لیکن سیاست نے ان کا جھاکا توڑ دیا۔اب انہوں نے ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا ہے کہ جو بندہ انہیں پسند نہیں اس کی شکل، لہجے، یا شخصیت کا سر عام مذاق اڑاتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا احساس ہے ان کے مخالفین ان کی شکل و صورت کا مذاق نہیں اڑا سکتے کیونکہ خدا نے انہیں حسین انسان کے طور پر پیدا کیا ہے۔

یہ خدا کی دین ہے وہ کس کو کیا شکل وصورت یا سیرت دے کر اس دینا میں بھیجتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ابھی بھی ان باتوں پر بحث ہوتی ہے کہ گورے رنگ کی قومیں خود کو سیاہ فام یا سانولے رنگ کی قوموں سے بالاتر سمجھتی ہیں کیونکہ ان کا یقین ہے خدا نے انہیں کم تر پیدا کیا ہے۔ انسان کا یہ تکبر اور غرور بڑا پرانا ہے اگر وہ دوسروں سے زیادہ بہتر قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں تو انہیں یہ حق مل گیا ہےکہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو کم تر سمجھیں یا وہ یہ تصور کر لیں کہ خدا نے انہیں کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے اور اب وہ کسی کو مسکرا کر قتل بھی کر دیں تو ان سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چائیے۔ ہندوستان میں تو باقاعدہ انسانوں کو طبقات میں تقسیم کیا گیا تھا کہ کون برہمن ہے اور کون شودر۔ ہندوستان پاکستان ہزاروں ذاتوں میں تقسیم ہے اور ہر ذات یا قوم خود کو دوسرے سے افضل سمجھتی ہے۔ انسان کے اندر احساس برتری کا احساس ایک سطح پر پہنچ کر احساس کمتری کی بدترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہر انسان خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرتا ہے اور یہیں سے نسل پرستی شروع ہوتی ہے۔

انگریزوں نے کئی سالوں تک افریقہ کے سیاہ فام انسانوں کو جہازوں میں بھر کر جدید دنیا میں غلام کے طور پر بیچا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا رنگ انہیں یہ حق دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر حکمرانی کریں اور وہ انہیں سرو کریں۔ ان مظلوم لوگوں نے اپنے رنگ کی وجہ سے بہت سزائیں بھگتیں اور ابھی بھی بھگت رہے ہیں۔ امریکہ میں ہم نے دیکھا کیسے ایک سفید فام پولیس مین نے ایک سیاہ فام پرگھٹنا رکھ کر اسے مار ڈالا جس پر پورے امریکہ میں کئی روز تک ہنگامے ہوتے رہے۔

سوال یہ ہے عمران خان جو اس ملک کے اب وزیراعظم ہیں انہیں یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی شکلوں بورے برے کمنٹس کریں؟

وہ ضرور ان کی کرپشن یا بدعنوانی پر ڈٹ کر حملے کریں لیکن کسی کی شکل کا مذاق اڑانا مجھے سمجھ نہیں آتا۔ میا تو خان صاحب سمجھتے ہیں ہر انسان کو ایک چوائس ملتا ہے کہ اس نے کہاں پیدا ہونا ہے، اس کے والدین کون ہوں گے، بھائی بہن، علاقہ، ملک، زبان یا شکل کیسی ہوگی ۔ انہوں نے وہ چوائس استمعال کیا کہ اچھے گھر پیدا ہوئے اور اچھی شکل پائی اور وزیراعظم تک بن گئے۔ جب کہ باقی لوگوں نے وہ چوائس استمعال نہیں کیا اور وہ بری شکلیں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ زرداری، شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمن کی شکلوں پر وہ جو ان کا مذاق اڑانے کے لیے کمنٹس کرتے رہتے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن آپ نے مونس الہی کا ایک ٹی وی چینل پر وہ کلپ تو سنا ہوگا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان اس لیے انہیں وزیر نہیں بنا رہے تھے کہ انہیں میری شکل پسند نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الہی بھی اکثر یہ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ عمران خان ان کے بارے پیٹھ پیچھے بیٹھ کر ایسے کمنٹ ان کی شخصیت پر کرتے ہیں جنہیں سن کر تکلیف ہوتی ہے۔

بات وہی ہے عمران خان کے اندر یہ بات گھر کر چکی ہے کہ خدا نے انہیں خاص پیدا کیا ہے۔ بچپن سے اب تک وہ خوش قسمت رہے ہیں اور گزرتے وقت ساتھ ان کی قسمت میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے اپنی ستر سال کی عمر تک عروج ہی دیکھا ہے زوال نہیں دیکھا لہذا وہ خود کو اب ایک سپرمین سمجھتے ہیں جو دوسرے لوگوں سے بہت اعلی اور مختلف ہے۔ اس لیے آپ نوٹ کریں ان کی ہر تقریر میں سے شروع ہوتی ہے اور میں پر ختم ہوتی ہے۔ ان کے اندر نرگیست پسندی اتنی بھر چکی ہے کہ کسی فنکشن میں پہلے سب مقررین مل کر خان صاحب کی بھرپور تعریفیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی خان صاحب کو لگتا ہے ابھی کوئی کمی رہ گئی ہے اور وہ پھر اگلا ایک گھنٹہ خود اپنی تعریفیں کرتے ہیں اور اپنی خوبیاں قوم کو بتاتے ہیں۔ یہ کام تقریبا روز ہوتا ہے اور اگلے دن سے وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں کل رکا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہےاب وہ بلاجھجھک بغیر سوچے سمجھے کہ وہ اب وزیراعظم ہیں وہ کسی کو کوئی بھی نام دے دیتے ہیں۔ اور تو اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو ان سے کہنا پڑگیا کہ وہ عام جلسوں میں مخالفین کے نام بگاڑ کر نہ لیا کریں جس پر انہوں نے باقاعدہ جلسے میں اعلان کیا کہ انہیں آرمی چیف نے منع کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے درجن بھر دفعہ مولانا کو ڈیزل کہا۔ عمران خان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ جس کرسی پر بیٹھے ہیں اس کی اپنی ایک عزت ہے۔ اس کی اپنی ایک گریس ہے۔ اس پر بیٹھے شخص کو اپنی سیاسی یا ذاتی دشمنیوں سے نکل کر بائیس کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرنی ہے۔ پوری دینا اسے دیکھ رہی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم قوم کا باپ ہوتا ہے اور قوم کی تربیت اس کی ذمہ داری ہے۔ اب یہ قوم کی تربیت ہورہی ہے کہ جب بھی خان صاحب بات کرتے ہیں تو وہ دوسروں کی شکلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر آرمی چیف وزیراعظم کو مشورہ دے رہا ہے تو اس کا مطلب وہاں بھی یہی احساس پایا جاتا ہے کہ ان کا وزیراعظم کیسا ہونا چاہئے جسے انہوں نے سیلوٹ کرنا ہے۔

اگر کسی وزیراعظم نے بھی وہی گلی محلے یا تھڑے والی زبان استمعال کرنی ہے تو پھر وہ اتنی بڑی کرسی پر کیوں بیٹھا ہے؟ اگر ہمارا وزیراعظم بھی ہماری طرح کی سطحی گفتگو کرتا ہے یا شکلوں پر مزاحیہ تبصرہ کرتا ہے تو پھر اسے ہمارے ساتھ آکر عام انسان بن کر بیٹھنا چائیے۔

جب ہم کسی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھاتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسان ہم سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ خدا نے اسے ہم سے زیادہ عقل، فہم ، کردار اور زبان بخشی ہے۔ یہی وجہ ہے جب صدر کلنٹن کا مونیکا لونسکی کا سکینڈل سامنے آیا تو اس پر الزام لگا اس نے جھوٹ بولا تھا تو اس کے خلاف باقاعدہ کانگریس میں ٹرائل شروع ہوگیا تھا جس کو براہ راست پوری دینا میں دکھایا گیا تھا۔ امریکن کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کا صدر بھی وہی کام کررہا ہے جو وہ عام لوگ کرتے ہیں تو پھر وہ وائٹ ہاوس سے نکل کر ان کے ساتھ پب یا کلب میں بیٹھے نہ کہ ان پر حکمرانی کرے۔

دنیا بھر میں اس لیے پبلک فگرز کے خلاف کوئی سکینڈلز آ جائیں تو انہیں فوری طور پر استحفی دینا پڑتا ہے کہ اب وہ خاص سے عام لوگ ہوگئے ہیں اور عام انسان اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اگر اس حکمران نے بھی عام انسانوں والی حرکتیں یا باتیں کرنی ہیں تو پھر وہ تخت سے نیچے اتر آئے۔

عمران خان کا جس طرح کا ایکسپورز تھا یا ان کی کلاس تھی اس کے بعد ان سے بہت توقعات تھیں کہ وہ اس عہدے کی عزت میں اضافہ کریں گے۔ لیکن جس طرح کی لینگویج استمعال کی جارہی ہے اس نے باقی چھوڑیں ان کے اپنے حامیوں کو بھی پشمان کیا ہے۔

بات وہی ہے کہ خان صاحب ایک خوش قسمت انسان رہے ہیں لہذا وہ اب یہ اپنا حق سمجھنے لگ گئے ہیں کہ وہ جس کو جو چاہیں کہہ دیں خصوصا ان کی شکل یا گفتگو کے بارے میں مذاق آڑائیں۔
ویسے یہ بات طے ہے عمران خان شدید احساس برتری کا شکار ہیں۔ان کی باتوں سے تکبر واضح جھلکتا ہے۔

حیران ہوتا ہوں کوئی بھی انسان اتنی خوشامد، خودپسندی، بے پناہ نرگسیت اور احساس برتری کے ساتھ کیسے ایک نارمل انسان رہ سکتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے