مودی کا یو ٹرن

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو سخت گیر خیالات کے حامل ہندوستانی سیاستدان ہیں، انہیں ماضی میں مسلمانوں کے قتل عام پر گجرات کے قصائی کا لقب دیا گیا،گجرات کی ترقی،ہندوتوا کارڈ اور پاکستان سے مذاکرات ’کبھی نہیں‘ ان کی انتخابی مہم کا بنیادی ایجنڈا تھا ،یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ڈھائی برس کے دوران کبھی بھی پاکستان سے مذاکرات کے پرجوش حامی نہیں رہے۔

پھر ایسا کیا ہوا؟ پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات میں پہل مودی کا طرۂ امتیاز بن گئی۔ مودی کی پہل پر پیرس میں بیٹھک لگی، بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج پاکستان بھی آگئی اورواپسی پر انہوں نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب میں راجیہ سبھا کے اراکین کو پاکستان سے مذاکرات، امن اور باہمی احترام کا خوب درس دیا۔

بھارتی وزیراعظم نے روس اور افغانستان کے دوروں کے بعد لاہور آنے کا اعلان کیا اور وجہ بنائی بھی تو نوازشریف کا یوم پیدائش اور ضد کی کہ میں گھر پر آکر ہی مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔بہت خوب مودی صاحب کیا خوب بہانہ ہے،لگتا ہے آپ کی وزرات اعظمیٰ کے دوران نوازشریف کا جنم دن شائد پہلی بارآیا ہے،جسے بھارتی میڈیا نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت اور وزیراعظم کی والدہ سے ملاقات کہہ رہا ہے۔

کیوں ایسا کیوں ہورہا ہے؟بہانے بہانے ملاقاتوں کا سلسلہ کیوں اپنایا جارہا ہے؟اس سوال پر میں ہی نہیں، بھارتی میڈیا بھی چونک گیا ہے، نریندر مودی کے یوٹرن پر وہ ہکا بکا ہو گیا ہے، بی جے پی رہنمائوں سے نکتے بدل بدل کے سوالات پوچھ رہا ہے، ان کی خوب لے دے کررہا ہے مگر بی جے پی سیاستدانوں کے پاس گریبان جھکنے کے سواکوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ یہی وہی بھارتی وزیراعظم ہیں جن کے امریکی صدر کو چائے بناکر دینے پر پاکستانیوں نے ان کا چائے والا بھارتی وزیراعظم کہہ کر خوب مذاق بنایا تھا،وہ حالیہ روسی دورے کے دوران بھی مدہوش رہے، سلامی کے چبوترے پر رکنے کے بجائے آگے بڑھتے ہی چلے گئے پھر انہیں روکا گیا اورسلامی کے چبوترے کی راہ دکھلائی گئی۔

بھارتی وزیراعظم جنہوں نے لاہور آمد سے قبل افغانستان کے دونوں ایوانوں کے مشترکا اجلاس سے خطاب میں کہا کہ بھارت کے افغانستان میں بڑھتے اثر کو زائل کرنے کیلئے پاکستان طالبان کو دوبارہ کھڑاکررہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ دہشت گردوں کی نرسری اور پناگاہیں لازماً ختم کرنا ہوں گی۔

دونوں وزرائے اعظم کےدرمیان لاہور میں ہونے والی ملاقات اب تک کی چھٹی ملاقات ہے، دونوں ہی سربراہان مملکت پہلے بار مودی کی تقریب حلف برداری کے موقع پر دہلی میں ملے، پاکستان میں کئی حلقوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کے دہلی جانے پر کافی کچھ کہا گیااور مودی نے بھارتی عوام کو اپنے سخت گیر مؤقف پر قائم رہنے کا تاثر دیا،پھر دونوں جانب سرد مہری بڑھ گئی،سرحدی خلاف ورزیاں ہوئیں، جنگ جنگ کی آوازیں بلند ہوئیں اور یہ سب نیپال میں ہونے والی دوسری ملاقات کے دوران بھی دیکھنے کو ملا، جب صرف اختتامی لمحات سے کچھ دیر پہلے دونوں وزرائے اعظم نے ہاتھ ملایا اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا تھا۔

اوفا میں ہونے والی تیسری ملاقات کے بعد مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا محسوس ہوا مگر پاکستانی مشیر خارجہ کے دورۂ بھارت کے دوران کشمیری قیادت سے ملاقات کے اصرار کے بعد بھارت نے خود ہی مذاکرات کے اونٹ ذبح کردیا۔ اس دوران سرحدی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے اسمبلی اجلاس کے دوران بھارتی دہشت گردی کے ثبوت عالمی فورم پر پیش کردئیے۔ اس دوران بھی دونوں سربراہان نے ہاتھ ہلاہلاکر خیر سگالی کے امکانات پید اکرنے کی کوشش کی، مگر عوام لہو لہان ہوتے رہے، بھارت پاکستان کو دہشت گردوں کو سرپرست کہتا رہا، بہار کے انتخابات میں بھی پاکستانی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست، ان کا معاون و مددگار کہنے والا بھارتی وزیراعظم لاہور کے سرپرائز وزٹ سے دنیا کو کیا تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے؟ کیا وہ بتانا چاہ رہا ہے کہ میں بدل گیا ہوں، ہم پڑوسی کو دشمن بنائے رکھنے کی اپنی 65برس کی پالیسی سے رجوع کررہے ہیں،انہیں دوست کا درجہ دے رہے ہیں؟ بھارت اپنے بڑے ہونے کاچھوٹوں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر بھرپور اظہار کررہا ہے؟

اگر مان لیا جائے یہی اہداف ہیں تو پاکستان نے ان کی آمد کی خواہش پوری کردی،انہیں بنا ویزے کے پاکستانی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت مل گئی، ان کے 120رکنی وفد کی خوب آئو بھگت کی،مطلب صاف ہے کہ ان کی جھولی بھردی، اب مودی صاحب پر لازم آتا ہے کہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور کو تیز تر بات چیت سے حل کریں،ورنہ آنیا ں جانیاں، ملاقاتیں ،درملاقاتیں،چائے کے کپ اور گپ شپ کا دور تو رہتی دنیا تک جاری ہی رہیے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے