وفاقی کابینہ میں بلاول کی عدم شمولیت

بستر سے باہر نکلتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے مجھے دوپہر بارہ بجے تک انتظار کرنا پڑا۔وجہ اس کی وفاقی کابینہ کی حلف برداری تھی جس کی تشکیل میں تاخیر عوام کی کثیر تعداد کو یہ سوچنے کومجبور کررہی تھی کہ عمران خان صاحب کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ان کے سیاسی مخالفین منتشر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔مذکور تاثر اگرچہ محض ایک حد تک درست تھا۔بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماضی کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں عمران خان صاحب سے جدا کی گئی ’’اتحادی‘‘ جماعتوں کو ہر صورت مطمئن رکھنا چاہ رہی تھیں۔مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کو راضی رکھنا بھی مقصود تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت پر خلوص شدت سے خواہش مند تھی کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری بھی ’’قومی حکومت‘‘ دِکھتی کابینہ میں شامل ہوں۔ انہیں وزیر خارجہ کے ساتھ ’’نائب وزیر اعظم‘‘ والاتشخص فراہم کرنے کا بھی وعدہ ہوا۔ تحریک انصاف کے کائیاں سیاستدان شاہ محمود قریشی مذکورہ خواہش سے بخوبی واقف تھے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کا نام لیتے ہوئے طنز کے نشتر برسائے۔ اس امر پر منافقانہ حیرت کا اظہار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے عہد ساز وزیر خارجہ کا نواسہ شہباز شریف جیسے ’’عادی مجرم‘‘کی کابینہ میں شامل ہونے کو ’’تیار‘‘ ہے۔آصف علی زرداری موصوف کی ’’حیرت‘‘ پر ہکا بکا نظر آئے۔ملتان کے مخدوم نے مگر پنجابی محاورے کے مطابق اپنا ’’کام دکھادیا‘‘۔

شاہ محمود قریشی کی لگائی ’’تیلی‘‘ کے بعد ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنوں اور جیالوں کی بے تحاشہ تعداد اپنی قیادت کو یہ پیغام پہنچانا شروع ہوگئی کہ بھٹو کے نواسے اور بی بی کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کی قیادت تلے حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ ایک ’’تاریخی‘‘ جماعت کے چیئرمین ہوتے ہوئے جو ’’نظریاتی شناخت‘‘ کی حامل بھی ہے بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کے مستحق ہیں۔انہیں اس مقام تک پہنچنے کے لئے مناسب وقت کا انتظارکرنا چاہیے۔

اصولی طورپر ان کی خواہش برحق تھی۔عملی سیاست کے مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ان تقاضوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت خارجہ کا منصب قبول کرلینا چاہیے تھا۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق چند غیر سیاسی مگر ہمارے ہاں اقتدار کی حرکیات کو خوب سمجھنے والے چند اہم افراد نے بھی آصف علی زرداری سے تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں میں بلاول بھٹو زرداری کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کو راغب کرنا چاہا۔غالباََ ان کی رائے کی وجہ سے گزرے ہفتے کی رات آصف علی زرداری کی شہباز شریف سے جو ملاقات ہوئی اس کے اختتام کے بعد تصور کرلیا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری وفاقی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شمولیت کو آمادہ ہوگئے ہیں۔میرا وہمی ذہن مگر شک وشبے کا شکار رہا۔ اسی باعث ’’مصدقہ‘‘تصور ہوتے ذرائع کی جانب سے ’’تصدیق‘‘ کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے امکان کو ’’خبر‘‘بنانے کو مائل نہیں ہوا۔ میری احتیاط نے منگل کے دن شرمندگی سے بچالیا ہے۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے موجودہ پاکستان میں شناذہی کوئی شخص تاریخ سے رجوع کرنے کی زحمت اٹھاتا ہے۔اسی باعث پیپلز پارٹی کے دیرینہ ترین جیالے بھی یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ 1970کے انتخاب کی بدولت ان دنوں کے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جنرل یحییٰ کی صدارت تلے بنائے وزیر اعظم نورالامین کے ڈپٹی وزیر اعظم بنے تھے اور اس حیثیت میں وزارت خارجہ کا قلم دان بھی سنبھالا تھا۔

نورالامین کا تعلق ان دنوں کے مشرقی پاکستان سے تھا۔ان دنوں بنگلہ دیش کہلاتے اس خطے میں نورالامین وہ واحد بنگالی تھے جو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے لئے 1970کے انتخاب کی بدولت منتخب ہوئے تھے۔ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب اور ان کی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے میں غیر ذمہ دارانہ لیت ولعل سے کام لیا۔ بات بالآخر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن لانچ کرنے تک چلی گئی۔ بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے نورالامین کی قیادت میں ’’سیاسی کابینہ‘‘تشکیل دینا پڑی۔

پاکستان کا موجودہ بحران 1970جیسا سنگین ترین تو نہیں مگر اندھی نفرت وعقیدت کی بناپر ابھرے ہیجان وتفریق نے ایسی خلفشار یقینا برپا کردی ہے جس سے نبردآزماہونے کے لئے عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین کو یکجاہوکر ’’قومی یکجہتی‘‘ کی اہمیت کواجاگر کرنا ہوگا۔وفاقی کابینہ میں شامل ہوکر بلاول بھٹو زرداری مذکورہ تناظر میں شہباز شریف کے مؤثر مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔

اجتماعی بحران کے علاوہ ہمیں اس حقیقت کو بھی نگاہ میں رکھنا ہوگا کہ عمران خان صاحب کے زیر سایہ کام کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو تقریباََ مفلوج بنائے رکھا۔پاکستان کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے لئے یہ وزارت اہم ترین معاملات پر اپنا نہایت محنت اور صلاحیت سے تیار کردہ ’’اِن پٹ(Input)‘‘دینے سے خوف کھاتی اور ہچکچاتی رہی۔بے عملی کی اس فضا نے سفارتی محاذ پر پاکستان کے لئے شرمندگی اور مشکلات کے بے تحاشہ واقعات دکھائے۔عملی صحافت سے کنارہ کش ہوئے مجھے دس برس گزرچکے ہیں۔گھر میں گوشہ نشین ہوجانے کے باوجود مجھے اس ضمن میں کئی معاملات کا تفصیلی علم ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اگر وزارت خارجہ کا منصب سنبھالتے تو ہمارے سفارت کار بہت پراعتماد محسوس کرتے۔ وہ اپنی قدآور شخصیت کی بدولت ہماری سفارت کاری کو متحرک وتوانا بناسکتے تھے۔ ان کی بطور وزیر خارجہ شہباز حکومت میں شمولیت دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک کیساتھ جو رویہ اختیار کررہا ہے اسے ہماری سیاسی جماعتوں کی اکثریت پشت پناہی میسر کررہی ہے۔

عمران خان صاحب نے جس انداز میں واشنگٹن سے آئے ’’دھمکی آمیز‘‘ خط کا معاملہ اچھالا ہے اس نے پاکستان کے دیرینہ دوست اور خیر خواہ ممالک کو بھی پریشان کردیا ہے۔ان کے حکام اب ہمارے سفارت کاروں سے کھل کر بات کرنے سے گھبرارہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ انہیں اعتماد دلانے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔اب یہ فریضہ شہبازشریف کو تن تنہا ہی نبھانا ہوگا۔ان کے لئے اگرچہ خیر کی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے حناربانی کھر کو وزارت خارجہ کے لئے بطور وزیر مملکت نامزد کیا ہے۔وہ ایک محنتی خاتون ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہوئیں۔اس دوران پاکستان کو سفارتی محاذ پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ مگر ان سے قابل ستائش بردباری سے نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے