آج ستائیس دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک عظیم قومی سانحہ ہے جسے چھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج تک قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔
[pullquote]راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دو سابق وزرائے اعظم خان لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعات رونما ہوئے اور اتفاق سے دونوں کے قتل کا معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔ محترمہ کی پہلی برسی پر اُن کے شوہر آصف علی زرداری کا دعویٰ تھا کہ اُنہیں قاتلوں کے بارے میں معلوم ہے البتہ صدر مملکت بن جانے کے بعد بھی اس بارے کچھ نہ بتا سکے۔[/pullquote]
اسی طرح اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کے اجراء کے بہت بعد سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ محترمہ کو قتل کرنے کی حکمت عملی کہاں اور کیسے تیار کی گئی۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری سالوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کا دائرہ سابق صدر پرویز مشرف تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے چالان پیش کرنے کے بعد عدالتی احکامات کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ کیس کی تحقیقات کیلئے پرویز مشرف کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس کے بعد ایف آئی اے نے بتیس سوالات پر مشتمل سوالنامہ تیار کرکے سابق صدر کو بھجوایا۔ اس سوالنامے میں بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی سے متعلق ان کے لکھے گئے خط اور ان پر حملے کے بعد فوری طور پر بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس میں بیت اﷲ محسود کو مرکزی ملزم قرار دینے کے ان شواہد سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے۔
سوالنامے میں یہ بھی پوچھا گیا کہ کِس اعلیٰ شخصیت کی کال پر بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا گیا۔ پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے سو فیصد حق میں ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی قبر کشائی کرکے ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جانا چاہئے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا نہیں، تاہم انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ ایسا اقدام محترمہ کے ورثاء کی اجازت سے ہی ممکن ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعے پر جہاں پرویز مشرف حکومت پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں وہیں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی اِس دلخراش واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے سلسلے میں پہلی تحقیق خود پرویز مشرف حکومت نے کی تھی جس میں بتایا گیا کہ بیت اﷲ محسود نے انہیں قتل کیا ہے۔
دوسری تحقیق اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین سے کرائی گئی۔اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق محترمہ کو انتہاپسندوں نے قتل کیا تھا ، کیونکہ وہ طالبان کے سلسلے میں امریکا کے مؤقف کی کھل کر حمایت کر رہی تھیں۔
تیسری رپورٹ اقوام متحدہ کے تین رکنی کمیشن نے تیار کی تھی جس میں پاکستان کے بعض حساس اداروں کی ناقص کارکردگی پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں اور مبینہ طور پر ان پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی غفلت اور مکمل سکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی وہ بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس رپورٹ میں ان عناصر کا ذکر تک نہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ تین رکنی کمیشن کی رپورٹ نے کئی نئے سوالات جنم دیئے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق تینوں تحقیقاتی رپورٹیں حقائق کو اطمینان بخش طریقے سے عوام کے سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو آٹھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے تاحال قاتلوں تک پہنچا نہیں جا سکا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ بے نظیر بھٹو کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا پھر سن روف کا لیور اُن کی موت کا سبب بنا۔ جب تک مندرجہ ذیل سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک یہ گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی۔
(1) ستائیس دسمبر 2007ء سانحے کی جاری کی گئی تمام ویڈیوز سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بے نظیر بھٹو اوپن ٹارگٹ تھیں اور انہیں باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کیا اُن کی سکیورٹی کیلئے سانحہ کارساز سے بھی زیادہ سخت انتظامات کیے گئے تھے؟
(2) خود پیپلز پارٹی نے بھی محترمہ کی سکیورٹی پر غور کیا ہوگا۔ بے نظیر بھٹو کے اس انداز سے لوگوں میں گھلنے ملنے کے ممکنہ خطرات کیا پارٹی فورم پر زیرِ بحث آئے تھے؟ اگر ہاں تو پھر پارٹی نے اس حوالے سے کیا انتظامات کیے تھے؟
(3) خود کش دھماکہ کی جگہ جلسہ گاہ سے باہر تھی اور وہاں بے نظیر کو رْکنا بھی نہیں تھا۔ گاڑی رْکی کیسے؟ کسی نے اشارہ کیا یا شیدائیوں کی بھیڑ دیکھ کر خود ہی گاڑی رکوانے پر مجبور ہوئیں یا نتیجتاً گولی چل گئی پھر فوراً دھماکہ بھی ہو گیا؟
(4) حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا وہ واقعی چانس لے رہے تھے کہ بے نظیر سن روف سے نکلیں اور کارروائی کی جائے؟ اگر بے نظیر بھٹو سن روف سے نہ نکلتیں پھر کیا وہ حملے کا ارادہ ترک کر دیتے؟
(5) محترمہ کی گاڑی میں مخدوم امین فہیم اور شیریں رحمان کے ساتھ اور کون کون لوگ موجود تھے؟ ان تمام لوگوں نے کیا دیکھا۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے گولی چلنے کی آواز سنی یا نہیں؟
(6) محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کیسے ہوئی؟ انہیں گولی لگی، بم کا ٹکڑا لگا یا پھر سن روف کا لیور لگنے سے موت واقع ہوئی؟
(7) شیریں رحمان نے میت کو غسل کرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ گردن پر گولیوں کے نشان موجود تھے۔اب سوال یہ ہے کہ جو دیگر لوگ بے نظیر کے ساتھ اس گاڑی میں موجود تھے انہیں بے نظیر بھٹو کو گولی لگنے کا پتہ کیوں نہیں چلا؟
(8) بے نظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست کیوں کی گئی؟ حکومت کی جانب سے فیصلہ کس نے کیا کہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے؟ جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہی نہیں کیا گیا تو پھر موت کے اسباب کیسے تلاش کئے جائیں گے؟ پوسٹ مارٹم حادثاتی موت کے اسباب کا تعین کرنے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیا پوسٹ مارٹم نہ کیا جانا کسی عالمگیر سازش کا اشارہ تو نہیں؟
(9) بے نظیر کی موت کے بارے میں اُس وقت کی حکومت نے متضاد بیانات کیوں دیئے؟ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے بھی متضاد بیانات سامنے آئے؟ گاڑی میں موجود تمام افراد کے بیانات میں کتنا تضاد تھا؟
(10) حادثے کے فوراً بعد جائے وقوعہ کو کیوں دھویا گیا؟ ثبوت ضائع کرنے کا حکم کس کا تھا اور احکامات کس نے جاری کئے؟ خون کے دھبوں اور بارود کے ذرات کو دھونے کا مقصد ثبوت و شواہد کو مٹانا کیوں نہ مانا جائے؟
(11)تدفین کے معاملے میں عجلت سے کیوں کام لیا گیا؟ محترمہ کے جنازے میں عالمی رہنماوں کی شرکت کیوں نہیں ہوئی؟
(12) بی بی کی لاش کا آخری دیدار کیوں نہیں کرایا گیا؟ مداحوں کو اپنی محبوب رہنماء کا چہرہ دیکھنے سے کیوں روکا گیا؟ تدفین سے قبل کس نے ان کی شکل دیکھی اور ان کا کیا کہنا تھا؟
(13) کیا واقعی محترمہ کا قتل بیت اﷲ محسود نے کرایا؟ حساس اداروں نے اتنی جلدی بیت اﷲ محسود اور اُن کے ایک ساتھی کی بات چیت کیسے ریکارڈ کرلی؟ یہ ریکارڈنگ اُس وقت کیوں نہیں ہوئی جب قتل کی کوئی سازش بن رہی تھی؟
(14) محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی غیر طبعی موت کی صورت میں جن افراد کو اپنی زندگی میں ملوث قرار دے دیا تھا ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وہ تمام لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو بھی ان افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
(15) بے نظیر بھٹو کے قتل کے اسباب جاننے کیلئے پرویز مشرف حکومت، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ علیحدہ علیحدہ تحقیقات کر چکی ہیں۔ کیا ان تمام اداروں کی تحقیقاتی یا تفتیشی رپورٹس غیر جانبدارانہ ہیں؟ آئندہ آنے والے نتائج کتنے صحیح ہونگے؟
یہ تمام سوالات جواب طلب ہیں اور اگر کوئی آزادانہ تفتیش ہو تو بہت سے چہرے عیاں ہو سکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ ! اس نوع کے معاملات میں ہمارا گزشتہ ریکارڈ کسی لحاظ سے بھی قابل رشک نہیں ہے۔ جب تک ان بنیادی سوالات کا جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک یہ گتھی سلجھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔