مسعود جنجوعہ کی جبری گمشدگی کے 17 سال مکمل ہونے پر ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ

"مسعود احمد جنجوعہ کی جبری گمشدگی کے 17 سال مکمل ہو چکے ھیں جبکہ ذاھد آمین اور شاہد منظور کو 8 سال، ساجد محمود کو 6 سال اور اسی طرح تمام جبری لاپتہ عرصہ دراز سے دکھی ھیں، اس موقع پر ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا”

اسلام آباد() ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر) نے آج مسعود جنجوعہ کی جبری گمشدگی کے 17 سال مکمل ہونے پر ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا،مظاہرے میں ملک بھر سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئےـ

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ڈیفنس آف هیومن رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ حکومتی ذمہ داران کو جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات لینے چاہیے۔ اس حوالے سے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی جانب سے کئی بار اسلام آباد کے "ڈی چوک” سمیت کئی جگہوں پر دھرنا دیا، اسی مطالبے کے ساتھ آج ایک دفعہ پھر سے آمنہ مسعود جنجوعہ اور جبری گمشدہ افراد کے لواحقین نے دھرنا کا آغاز کیا ہے۔

2014 میں زاہد آمین کو اڈیالہ روڈ پر اپنے گھر سے اٹھایا گا, جبکہ اس کے جوان بھائی کو 2021 میں غائب کر دیا گیا۔ اس طرح انجینئر ساجد محمود کو مارچ 2016 میں جبری طور لاپتہ کردیا گیا جبکہ عتیق الرحمن جو کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پی ایس تھے کو بھی جبری لاپتہ کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فیروز بلوچ، نوید بٹ ، شاہد منظور قاسم اور فیصل کے خاندان کے افراد بھی سالوں سے اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے 140 خاندان بھی روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لواحقین کی رہائی کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں شدید گرمیوں میں صوبائی اسمبلی کے سامنے 40 دن کا تاریخی دھرنا دیا مگر اس کے باوجود ان کے لواحقین کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔
پشاور کی بوڑھی ماں صبیحہ بیگم 20 سال سے اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے لیکن جبری گمشدگیوں کو دیکھنے والے کمیشن نے ان کو جواب دیا ہے کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ قوم کی مائیں کب تک صدمے اور دکھ برداشت کرتی رہیگی، جہاں تک نظر پڑتی ہے یہی روگ ہے۔

بلوچ, سندھ, پنجاب اور خیبرپختونخوا میں یکساں کہرام مچا ہوا ہے, گھروں سے ان کے بھائی بیٹے اور شوہر غائب کر دیے گئے ہیں، لیکن کسی کو نہیں پتہ آخر ان کو انصاف کب اور کون دے گا؟ حکومت کو یہ سوچنا ہو گا، کسی بہترین پالیسی کے تحت تمام لاپتہ افراد کو منظرعام پر لانا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم یہاں آتے رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت اپنے وعدے پورے کرے اور لاپتہ افراد کو رہا کریں۔اگر ہمارے پیاروں کا کوئے قصور ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کرے اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو ان کو فوری طور پر رہا کرے لیکن اس اذیت کے ساتھ ہمارے لیے زندہ رہنا اب مشکل ہو گیا ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام جبری لاپتہ افراد کو فوراً بازیاب کرنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز کے زیر نگرانی خفیہ حراستی مراکز کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ سالوں سے مشکلات کا شکار لاپتہ افراد کے متاثرہ خاندانوں کی تلافی کے لیے جامع منصوبہ تیار کیا جاٸے۔

لاپتہ افراد کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کر کے اسکی توثیق کی جاٸے۔

پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسٸلے کے حل کیلٸے آج سے گیارہ سال پہلے "کمیشن آف انکواٸری آن انفورسڈ ڈس اپیرنسز” کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم کمیشن کی تمام تر کاررواٸی ماہانہ بنیادوں پر ایک فرضی رپورٹ کے اجراء تک محدود ہے۔رپورٹ میں کمیشن اپنی تعریفوں کے ساتھ اعداد وشمار کے ہیرا پھیری سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتا ہے۔ درحقیقت کمیشن اپنے احکامات پر بھی عملدرآمد نہیں کروا سکا۔ کمیشن نے 600 لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم نامہ جاری کیا لیکن یہ کمیشن قانونی اختیار رکھنے کے باوجود ان احکامات پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہے۔
آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیوں کو اس پروپیگنڈا مشینری کا مقابلہ کرنا ہو گا جو لاپتہ افراد کے ورثاء کی جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔عوام کی راٸے معاشرے کے دانشوروں کے افکار اور طرز عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ جبری گمشدگی کے خلاف جنگ میں کامیابی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے ہی ممکن ہے۔ جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی پامالی کی سنگین ترین شکل ہے۔ اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسکے خاتمے کیلٸے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک قانون خوف اور مصلحتوں کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوگا یہ مسٸلہ حل نہیں ہوگا۔ عدلیہ کو پوری تواناٸی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیٸے۔ طاقت وروں سے صرفِ نظر کرنے والے معاشرے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کا مزید کہنا تھا کہ مسعود جنجوعہ کی گمشدگی کے 17 سال بعد بھی ان کے خاندان اور انسانی حقوق کے محافظین کی طرف سےسچ، انصاف اور آزادی کی جدوجہد جاری ہے نا صرف یہ بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی برادری یکجہتی کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔

ڈیفنس آف هیومن رائیٹس اور انسانی حقوق کی عالمی برادری نے مسعود جنجوعہ کی فوری رہائی اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس پاکستان حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ 17 سال کے اذیت ناک سفر کو ختم کرے اور مسعود جنجوعہ، فیصل فراز اور پاکستان کے تمام لاپتہ افراد کورہا کرے۔ مسعود جنجوعہ کی اہلیہ امنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ: "میں مر سکتی ہوں لیکن اپنے پیارے شوہر مسعود کی تلاش کی جدوجہد ترک نہیں کر سکتی۔”

میڈیا ٹیم
ڈیفنس آف هیومن رائیٹس پاکستان
دفتر نمبر 24، تیسری منزل، مجید پلازہ،
بنک روڈ، صدر، راولپندی۔
051-5511686

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے