جسٹس بمقابلہ جسٹس

افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ ریاست کے ادارے مضبوط، اپنے آئینی حد میں کام کرنے والے اور غیرمتنازعہ ہوں تو اس ریاست کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اگر ادارے کمزور، متنازعہ یا اپنے دائرے سے نکل جائیں تو ملک انارکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھی ہمارے ریاستی اداروں کا کردار قابل رشک نہیں رہا لیکن گزشتہ چند سال میں ایک لاڈلے کیلئے یا پھر اس لاڈلے کے ذریعے پاکستان کے ریاستی اداروں کا وہ حال کردیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکیم سعید، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا فضل الرحمان اور سید خورشید شاہ جیسے لوگ جو کچھ کہتے رہے ان میں کچھ وزن ضرور ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان دشمن مغربی طاقتیں بہت منظم طریقے سے ایک شخص کے ذریعے پاکستان میں انارکی کا یہ مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

ان کے ذریعے سیاست اور سیاستدانوں کو بدنام کیا گیاسول نافرمانی جیسے اقدامات کے ذریعے نئی نسل کو قانون شکنی کے راستے پر لگایا گیا ۔

میڈیا کو تقسیم اور بے وقعت کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن سے غیرملکی فنڈنگ کیس کو آٹھ سال تک زیرالتوا رکھ کر اور آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھا کر الیکشن کمیشن کو ڈس کریڈٹ کیا گیا۔

پہلے فوج کو ان کے ساتھ ملا کر بدنام کیا گیا اور اب ان کے ذریعے اسے گالیاں پڑواکر عوام کی نظروں میں اس کو بے وقار کرنے کے سازش جاری ہے لیکن سب سے افسوسناک پہلو اعلیٰ عدلیہ کا ہے۔

بدقسمتی سے ثاقب نثار اور عظمت سعید جیسے لوگوں نے عدلیہ کو اس شخص کو وزیراعظم بنوانے اور پھر بچانے کیلئےاستعمال کیا۔ اب جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے اقدام سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس شخص کی پارٹی کے ذریعے سوشل میڈیا پر عدلیہ کو گالیاں پڑوائی گئیں اورایسی صورت حال پیدا کی گئی کہ پی ٹی آئی کے سوا ملک کی تمام قابل ذکر جماعتیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل بینچ کے فیصلوں کو متنازعہ قرار دے رہی ہیں۔

سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی میڈیا کی طرح تقسیم نظر آتی ہے جس کا واضح ثبوت پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بعد سینئیر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے بارے میں ناجائز ریفرنس دائر کرنا اور اب چیف جسٹس کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خطوط ہیں۔

عدلیہ کی اس تشویشناک صورت حال اور تقسیم کااندازہ جسٹس فائز عیسیٰ کے 25جولائی 2022کو بیرون ملک(جہاں وہ سالانہ تعطیلات کے لئے تشریف لے گئے ہیں) کے بھجوائے گئے خط کے مندرجات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں میں جسٹس فائز عیسیٰ جنہیں اگلے سال چیف جسٹس آف پاکستان بننا ہے کے خط کا اردو ترجمہ نقل کررہا ہوں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔

25 جولائی 2022ء

معزز چیئرمین اور قابل احترام ارکان جوڈیشل کمیشن آف پاکستان…السلام علیکم!

مجھے اپنی سالانہ تعطیلات کے دوران عدالت عظمیٰ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے ایک واٹس ایپ پیغام وصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانچ ججز کی تقرری کا فیصلہ کرنے کیلئے معزز چیف جسٹس آف پاکستان نے 28 جولائی 2022کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے۔ حالانکہ سالانہ تعطیلات کے آغاز سے پہلے جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں کیا گیا تھا مگر جونہی میں پاکستان سے روانہ ہوا.

چیف جسٹس صاحب نے سندھ اور لاہور کی اعلیٰ عدالتوں میں تقرریوں کے متعلق دو اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اب عدالت عظمیٰ میں موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران جوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ میں موسمِ گرما کی تعطیلات کا فیصلہ خود چیف جسٹس صاحب نے کیا تھا اور اس کے بعد اس کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ اگر چیف جسٹس اپنے اعلان کردہ نوٹیفیکیشن کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے تو بہتر ہے کہ وہ اسے منسوخ کر دیں۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس منعقدہ28جون 2022 میں، چیف جسٹس اور جناب اعجاز الاحسن کے سوا تمام ارکان نے اتفاق رائے سے اجلاس کو ملتوی کرنے کے حق میں رائے دی کیونکہ گرما کی اعلان شدہ تعطیلات میں اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا جبکہ عدالت کے سینیئر ترین جج چھٹی پر تھے۔

اس بات کو بھی نوٹ کیا گیا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے بعد سینیئر ترین جج کو جوڈیشل کمیشن کی پس منظر دیکھنے والی اور صلاحیت جانچنے والی کمیٹیوں کے اجلاسوں کی سربراہی نہیں کرنے دی گئی۔ اس کے باوجود جیوڈیشل کمیشن کا ایک اور اجلاس بلانا ناقابل فہم ہے، جبکہ وہ تمام وجوہات جن کی بنیاد پر پہلے اجلاس ملتوی کیے گئے تھے، اب بھی برقرار ہیں، اور ان کے ساتھ اضافی وجہ یہ بھی ہے کہ اٹارنی جنرل کا ابھی حال ہی میں آپریشن ہوا ہے۔

جب چیف جسٹس صاحب کو یہ معلوم ہے کہ چند دنوں میں سینئر ترین جج پاکستان واپس آ رہے ہیں تو وہ کچھ دن مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتے؟ مہینوں تک جوڈیشل کمیشن کے اجلاس نہ بلانا اور پھر تین اجلاس یوں طلب کرنا جبکہ سینیئر ترین جج اپنی منظور شدہ سالانہ چھٹی پر ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ باقی ججز اجلاس میں شریک ہوں جو واضح طور پر غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں موسم سرما کی تعطیلات کے دوران بھی کام کرتا رہا ہوں اور عام طور پر میں شام کو دفتر سے نکلنے والا آخری فرد ہوتا تھا۔ میں نے ایک بھی زیر التوا فیصلہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی تفصیلی وجوہات کی فراہمی کا انتظار کرتے ہوئے کوئی ’مختصر فیصلہ‘ سنایا۔

جب عدالت عظمیٰ میں اسامیاں خالی ہوئیں تو چیف جسٹس صاحب نے کوئی اجلاس طلب نہیں کیا لیکن اب اچانک ہی عجلت میں تھوک کے حساب سے تقرری کرنا چاہتے ہیں۔ پانچ ججوں کی تقرری کا مطلب عدالت عظمیٰ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے جسے چیف جسٹس اعلان شدہ سرکاری تعطیلات کے دوران کمیشن کے تمام ارکان کی شرکت سے گریز کرتے ہوئے منعقد کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس ایک ’’متوقع‘‘ اسامی کو بھی پر کرنا چاہتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 175 (8)اس کی اجازت نہیں دیتی۔ نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ چیف جسٹس اکیلے نام تجویز کریں کیونکہ یہ صرف جوڈیشل کمیشن کا استحقاق ہے۔ تاہم آئین سے بالاتر ناقص طور پر وضع کردہ قواعد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

سپریم جوڈیشل کمیشن کے نام خط میں جسٹس قاضی محمد فائز عیسیٰ آگے لکھتے ہیں کہ

تاہم چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالتِ عالیہ سندھ کے چیف جسٹس کو اپنی زیرِ غور فہرست سے خارج کیا۔ اس کا سبب چیف جسٹس نے یہ بتایا کہ انھوں نے انکار کیا تھا۔ ججوں سے یہ رائے طلب کرنا یا نہ کرنا کہ کیا ان کو عدالت عظمیٰ کا جج نامزد کیا جائے، یا بغیر طلب کیے ان کی جانب سے رائے کا ظاہر کیا جانا آرٹیکل ۲۰۶(۲) کی نفی ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتِ عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس اور جج صاحبان اور عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کو زیرِ غور فہرست میں شامل نہ کرکے مزید امتیازی رویہ برتا ہے۔ ان علاقوں میں سرِدست پائے جانے والے احساس محرومی میں اس اقدام سے مزید اضافہ ہو جائے گا۔اس حوالے سے چیف جسٹس یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں نے صرف دیوانی، فوجداری یا ٹیکس کے مقدمات کی سماعت کی اور اسی میں فیصلے کیے اور پھر مزید کہتے ہیں کہ وہ قانون کے دیگر شعبوں میں مطلوبہ تجربہ نہیں رکھتے ۔ جج خود اپنے تئیں اس کا تعین نہیں کرتے کہ وہ کس نوعیت کے مقدمات سنیں گے، لہٰذا اس بنیاد پر ان کو محروم کرنا نا انصافی اور ناجائز ہے ۔ تمام تعیناتیاں آئین کے مطابق پہلے سے طے شدہ غیر امتیازی معیار کے مطابق ہونا لازمی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی پسند ناپسند کا شائبہ بھی نہ ہو۔ آئین چیف جسٹس کو جیوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان سے زیادہ کسی قسم کے اضافی اختیارات نہیں دیتا ۔ چیف جسٹس کو صرف جیوڈیشل کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے ۔

جب موجودہ چیف جسٹس سینئر ترین جج کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، تو انھیں پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تھی تاکہ وہ ججوں کی تقرری کیلئے واضح معیار طے کریں ، اگر چیف جسٹسز اور سینئر ترین ججوں کو نامزد نہ کرنا ہو۔ ان کو دیا گیا کام تاحال نامکمل ہے ۔ اس کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس 9 مارچ 2022 کو بلایا گیا تھا جس کی کارروائی پر محترم جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ تحریر کرتے ہوئے دستخط کیے: ’’معزز چیئرمین نے قیمتی آرا اور تجاویز دینے پر تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور توقع ظاہر کی کہ ٹھوس خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کے بعد آگے بڑھنے کےلیے جلد اجلاس ہوگا‘‘ ۔ بعد ازاں کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، کوئی ‘ٹھوس خیالات تحریر’ نہیں کیے گئے، نہ ہی کمیٹی نے کوئی رپورٹ جیوڈیشل کمیشن کو جمع کرائی گئی۔ اس کے باوجود چیف جسٹس فرماتے ہیں کہ کمیٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔ کمیٹی کے جن ارکان سے میری بات ہوئی ہے انہوں نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس ہوا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔بصد احترام، یہ جوڈیشل کمیشن کی تضحیک اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

آئین کی دفعہ 175اے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے بارے میں بہت واضح ہے اور اس کی سختی سے تطبیق لازمی ہے۔ آئین جوڈیشل کمیشن کو یہ استحقاق دیتا ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کیلئے ججوں کو نامزد کرے۔ چیف جسٹس یک طرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگر اپنا طریقِ کار طے کرنے کیلئے اولین جوڈیشل کمیشن کے بنائے ہوئے قواعد آئین سے متصادم ہوں، تو ان کو نظر انداز کرنا لازم ہے، نہ کہ آئین کو۔

جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ کسی خالی اسامی پر جج کا انتخاب کرے لیکن اس پر یہ پابندی نہیں کہ وہ صرف چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججوں کو ہی منتخب یا مسترد کرے۔ آئین کی دفعہ اے یہ نہیں کہتی کہ اکیلے چیف جسٹس ہی کسی جج کو نامزد کریں۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوالنامہ تشکیل دیا، اسے ارسال کیا اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات اور جمع شدہ دستاویزات اکٹھی کرکے 2347صفحات پر مشتمل پلندہ ہمارے غوروفکر کیلئے تیار کیا، لیکن اس کام کیلئے جوڈیشل کمیشن سے منظوری نہیں لی۔ جو کام کیا گیا اس پر یقیناً کئی مہینے لگے ہوں گے مگر چیف جسٹس نے ایک بار بھی اس کے بارے میں گفتگو نہیں کی، نہ ہی کبھی یہ بات ظاہر کی۔ آئین پاکستان چیف جسٹس کو اس طرح یک طرفہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مفاد عامہ اور عدلیہ سے متعلق امور کو خفیہ اور صیغۂ راز میں رکھا جائے۔

فیصلہ تحریر کرنے میں تاخیر کا چیف جسٹس نے نا اہل قرار دیے جانے کے ایک سبب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ عدالت ہائے عالیہ کے ججوں کو عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی نسبت کہیں زیادہ کام سونپا جاتا ہے ۔ اگر یہ ایک معیار ہے، اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے، تو آئیے ہم خود بھی غور کریں اور خود احتسابی کریں ۔ چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کا ایک سروے کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ: 1) چیف جسٹس اور ہر جج ایک فیصلہ تحریر کرنے میں اوسطاً کتنا وقت لیتے ہیں؟ 2) ‘مختصر حکمناموں’ کے ذریعے کتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں؟ 3) مختصر فیصلے کے بعد اس کی تفصیلی وجوہات ظاہر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اور 4) کتنے مختصر حکمناموں کی تفصیلی وجوہات کا اب بھی انتظار ہورہا ہے؟ میں کہہ سکتا ہوں کہ مختصر فیصلہ سنانا ایک نئی اختراع ہے؛ دفعہ 189عدالتِ عظمیٰ کے ’فیصلوں ‘ کا ذکر کرتی ہے، مختصر حکمنامے ایسی اختراع ہیں جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔

قرآن و حدیث کے حوالے دینے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ:

چیف جسٹس انتہائی نازک معاملے کو جلد بازی میں سخت قابل اعتراض طریقے سے نمٹانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہفتے میں 2347صفحات پر مشتمل دستاویزات کی جانچ کی جائے جبکہ مجھے یہ دستاویزات فراہم تک نہیں کی گئیں ۔ اس کی بجائے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے مجھ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن میری رسائی اس میں سے صرف چودہ صفحات پر مشتمل پہلی دستاویز تک ہی ہو سکی ہے اور میں صرف وہی پڑھ سکا ۔ باقی سب کے لیے میرا فون’’اسٹوریج فل‘‘ کا اشارہ دیتا ہے ۔ میں اس کی اطلاع دے چکا ہوں مگر ابھی تک مجھے کوئی دستاویزات کوریئر کی گئیں، نہ ہی میڈرڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو دی گئیں تاکہ وہ مجھ تک پہنچاسکے۔ اگر کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا اور معاملہ عدالت تک پہنچتا، تو عدالت اس قسم کی بے اصولی اور عجلت پر ناراض ہوتی کیونکہ اسے ناکافی اطلاع قرار دیا جاتا جس سے ’مناسب طریقے‘کے متعلق آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس مناسب طریقے اور ناکافی اطلاع کے قانون کو تاراج نہیں کر سکتے ۔

اس لیے میری گزارش ہے کہ جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ملتوی کیا جائے ۔ اس کے بجائے پہلے ہمیں اس پر اجلاس کرنا چاہیے کہ اس معاملے میں آگے کس طرح بڑھنا ہے ، اور اگر عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹسز اور ان کے بعد سینئر ترین ججوں کو نظر انداز کرنا ہے، تو پہلے یہ کرنا چاہیے کہ نامزد کردہ افراد کیلئے اہلیت کے معیار کو جیوڈیشل کمیشن کے سامنےغور کیلئے رکھا جائے کیونکہ اس وقت سینئر ترین جج وہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں جو انھیں سونپی گئی تھی۔

آپ کا مخلص

قاضی فائز عیسیٰ (سینئر ترین جج، عدالت عظمیٰ پاکستان)

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے