کیا پلاسٹک ماحول دودست پراڈکٹ بن سکتا ہے؟
آج کل پلاسٹک کا استعمال بہت زیادہ ہے. اور پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے. ایسا کوئی گھر نہیں ہے, جس میں پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاء نہ ہو. ہر بندہ روزانہ کسی نہ کسی صورت میں پلاسٹک کا استعمال کرتا ہے.
ویسے تو پلاسٹک کوئی زہریلی چیز نہیں ہے, سیوائے اس کے کہ اس کو قدرتی طور پر تحلیل ہونے میں بہت وقت لگتا ہے. پلاسٹک کے کل پراڈکٹشن کا چالیس فیصد حصہ صرف ایک بار استعمال ہوتا ہے. اور اس کے بعد یہ کچرے کا حصہ بن جاتا ہے. اس لئے اگر اس کو درست طور پر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو پھر بہت سے ماحولیاتی مسائل پیدا کر سکتے ہیں. یو این رپورٹ 2021 کے مطابق 77 ممالک نے پلاسٹک بیگ پر پابندی لگائی ہے جبکہ 32 ممالک نے اس پر ریسائکلنگ سے متعلق ٹیکس لگایا ہے. پاکستان میں شاپنگ بیگ سے متعلق پابندی 2019 سے چل رہی ہے. ان پابندیوں کا مقصد سمندری حیات کا بچاؤ ہے. کیوں کہ پلاسٹک بیگز اور پیکنگ میٹریل سمندر میں پہنچ جاتے ہیں. جو کہ آبی حیات کیلئے مسلسل خطرہ بنتا جا رہا ہے. اس لحاظ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان بھی ان ممالک کے صف میں شامل ہے جو سمندری حیات بچانا چاہتے ہیں.
زیر نظر مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ پلاسٹک کے بارے میں آگاہی حاصل کیا جائے, تاکہ یہ جان سکے کہ اس سے متعلقہ منفی اثرات کو کیسے کم یا ختم کئے جا سکتے ہیں. اور کیا ہمارے پاس اس پر پابندی لگانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے؟ یا یہ کیا کیا ہم ایسا کچھ کر سکتے ہیں کہ یہ لگائی گئی پابندی عارضی ہو جائے اور ہم پھر سے پلاسٹک کو محفوظ اور ماحول دوست طریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں.
پلاسٹک ایک قسم کا پالیمر ہے جو کہ پہلی بار 1869 میں جان ویزلی ہیاٹ نامی سائنسدان نے ایجاد کیا تھا. اس کا مقصد ہاتھی دانت کا متبادل تلاش کرنا تھا. اس کیلئے نیویارک کے ایک ادارے نے دس ہزار ڈالر کا انعام رکھا تھا. اس کے پیچھے بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہاتھیوں کے بے بڑے پیمانے پر مارنا کم کیا جائے اور اس کی آبادی بچائی جائے. جان ویزلی اپنی مقصد میں کامیاب ہوا اور ساتھ ساتھ مصنوعی پالیمر بنانے کی بنیاد بھی رکھی گئیں.
اس کے بعد اس پر تجربات اور تحقیق کا سلسلہ جاری رہا. اور 1907 میں بیکلائٹ کے نام سے لیو بیکلینڈ نامی سائنسدان نے پہلی بار پلاسٹک ایجاد کیا. بیکلائٹ دنیا کا پہلا پلاسٹک تھا جو اس سے پہلے اس دنیا میں موجود نہیں تھا. بیکلائٹ نہ صرف ایک اچھا انسولیٹر تھا؛ بلکہ یہ ایک پائیدار، گرمی مزاحم بھی تھا، بیکلائٹ کو لامتناہی امکانات فراہم کرتے ہوئے، تقریباً کسی بھی چیز کی شکل دی جا سکتی ہے یا ڈھالا جا سکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ریاست ہائے متحدہ میں پلاسٹک کی صنعت کی ایک بڑی توسیع کی ضرورت محسوس کی، کیونکہ صنعتی کامیابی کے لیے اتنی ہی اہم ثابت ہوئی جتنی فوجی کامیابی۔ قلیل قدرتی وسائل کو محفوظ رکھنے کی ضرورت نے مصنوعی متبادل کی پیداوار کو ترجیح دی گئی۔ جنگ کے دوران پیراشوٹ، رسی، باڈی آرمر، ہیلمٹ لائنرز اور بہت کچھ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کی وجہ سے، “پلاسٹک کو نئے استعمال کی طرف موڑ دیا گیا. اور پلاسٹک کی بڑے پیمانے پر استعمال سے یہ ایک اچھے پراڈکٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ریاستہائے متحدہ میں پلاسٹک کی پیداوار میں 300% اضافہ ہوا.
جنگ کے خاتمے کے بعد پلاسٹک کی پیداوار میں اضافہ جاری رہا۔ امریکی حکومت اس میں مزید سرمایہ کاری کرنے لگے۔ اس طرح پلاسٹک اور پلاسٹک کے مصنوعات بنتے رہے، پلاسٹک نے روایتی پراڈکٹس کو چیلنج کرتا رہا اور جیت رہا، کاروں میں اسٹیل، پیکیجنگ میں کاغذ اور شیشے اور فرنیچر میں لکڑی کی جگہ لے لی.
1965 تک پلاسٹک کی تقریباً تمام اقسام مارکیٹ میں آچکی تھی. اور اس کے پیداوار میں تیزی سے آضافہ ہوتا رہا. 1975 تک پلاسٹک کی پیداوار پچاس ملین ٹن سالانہ تک پہنچ گیا تھا. 2005 تک اس کا پیدوار چھ گنا اضافے کے ساتھ تین سو ملین ٹن سالانہ تک پہنچ گیا. 2005 اور 2022 کے قلیل عرصے کے دوران یہ پیداوار ڈبل ہو کر چھ سو میلئن ٹن تک پہنچ چکا ہے. یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر پلاسٹک اور اس کی پراڈکٹس کی یہی رفتار رہی تو 2050 تک اس کی پیداوار 1800 میلئن ٹن سالانہ تک پہنچ جائے گی.
اتنے بڑے پیمانے پر پلاسٹک کی تیاری سے ایک طرف بہت سے سہولیات سامنے آگئی, تو دوسری طرف کئی ماحولیاتی مسائل ہر جگہ زیر بحث آنے لگے. اس طرح پلاسٹک سے وابستہ سبز امیدیں قائم ماند پڑ گئی. پلاسٹک سے وابستہ خطرات کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد پلاسٹک سے متعلق امریکی تصورات میں تبدیلی آنی شروع ہوئی. کیونکہ پلاسٹک کو اب واضح طور پر مثبت نہیں دیکھا جاتا تھا۔
سمندروں میں پلاسٹک کا ملبہ پہلی بار 1960 کی دہائی میں دیکھا گیا تھا. وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تواتر کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا. 2021 میں جو اندازہ لگایا گیا, اس کے مطابق ہم سالانہ آٹھ میلین ٹن پلاسٹک سمندروں میں پھینکتے ہیں. جو کہ 2040 تک تین گنا ہو جائے گا. اتنے بڑے پیمانے پر پلاسٹک کی وجہ سے 89.5 فیصد سمندری حیات کو خطرے میں ڈالی ہوئی ہے. ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک میلین پرندے اور ایک لاکھ تک سمندری جانور پلاسٹک کی وجہ سے مر جاتے ہیں.
پلاسٹک بطور ایک مسئلے کے ہم روزانہ کی بنیاد پر کچرا پیدا ہونے کی صورت میں دیکھتے ہیں. جس گھر سے بھی کچرا نکلتا ہے, اس میں پلاسٹک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا ہے. جہاں پر کچرا اکھٹا کیا جاتا ہے, وہا پلاسٹک ہی پلاسٹک نظر آتا ہے. حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس کی فیصد ترکیب پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی. اگر بہت زیادہ ہو جائے تو بمشکل دس فیصد تک پہنچ جاتی ہے. اس طرح ڈمپ سائٹ ایک بد نما منظر پیش کرتا ہے. کچرے کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو اس کی دوسرے بڑی آماجگاہ ندی نالے ہیں. چونکہ قدرت میں اس کے تحلیل کرنے کیلئے کوئی پراسیس موجود نہیں اس لئے یہ وہاں پر سالہ سال پڑے رہتے ہیں. اور اس کے منفی اثرات ہم بند نالیوں کی صورت میں دیکھتے ہیں.
اس وقت پاکستان میں 3.9 میلئن ٹن سالانہ پلاسٹک پرڈیوس کرتا ہے. جس میں 70 فیصد مس مینجمنٹ کا شکار ہو کر تقریباً 2.6 میلئن ٹن ویسٹ میں چلا جاتا ہے. پاکستان میں فی کس یومیہ اوسط پلاسٹک کا استعمال صرف 0.1 کلو گرام ہے. جو کہ کئی ممالک سے کم ہے. اس کے علاوہ سمندر میں بہنے والے پلاسٹک میں پاکستان کا حصہ صرف 0.09 فیصد ہے. جبکہ پاکستان کا کوئی دریا اس لسٹ میں شامل نہیں ہے جو بڑے مقدار میں سمندر میں پلاسٹک لے جا رہا ہو اور سمندری آلودگی کا باعث ہو. لیکن پھر بھی اس کے استعمال میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے.
پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال میں کمی لانے کیلئے ماحولیاتی ٹربیونل نے جون 2021 میں بھی پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگائی تھی. جس کہ تحت 50,000 سے 50 لاکھ روپے تک بھاری جرمانہ عائد کرنے، پورے اسٹاک کو ضبط کرنے یا یومیہ 100,000 روپے جرمانہ عائد کرنے یا ملزمان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کا اختیار دیا گیا تھا. اب جولائی 2022 میں صوبائی اسمبلی سے باقاعدہ طور پر بل پاس کیا گیا. بل کے تحت خیبرپختونخوا میں ہر قسم کے پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ترمیمی بل کے تحت ہر قسم کے پلاسٹک بیگز کی درآمد، خرید، فروخت، ذخیرہ اندوزی، ترسیل اور استعمال پر پابندی ہوگی۔ بل کے مطابق مینوفیکچررز، ہول سیل ڈیلرز اور ریٹیلرز 6 ماہ کے اندر پلاسٹک بیگ کے موجودہ اسٹاک کو تلف کرنے کو یقینی بنائیں گے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق 6 ماہ کے بعد کارروائی کی جائے گی، خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک ماہ قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی.
ہو سکتا ہے کہ یہ خبر بہت سے لوگوں کیلئے پریشان کن ہو. کیوں کہ ہمیں پلاسٹک استعمال کرنے کی عادت ہو گئی ہے. اس لئے آس پاس دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے پاس کوئی متبادل حل بھی موجود ہے. دیکھا جائے تو خوش قسمتی سے اس کے کئی حل موجود ہیں جس کو با اثر بنانے کیلئے ہر فرد نے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا. جس میں پلاسٹک ریسائکلنگ سب سے مشہور ہے. اس کے علاوہ اس کو توانائی حاصل کرنے کیلئے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے. اس کی تفصیل نیچے درج ہے.
پلاسٹک ریسائکلنگ
پلاسٹک ایک ریسائکلیبل چیز ہے. اس کو آسانی کے ساتھ پیگھلا کر دوسرے اشیاء بہ آسانی بنائی جا سکتی ہیں. لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بنانے اور استعمال کرنے پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں. اس کا جواب ریسائکلنگ پر خرچے میں چھپا ہوا ہے. ریسائکلنگ تب ممکن ہے, جب ریسائکلنگ سے حاصل شدہ پراڈکس کی قیمت اس پر کئے گئے خرچے سے زیادہ ہو. چونکہ پلاسٹک کی ریسائکلنگ ممکن تو ہے لیکن خرچہ زیادہ آنے کی وجہ سے منافع بخش نہیں ہے. اس لئے اس میں کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا. اس وقت ہمارے پاس ساتھ قسم کا پلاسٹک مارکیٹ میں موجود ہے. اس میں دو قسم کے پلاسٹک آسانی سے ریسائکل ہو سکتے ہیں. جس میں پولی ایتایلین کے دو بڑے اقسام شامل ہیں. پولی وینائل کلورائڈ اور کم کثافت والی پولی ایتایلین ایسے پلاسٹک ہیں جس کو ریسائکل کیا جا سکتا ہے لیکن مشکل سے ریسائکل ہوتا. پولی پروپائلین, پولی کابونیٹ اور پولی لیسائڈ ایسے پلاسٹک ہیں جس میں ریسائکلنگ کی خاصیت تو موجود ہے, لیکن اس پر خرچہ زیادہ آنے کی وجہ سے اس کو ریسائکل نہیں کیا جاتا.
اس کا ایک حل ہے کہ پلاسٹک ریسائکلنگ کی وجہ سے جو خسارہ أتا ہے, اس کو ٹیکس کے ذریعے پورا کیا جائے. جیسا کہ بہت سے یورپی ممالک میں ہوتا ہے. امریکہ میں بھی تقریباً دس فیصد پلاسٹک ریسائکل کی جاتی ہے. ایسا کرنا غریب ممالک کیلئے ممکن تو ہے لیکن آسان نہیں ہے. کیونکہ فی کس یومیہ کم آمدنی کی وجہ سے عام آدمی یہ ٹیکس نہیں دے سکے گا. اور اگر یہی ٹیکس پلاسٹک انڈسٹری کے مالکان سے لی جائے تو پلاسٹک اور اس پراڈکٹس مزید مہنگے ہو جائیں گے. اس لئے بڑھتی ہوئی استعمال کو کم کرنے کیلئے پلاسٹک پر پابندی ناگزیر ہو جاتی ہے.
پاکستان میں چار سو سے زیادہ پلاسٹک ریسائکلنگ پلانٹس موجود ہیں. جس میں زیادہ تر لاہور اور کراچی میں ہیں. کراچی میں چونکہ سکریپ کا کام بھی کیا حاتا ہے. اس لئے چار سو سے زیادہ چھوٹے بڑے پلانٹس موجود ہیں.ای این ایف نامی کمپنی, جس کا ھیڈ کوارٹر یو کے میں ہے, کے اٹھارہ ریسائکلنگ پلانٹ پاکستان میں کم کر رہے ہیں. اس طرح مختلف مشروبات بنانے والے کمپنیوں کے بھی پلاسٹک ریسائکلنگ پلانٹس پاکستان میں کام کر رہے ہیں.
پلاسٹک ویسٹ اور ایندھن
دوسری صورت یہ بن سکتی ہے کہ پلاسٹک چونکہ بہت آسانی سے جلتی ہے. اور جلنے کے دوران بہت زیادہ ھیٹ انرجی خارج ہوتی ہے. اس لئے اس کو بطور ایندھن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. اس طرح کے ایندھن کو آر ڈی ایف(RDF) کہتے ہیں.یعنی Refused Derived Fuel جس کو اردو میں “گند سے ماخذ ایندھن” مطلب بنتا ہے. اس عام الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کے کچرے میں جو جلنے والی چیزوں کو الگ کر کے ایک خاص نسبت میں ملایا اور میکس کیا جاتا ہے. جس کو انڈسٹریز میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. پاکستان میں سالیڈ ویسٹ سے آر ڈی ایف بنانے کیلئے بہت موزوں ہے.
اب چونکہ پاکستان میں پلاسٹک سے متعلق بہت سارے کارخانے لگ گئے ہیں اور اس میں بہت سارے مزدور کام کرتے ہیں. 2021 کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6000 کے لگ بگ پلاسٹک بنانے کے چھوٹے بڑے کارخانے ہیں. جس میں چار سو کے قریب خیبر پختون خواہ میں ہیں. ان کارخانوں میں سینکڑوں کے حساب سے ملازمین کام کر رہے ہیں. مکمل پابندی سے اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا بے روزگار ہونا معاشی مسلے کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی مسلہ بھی بن سکتا ہے. اس لئے پلاسٹک پر لمبے عرصے تک پابندی لگنا ایک مشکل کام ضرور ہے. ایسے حالات میں سوچنا پڑے کا کہ ہم متبادل ذرائع کے بارے میں سوچ کر اسکا موزوں حل نکالیں.
ایک بات تو واضح ہے کہ پلاسٹک کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے. لیکن اس وقت جو پابندی لگائی گئی ہے, وہ صرف شاپنگ بیگ تک محدود ہے. یہاں دو سوالات اٹھائے جا سکتے ہین. پہلا یہ کہ کیا اس سے ماحولیاتی مسلہ حل ہو جائے گا؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل پلاسٹک کے کسی دوسرے قسم کے استعمال میں اضافہ ہو جائے, تو کیا اس پر بھی پابندی لگائی جائی گی. یقیناً جواب تو نہیں میں ہے. اس لئے مناسب تجویز یہ بنتی ہے کہ پابندی کے ساتھ ساتھ اور ذرائع کو بھی دیکھا جائے اور ایک جامع پروگرام کے تحت اس پر عبور حاصل کیا جائے.
خلاصے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے متعلقہ ادارے پاکستان میں پلاسٹک پر اعداد و شمار اکٹھے کرے.
اس کے ساتھ ساتھ ایسے کمپنیوں کی نشاندہی کرے جو اس وقت پلاسٹک ریسائکلنگ پر کر رہی ہیں. اور ایک لائحہ عمل تیار کرے جس میں اس طرح کے کمپنیوں کو سپورٹ کیا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے.
اس پر تحقیق کرے کہ کس طرح غیر ضروری پلاسٹک کا استعمال کم سے کم ہو جائے یا اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جا ئے. ساتھ ساتھ اس بات پر تحقیق کی جائے کہ کس قسم کا پلاسٹک آسانی سے ریسائکل ہو سکتا ہے, اور پھر کے پیداوار کو فروغ دیں.