پاکستان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو درپیش مسائل

پاکستان صحافیوں کیلئے خطرناک ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم یہاں موجود دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے صحافی خود کو مسلمان صحافیوں کی نسبت زیادہ غیر محفوظ اور مسائل زدہ سمجھتے ہیں۔ ان مشکلات کا تعلق میڈیا ہاوسز کے اندرونی ماحول سے لیکر فیلڈ میں کام کرنے تک موجود ہے۔ مذہبی تہواروں پر چھٹیوں یا تنخواہوں کا مسئلہ ہو یا پھر مذہبی تعصب کا معاملہ، دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو اکثرمسائل درپیش آتے ہیں۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ہندو صحافی پون کمار Pawan Kumar بتاتے ہیں انہیں رپورٹنگ کے دوران بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔

پون کمار حیدرآباد میں سما ٹی وی کے نمائندے ہیں۔

انہیں اکثر یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ کسی لفظ کی بنیاد پر ان پر توہین مذہب کا الزام نہ لگ جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں ہندووں کے دو تہواروں کو ہی جگہ ملتی ہے۔ ان کے مسائل یا چھوٹے تہواروں کو مین سٹریم میڈیا میں جگہ نہیں ملتی۔ پون بتاتے ہیں کہ انہیں اس حد تک محتاط رہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات وہ اپنا تعارف بھی نہیں کرواتے۔

اسلام آباد میں موجود مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے صحافی ٹیرنس جے سگمنی Terence J Sigamony بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے خلاف ان کے ایک آفس کولیگ کی جانب سے سخت پروپیگنڈہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اس کا نام انگریزی ہے اور یہ ملک مخالف ہے ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کا سامنا ایک ہی مرتبہ ہوا لیکن اس سے وہ دبائو کا شکار رہے۔

ٹیرنس جے سگمنی اسلام آباد میں عدالتی رپورٹر ہیں اور سپریم کورٹ کور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آفس اور فیلڈ میں اس واقعے کے علاوہ انہیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرسچن کمیونٹی سے سامنے آنے والے اکثر صحافی اچھے اداروں میں رہے ہیں جہاں انہیں مذہبی تعصب کا سامنا نہیں رہا۔ تاہم انہیں ایسٹر اور کرسمس کے دوران اپنے ادارے کو چھٹیوں کیلئے بتانا پڑتا ہے اور بعض اوقات ادارے کی جانب سے سرکاری چھٹیوں کا نوٹیفکیشن طلب کیا جاتا ہے۔ اگر نوٹیفکیشن نہ ہو تو پھر چھٹی بھی نہیں ملتی۔ اسی طرح اگر ان تہواروں پر تنخواہ قبل از وقت مانگ لی جائے تو نہیں دی جاتی۔

ان کا ماننا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے اکثر صحافی اپنی ہی کمیونٹی کی رپورٹنگ کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تعصب کا شکار ہوتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔ انہیں کسی اچھی بیٹ کی رپورٹنگ کا انتخاب کرنا چاہئیے تاکہ وہ تعصب کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔

حیدر آباد سے سندھ ایکسپریس کے ساتھ کام کرنے والے اشوک رامانی Ashok Ramani بتاتے ہیں کہ دوران رپورٹنگ انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

اشوک رامانی کا تعلق حیدرآباد سے ہے اور وہ سندھ ایکسپریس کے ساتھ منسلک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں توہین مذہب کا کوئی ایشو ہو اور اس پر رپورٹنگ کرنے کا کہا جائے تو ہم کسی کو اپنا نام تک نہیں بتاتے کیونکہ یہاں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ تو ایک مذہبی جماعت نے حیدرآباد پریس کلب پر حملہ کر دیا تھا کہ ان کو کوریج نہیں دی جاتی۔

سندھ میں ہمیں سندھی کمیونٹی بولا جاتا ہے لیکن اگر باہر کا کوئی ہو تو اس وقت ہمیں امتیازی سلوک کا احساس ہوتا ہے۔ جب کبھی انڈیا کے خلاف احتجاج ہو رہا ہو اور ہمیں اس کی کوریج کیلئے جانا ہو تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم کسی کو اپنا نام اور شناخت تک نہیں بتاتے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والی صحافی وینگس Veengas جو اقلیتی مذاہب کے ایشوز پر کام کرتی ہیں .

سندھ سے تعلق رکھنے والی صحافی وینگس Veengas جو نان مسلمز کے ایشوز پر کام کرتی ہیں .

وہ کہتی ہیں کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو اداروں میں وہ حیثیت نہیں دی جاتی جو مسلمز کو حاصل ہے۔ ان کے ساتھ امتیازی برتائو کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ان کے مذہبی تہواروں پر چھٹیوں اور تنخواہوں کے معاملے میں ان سے تعصبانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔

اشوک رامانی بتاتے ہیں کہ ہولی، دیوالی اور دیگر تہواروں کے موقع پر ہمیں واضح طور پر امتیازی سلوک کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں ہولی، دیوالی اور دیگر تہواروں پر چھٹی نہیں ملتی جیسے مسلمانوں کو عیدین یا دیگر تہواروں پر اسی دن کی یا متبادل دنوں میں چھٹی ملتی ہے۔
اس کے علاوہ رمضان اور عیدین پر مسلمانوں کو قبل از وقت تنخواہ مل جاتی ہے لیکن ہمارے تہواروں پر ہمیں پہلے تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اس کے ساتھ جب ہمارے ساتھ کام کرنے والے مسلمانوں کو رمضان میں افطاری کیلئے تنخواہ سے علاوہ رقم دی جاتی ہے اور عیدین پر بونس دیا جاتا ہے لیکن ہمیں ہمارے تہواروں پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ رمضان اور عیدین کے موقع پر جو مسلمان صحافیوں سے خصوصی سلوک کیا جاتا ہے ہمیں بھی اس سے محروم رکھا جاتا ہے اور ہمارے تہواروں پر بھی ہمیں نہیں پوچھا جاتا اور نہ ہی ادارے کی انتظامیہ کو ہمارے تہواروں کا علم نہیں ہوتا۔

اشوک کا کہنا ہے کہ یہاں ہمارے ساتھ ایک امتیازی سلوک یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی مندر میں پروگرام ہو تو سب چلے آتے ہیں اور تقدس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا لیکن اگر کسی مسجد یا مدرسے کے کسی ایونٹ کی کوریج کیلئے ہمیں جانا پڑے تو چونکہ اکثریت صحافیوں کو جانتی ہے تو ہر کوئی ہمیں گھورنا شروع کر دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں تو برابری کا لکھا ہے لیکن ہمیں دوسرے درجے کا شہری بھی نہیں سمجھا جاتا۔

چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک صحافتی ورکشاپ میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سندھی صحافی نے اپنی آب بیتی سنائی کہ پاکستان کے الیکڑانک (اردو) میڈیا اس قدر غیر سجنیدہ اور مذہبی معاملات سے لاعلم ہے کہ بعض اوقات ہمیں ہولی یا دیوالی سے چند روز قبل کہا جاتا ہے کہ ہماری ڈٰی ایس این جی آپ کے سٹیشن پر آئی ہوئی ہے تو آپ کہیں تہوار منعقد کروا کے اس کی رپورٹ بنا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے ہمیں یہ ہدایت ہوتی ہے کہ ہم دیوالی کی رپورٹ بناتے وقت آخر میں یہ الفاظ ضرور کہیں "دیوالی کی اس پوجا میں پاکستان کی خوشحالی اور سلامتی کیلئے دعائیں مانگیں گئیں”۔

پاکستان میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کیلئے کس قدر مواقع میسر ہیں اس حوالے سے نامور صحافی سبوخ سید بتاتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے

سبوخ سید نامور صحافی ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔

کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کم سپیس دی جاتی ہے، اگر کوئی ادارہ سپیس دیتا بھی ہے تو اسی طرح دیتا ہے جیسے پاکستان کی صحافت میں خواتین کو مخصوص بیٹس دی جاتی ہیں اور انہیں نمایاں بیٹس کی رپورٹنگ کا موقع کم ملتا ہے اسی طرح اگر کوئی کرسچن یا ہندو صحافی آتا ہے تو اسے اقلیتیوں کے مسائل پر رپورٹنگ کیلئے کہا جاتا ہے یعنی اسے مین اسٹریم میں نہیں لایا جاتا۔

کچھ خال خال مثالیں ملتی ہیں کہ کوئی اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والا صحافی کسی اچھی جگہ موجود ہو۔ جیسے کہ سرل المیڈا کی ڈان میں تھے ، مکھیش حیدرآباد سے جیو نیوز کے رپورٹر ہیں۔ پشاور میں ایک خاتون صحافی ہیں جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہرمیت سنگھ پبلک نیوز پر پروگرام کرتے ہیں اور پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک سکھ دوست پروگرام کرتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمیں ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ اسے قابل ذکر تعداد کہا جا سکے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی کرسچن کمیونٹی میں کافی زیادہ میڈیا ورکرز ہیں گو کہ زیادہ لوگ ریگولر میڈیا کا حصہ نہیں ہیں اور وہ یوٹیوب چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہے ہیں اور ریگولر کام کرنے والے زیادہ کیمرہ مین اور لائٹ مین ہیں جنہوں نے اب اپنی ایسوسی ایشن بھی بنا لی ہے۔

سبوخ سید کا کہنا ہے کہ جب میں یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں جاتا ہے وہاں پر ہندو اور عیسائی بچے بھی ملتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں مین سٹریم میں ایڈجسٹ نہیں کیا جائے گا اس لئے یہ اہم سوال ہے کہ ان لوگوں کو مین سٹریم میں جگہ کیوں نہیں دی جاتی اگر یہ پاکستان کے آئین کے مطابق برابر کے شہری ہیں تو۔۔۔؟

ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر یہ کہا ہوا ہے کہ غیر مسلم اقلیتیوں کا تمام شعبوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا جائے گا اور اکثر میڈیا اس پر بات بھی کرتا ہے یہ کوٹا پورا نہیں ہو رہا لیکن حقیقت یہ کہ میڈیا کے اندر بھی یہ کوٹا پورا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔
سبوخ سید کا کہنا ہے کہ تمام چینلز کے اینکرز میں اقلیتی مذاہب کا کوٹا مکمل ہونا چاہئیے اسی طرح جو دوسرے شعبے ہیں جن میں رپورٹنگ اور ڈیسک وغیرہ شامل ہیں تو ان میں بھی یہ کوٹا پورا کیا جانا چاہئیے۔
سبوخ سید کے مطابق اس سب کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیوں کے جو مسائل ہیں انہیں دیکھا ہی نہیں جاتا۔ اگر کوئی اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والا رپورٹر آ جائے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایسے میں جب مذہبی اقلیتوں کے لوگ خود کو کمزور سمجھتے ہیں تو ایسے رویوں سے ان میں مزید کمزور ہونے کا احساس ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے