ہلاکو، چنگیز اور ہٹلر کے بعد

کل شب خدا کے حضور

طویل اور کٹھن سفر نے تھکا دیا تھا۔ جسم درد سے چور تھا۔ دوران سفر مجھے نیند نہیں آتی خواہ راستہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اس لیے منزل پر پہنچتے ہی آرام کی خواہش تیز تر ہو گئی تھی۔ جی چاہتا تھا لمبی تان کر سو جاؤں مگر بستر پر لیٹنے کے بعد نیند تو جیسے روٹھ ہی گئی۔ بہتیرے کوشش کی مگر نیند تھی کہ کسی جنگلی ہرن کی صورت بھاگتی رہی اور پلکوں کی قید میں نہ آئی۔ اس بیچ گھڑی کی ٹک ٹک، سوچ کے بے لگام گھوڑے اور میری بے قرار دھڑکنیں چلتی رہیں۔ کتنی ساعتیں گزریں اور کتنی بار کروٹ بدلی کچھ یاد نہیں، اچانک ہی میں نے خود کو ایک چٹیل میدان میں کھڑا پایا۔ یا خدا۔! میں کہاں آ گیا۔؟

اس سوال کا جواب پانے کو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھ وہاں انسانوں کا بے مثل و مثال ہجوم بھی ہے۔ اجنبی چہرے۔ بے نام و نشان اور حیران و سرگرداں چہرے۔ عجیب سی بے چینی تھی۔ میں بے اختیار ہو کر ہر ایک کے قریب جاتا، غور سے دیکھتا کہ شاید کوئی شناسا چہرہ نظر آ جائے مگر بے سود۔ اس تگ و دو میں کافی دور نکل آیا تھا۔ وہاں حد بندی تو تھی نہیں نہ ہی کوئی سائن بورڈ تھا کہ معلوم پڑتا کس سمت میں کتنا سفر کر چکا۔ میری بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ کچھ سجھائی نہیں دےرہا تھا کہ کیا کروں اورکدھر کو جاؤں اسی پس و پیش میں میری نظر ایک ایسے گروہ پر پڑی جو نسبتا ترتیب سے کھڑا تھا۔ جیسے تربیت یافتہ سپاہیوں کی پلٹن ہوتی ہے۔ ان کے پاس بھی کوئی بینر نہیں تھا جسے پڑھ کر جان پاتا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ دور سے دیکھنےپر یوں لگا جیسے کسی اہم موضوع پرمشاورت ہو رہی ہے۔ مگر قریب جانے پر معلوم ہوا کہ وہ مشاورت کم اور جھگڑا زیادہ تھا، ہاں مگر جھگڑ ایسے رہے تھے جیسے وہ مجرم جو عدالت میں پیشی کے موقع پر کھسر پھسر کے انداز میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈر، خوف اور وحشت ان کے چہروں سےعیاں تھی۔ پہلا جملہ ان کی گفتگو سے جو میری سماعتوں سے ٹکرایا وہ اگرچہ کسی غیر مانوس زبان میں تھا لیکن فورا سے میری سمجھ میں آ گیا، وہ زبان اور اس کے الفاظ نہ جاننے کے باوجود ایسا کیوں ہوا یہ سوچنے کا موقع نہیں تھا سو میں اپنے حواس مجتمع کر کے پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"چنگیز خان کو آگے کرو، انسانیت کا سب سے بڑا قاتل یہی ہے” ایک انجان شخص قدرے اونچی آواز میں بولا

"مجھ سے زیادہ انسان تو ایڈولف ہٹلر نے قتل کیے ہیں” ایک کرخت آواز آئی۔ شاید وہ چنگیز خان ہی تھا۔ میں نے اسے دیکھا نہیں اس لئے پہچان نہ سکا۔

ایک جانب سے منحنی سی آواز آئی "تو قابیل کا کیا کہ جس نے انسانیت کے ناحق قتل کی بنیاد رکھی”

"لیکن وہ بھی تو ہیں جنہوں نے ابن مریم کو سولی چڑھایا، اللہ کے نبیوں کو قتل کیا، خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا” اس بار بولنے والا بولتا چلا گیا اور سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

اس بیچ میری توجہ اگرچہ انہی کی جانب تھی مگر غیر شعوری انداز میں ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ یہ کیسا میدان ہے اور کس کی عدالت میں پیشی ہے۔ اچانک ہی میرے دماغ میں روشنی کا ایک جھماکہ ہوا اور پھر تصویر واضح ہوتی چلی گئی۔

اوہ میرے خدا۔! یہ تو حشر کا میدان اور قیامت کا منظر ہے۔ ہائے افسوس صور کب پھونکا گیا اور زندگی کی مہلت کیسے ختم ہوئی۔ اگلے ہی لمحے میں اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہو گیا تھا۔ اللہ کے حضور پیشی کا احساس ہوتے ہی میرے اوسان خطا ہو گئے۔ جبھی سمجھ میں آیا کہ نفسا نفسی کا عالم کیوں ہے اور کیوں وہاں موجود لوگ مجھ سے بے نیاز اپنی اپنی فکر میں سرگرداں ہیں۔ پیروں تلے سے زمین کھسکنا کیا ہوتا ہے اس وقت سمجھ میں آیا۔ دل بیٹھنے لگا تھا۔ احساس ندامت اور خوف کا عالم فزوں تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ زمین ہلنے لگی تھی اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میری غفلتوں کے عوض زندہ زمین میں دھنسایا جا رہا ہوں۔ پھر اس سے پہلے کہ حواس میرا ساتھ چھوڑتے ایک مانوس آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔

"اللہ اکبر۔۔۔ استغفراللہ”

اور میری آنکھ کھل گئی، دیکھا تو سب لوگ اللہ اللہ کا ورد کر رہے ہیں۔ شاید زلزلہ ہو رہا تھا۔ جی ہاں وہ زلزلہ ہی تھا۔ جو چند لمحوں بعد ختم ہو گیا۔ باقی لوگ جلد ہی دوبارہ سو گئے لیکن میں اس زلزلے کا کیا کرتا جو میرے من میں برپا تھا۔ ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ بستر پر لیٹا، اللہ کا شکر ادا کیا کہ ابھی قیامت کا وقوع نہیں ہوا اور سدھرنے کی مہلت باقی ہے۔

ذرا سکون ہوا تو سوچنے لگا کہ وہ لوگ جو قابیل، نمرود، چنگیز خان اور ہٹلر وغیرہ کو انسانیت کا سب سے بڑا مجرم جتا رہے تھے سادہ لوح اور کم فہم ہیں۔ انہیں کہاں معلوم کہ ان کے بعد وہ اصحاب دستار و جبہ بھی آئے ہیں جو مذہب کے نام پر نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بناتے ہیں۔

وہ اصحاب علم و فن بھی آئے ہیں جو ملکی و قومی مفاد کی خاطر قوم کے بچوں کو قتل و غارت گری سکھاتے ہیں۔ وہ خوش شکل و خوش لباس بھی آئے ہیں جو انسانی حقوق کا نام لے کر خود انسانوں پر کبھی ایٹم بم اور کبھی ڈیزی کٹر بم بارش کی طرح برسا دیتے ہیں۔

وہ اہل سیاست و سیادت بھی آئے ہیں جو زمین، مٹی اور وردی کے نام "مجاہدین” پیدا کرتے ہیں انہیں انسانی خون کا پیاسا بناتے ہیں پالتو جانوروں کی طرح انہیں مرضی کے علاقے فتح کرنے کا مشن سونپتے ہیں اور کام نکلنے کے بعد انہیں "دہشت گرد اور شدت پسند” ڈیکلیئر کر کے ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیتے ہیں۔ کاش انسانوں کا قاتل تلاشنے والے ان سادہ لوحوں کا تعارف دور حاضر کے چنگیزوں اور نمرودوں سے ہو جائے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس تعارف کے بعد ان کے لئے انسانیت کے قاتل کی پہچان چنداں مشکل نہ ہو گی۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے