پراسرار سفارتکاری

پیرس میں مختصر میٹنگ اتفاقی تھی اور نہ لاہور آمد حادثاتی تھی۔ مودی صاحب کسی حد تک موڈی ضرور ہیں لیکن پاکستان سے متعلق ان کا موڈ اچانک تبدیل نہیں ہوا۔ ان کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت پاکستان مخالف ہندو انتہا پسندوں کے بھی نمائندے ہیں اور بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کے بھی۔ اسی طرح اپنے عالمی امیج کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو عالمی قوت بنانا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ گزشتہ ایک سال انہوں نے انتہا پسند ہندوئوں کا نمائندہ بننے کی کوشش کی تو کارپوریٹ سیکٹر کی چیخیں نکلنے لگیں۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان مخالف اور مسلمان مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہا تو عالمی طاقت بننے کی طرف پیش رفت کی بجائے الٹا بھارت کا عالمی امیج تباہ ہونے لگا۔ اصلاً احساس دلایا بہار کے انتخابی نتائج نے۔ بی جے پی نے یہ انتخاب خالص مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی کے نعروں کے ساتھ لڑا لیکن اسے بری طرح شکست ہوئی۔

مودی کے موڈ کی تبدیلی میں اس اندرونی عامل نے بھی کردار ادا کیا لیکن اس عامل کا حصہ پچاس فی صد سے کم ہے۔ اصل کردار امریکی دبائو کا تھا۔ افغانستان سے متعلق امریکا کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ امریکیوں اور خود افغان حکومت کا خیال ہے کہ افغانستان بلکہ خطے کو تباہی اور امریکا کو رسوائی سے بچانے میں ساری دنیا کا کردار شاید اتنا اہم نہیں جتنا کہ صرف پاکستان کا اہم ہے۔ اسی طرح پاکستان اپنے رویے سے امریکہ پر واضح کرچکا کہ وہ کسی بھی معاملے پر پیچھے ہٹ سکتا ہے لیکن افغانستان میں ہندوستان کے اثر ورسوخ اور مشرقی بارڈر پر اس کے مقابلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اپنے کردار اور زبانی اصرار کے ذریعے پاکستان یہ بھی امریکیوں پر واضح کر چکا کہ افغان طالبان اور لشکر طیبہ وغیرہ ایشوز پر وہ تب تک امریکہ کے حسب منشا ڈیلیور نہیں کر سکتا، جب تک کہ ہندوستان مشرقی بارڈر اور مغربی سرحد پر دبائو کم نہیں کرتا۔

بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے عمل سے تویہ پیغام دے دیا کہ وہ اپنی سماجی اور اقتصادی ساخت کی تباہی تک کی قیمت چکا سکتا ہے لیکن ہندوستان کے آگے جھک نہیں سکتا۔ چنانچہ پہلے امریکہ نے ڈاکٹر اشرف غنی کے ذریعے پاکستان کے خدشات کو رفع کرنے کی کوشش کی لیکن گزشتہ ایک سال کے واقعات سے امریکی اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کام افغان حکومت یا تو کر نہیں سکتی اور یا پھر وہ کرنا نہیں چاہتی۔ اسی لئے امریکہ نے براہ راست ہندوستان پر دبائو ڈالنا شروع کیا۔ دوسری طرف بھارت کے کولڈ اسٹارٹ (Cold Start) جنگی حکمت عملی کے جواب میں پاکستان کے ٹیکٹکل ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری بھی امریکہ اور عالمی قوتوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی۔ پہلے تو امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ وہ انہیں ختم کر دے لیکن کسی بھی قسم کی لچک دکھانے کی بجائے پاکستان نے واضح کیا کہ جب تک ہندوستان کشیدگی برقرار رکھتا ہے اور کولڈ اسٹارٹ جنگی حکمت عملی کو ترک نہیں کرتا، پاکستان اس موضوع پر کوئی بات ہی نہیں کرے گا۔ اس تناظر میں امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ ہندوستان پر بھی دبائو ڈالے۔ چنانچہ امریکہ نے ایک طرف مودی پر دبائو ڈالا کہ وہ فی الفور پاکستان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے اور دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور فوج کو بھی آمادہ کیا۔ درمیان میں جندال جیسے کاروباری لوگوں کی خفیہ سفارت کاری بھی تھی۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے تو صرف آمادگی ظاہر کی لیکن میاں نواز شریف تو ایسے لمحے کے لئے پچھلے ڈھائی سال سے بے چین تھے اور جندال جیسے لوگوں کے ذریعے پہلے سے اس لمحے کو قریب لانے کے لئے بے تاب تھے۔ اوفا میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات بھی اتفاقی نہیں تھی بلکہ امریکہ کے اس ہوم ورک کا نتیجہ تھی اور اس لئے حادثاتی میٹنگ کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا لیکن چونکہ واپس آ کر وزیر اعظم کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف نریندر مودی نے بہار کا انتخاب بھی پاکستان مخالف نعروں کے ساتھ لڑنا تھا، اس لئے اوفا اعلامیہ کے تحت نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز کی میٹنگ نہ ہوسکی۔ اس دوران وزیر اعظم پاکستان کے اندر کا بادشاہ زندہ ہو گیا اور قوم یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر ادارہ جاتی پیش رفت کی بجائے انہوں نے روایتی پراسرار سفارتکاری شروع کردی۔ ہمارے محترم میاں صاحب چونکہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں اور اپنے آپ، اہل خاندان یا چند ذاتی چمچوں کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ وہ ماضی سے نہیں نکلتے اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کے سوا کوئی دوسرا پاکستانی، ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں چاہتا۔

ان کا وہم ہے کہ اگر وہ معاملات سامنے لے آئیں تو اسی دن دیگر ادارے یا انتہا پسند حلقے کوئی سازش کر جائیں گے۔ اس لئے انہوں نے مودی صاحب کے ساتھ خفیہ اور پراسرار سفارت کاری کا ایک پورا روڈ میپ تیار کیا۔ دوسری طرف مودی صاحب کی ایک اور مجبوری ہے۔ وہ اپنے میڈیا اور سول سوسائٹی کے پاکستان مخالف جذبات کو انتہا پر لے جا چکے ہیں۔ اب جب وہ پاکستان کے قریب آ رہے ہیں تو ان کو اپنے انتہا پسند حلقے کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان مخالف بھارتی دفتر خارجہ کی مزاحمت اس کے علاوہ ہے۔ چنانچہ وہ بھی میاں صاحب کے ساتھ خفیہ اور پراسرار ڈپلومیسی پر آمادہ ہو گئے۔ اپنی خفت چھپانے اور مذکورہ حلقوں کو ساتھ چلانے کی خاطر مودی صاحب بھی ڈرامے بازی کر رہے ہیں حالانکہ وہ پیرس میں بھی میاں نواز شریف کے قریب پہلے سے لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق آئے تھے اور ان کا دورہ لاہور بھی پہلے سے شیڈول تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس پاکستان میں مودی صاحب اپنی کرکٹ ٹیم کو بھجوانے کا رسک نہیں لے رہے ہیں، اس پاکستان میں وہ پہلے سے سیکورٹی کے مناسب انتظامات کے بغیر اتر آئے۔

سب جانتے ہیں کہ کس طرح اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے نے 25 تاریخ کو پہلے سے طے شدہ ظہرانہ ایک روز پہلے ملتوی کر دیا۔ اسی طرح پہلے وزیراعظم میاں نوازشریف کا اسلام آباد میں سیرت کانفرنس سے خطاب شیڈول تھا لیکن دو روز قبل وہ پروگرام تبدیل کر دیا گیا اور وزیراعظم کی ساری مصروفیات لاہور منتقل کردی گئیں۔ سیکرٹری خارجہ کو تفصیل نہیں بتائی گئی تھی لیکن انہیں پہلے سے کہا گیا تھا کہ ان دو دنوں میں لاہور میں رہیں۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کو بھی تفصیل بتائے بغیر اسٹینڈ بائی پوزیشن میں رکھا گیا تھا۔ سرتاج عزیز صاحب کو اس میں شریک کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا لیکن فاطمی صاحب کو اس لئے نہیں بلایا گیا کہ پھر شک بڑھ جائے گا کہ میٹنگ پہلے سے طے تھی۔ اسی طرح اس پراسرار سفارتکاری میں بنیادی کردار ادا کرنے والی بھارتی کاروباری شخصیت پہلے سے لاہور تشریف لا چکی تھی۔

ائیر پورٹ سے رائے ونڈ تک، پھر رائے ونڈ سے ائیر پورٹ واپسی تک اور پھر رائے ونڈ میں گھنٹے سے زائد قیام کے دوران یقیناً دونوں رہنمائوں نے کئی اہم اور خاص باتیں کی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ اس بات چیت کا ریکارڈ کس کے پاس ہو گا اور نوٹس کس نے لئے؟ ۔سوال یہ ہے کہ اس پراسراریت کو کیسے اور کون ختم کرے گا اور جس وزیر اعظم کو اپنے اداروں اور پارلیمنٹ پر اتنا اعتماد نہیں، ان کے زبانی دعوے پر قوم کیسے یقین کرلے گی؟ نہ جانے چاپلوس مشیروں میں سے کوئی وزیراعظم صاحب کے سامنے اس لب کشائی کی جرات کیوں نہیں کرتا کہ نریندر مودی صاحب اور ان کا ملک، پاکستان کے معاملے پر اس طرح کے یو ٹرن اور پراسرار ڈپلومیسی تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن پاکستان میں سول ملٹری تعلقات اور بھارت کے ساتھ معاملات سے متعلق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حساسیت کے تناظر میں کیا ہماری جمہوریت اس پراسراریت کو برداشت کرلے گی۔

سوال یہ ہے کہ یہ مملکت خداداد پاکستان ہے یا پھر اتفاق لمیٹڈ کمپنی۔ یمن کے معاملے پر برادر ملک نے اپنے جنگی اتحاد میں پاکستان کا پرچم لہرا دیا اور کسی کو علم نہیں تھا۔ اب پھر برادر ملک نے 34 رکنی اتحاد میں پاکستان کو شامل کرا دیا اور کوئی اور تو کیا مشیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ بھی بے خبر تھے۔ خطے کے مستقبل کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھنے والے چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے منصوبے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم، ان کے بھائی، اسحاق ڈار اور احسن اقبال کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کن شرائط پر ہو رہا ہے۔ اب ہندوستان کے ساتھ معاملات بھی اس انداز میں نمٹائے جا رہے ہیں کہ خاندان کے افراد کے سوا، مشیر خارجہ تک کو بھی علم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے؟۔ اگر تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو پھر ہم نے تو سنا ہے کہ اس کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کے سب سے بڑے حریف ملک کے سربراہ اسلام آباد کی جگہ رائے ونڈ کیوں آتے ہیں؟

ہم نے تو سنا ہے کہ یہاں ایک پارلیمنٹ بھی ہے، ایک کابینہ بھی ہے اور ایک کابینہ کی کمیٹی برائے نیشنل سیکورٹی بھی ہے۔ اگر تو یہاں خاندانی بادشاہت نہیں بلکہ جمہوریت ہے تو پھر ہندوستان کے ساتھ معاملات پارلیمنٹ، کابینہ یا پھر نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں طے ہونے کی بجائے خفیہ اجلاسوں میں خاندان کے افراد کے ساتھ کیوں طے ہو رہے ہیں۔ پہلے کاروباری طرز سیاست، پھر بادشاہانہ طرز حکومت اور اب پراسرار طرز سفارت۔ سوال یہ ہے کہ رائے ونڈانہ شرافت کی آڑ میں یہ شریفانہ شرارت کب تک چلے گی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے