میڈیا ہاوسز میں خواتین واش رومز نہ ہونا ایک توجہ طلب مسئلہ

صحافی روزانہ بہت سے موضوعات پر آواز اٹھاتے ہیں اور ایسے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا حل ضروری ہو۔

لیکن ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کا شکار صحافی بھی رہتے ہیں اور ان کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ بطور خاتون کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جن کی نشاندہی کرنا ناگزیر ہے۔

ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن کے دفاتر اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے جاتے ہیں ۔ دفاتر میں ہم گھر سے زیادہ وقت گزارتے ہیں لیکن اگر دفاتر میں ہمارے لئے مسائل ہوں تو ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے۔

اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے شرط ہے کہ کام کی جگہ آپ کے لئے موزوں ہو۔ ہماری بہت سی خواتین اخبارات کے دفاتر میں اور ٹی وی چینلز میں کام کرتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوسروں کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی یہ خواتین اپنے دفاتر میں مسائل کا شکار رہتی ہیں ۔

دفاتر میں خواتین کے لئے الگ بیت الخلا کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ٹی وی چینلز میں یہ مسئلہ قدرے حل کر لیا گیا ہے لیکن اخبارات میں کام کرنے والی خواتین کو ابھی بھی اس اہم ترین مسئلہ کا سامنا ہے۔ ہم نے ایسی خواتین صحافیوں سے بات کی جو اخبارات کے دفاتر میں 10 سے 12 گھنٹے تک کام کرتی ہیں لیکن بیت الخلا کی الگ سہولت نہ ہونے سے انکو کیا مسائل ہوتے ہیں انہیں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

اسلام آباد کے مختلف میڈیا ہاوسز میں کام کا تجربہ رکھنے والی خاتون صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس بھی ادارے میں کام کیا کہیں پر بھی خواتین کے لئے الگ بیت الخلا موجود نہیں تھا۔ خواتین کو مردوں والے بیت الخلا کو ہی استعمال کرنا ہوتا تھا اور اکثر اوقات تو بہت دیر تک بیت الخلا کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔

صرف یہی نہیں بلکہ خواتین کے ماہواری کے ایام میں جو ہزیمت اٹھانا پڑتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سینٹری پیڈز کو پھینکنے کے لئے بیت الخلا میں کوئی کوڑا دان تک موجود نہیں ہوتا اور نہ ہی ہاتھ دھونے کے لئے صابن دستیاب ہوتا ہے ہمیں ہاتھ دھونے کے لئے صابن ہا ہینڈ واش گھر سے لانا پڑتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پانی زیادہ پینے کی وجہ سے بار بار رفع حاجت کے لئے درجنوں سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا پڑتا رہا ہے۔

ایک اور خاتون صحافی نے اپنی شناخت چھپانے کے وعدے پر بتایا کہ بیت الخلا کے قیام کی جدوجہد کے بعد جب ہمارے ادارے میں خواتین کے لئے الگ بیت الخلا کا مسئلہ حل ہوا تو شام کے اوقات میں وہاں صنف مخالف کا قبضہ ہوتا اور مرد کولیگ نا صرف استعمال کرتے بلکہ سگریٹ سے اسکی دیواروں پر غیر اخلاقی نقش ونگار بھی بنا آتے۔

انکا کہنا تھا کہ ان سب باتوں پر ایک سینئیر افسر نے اپنا باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت دی اور ایسے میں جو خاتون وہ بیت الخلا استعمال کرتی اسکا افسر کے ساتھ اسکینڈل بنا دیا جاتا کہ ہر وقت افسر کے کمرے سے برآمد ہوتی ہے۔ یہ صحافی خاتون مختلف اشاعتی اداروں کےساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

ایک اور خاتون صحافی بتاتی ہیں کہ الگ بیت الخلا کے نہ ہونے سے بہت مسائل ہوتے ہیں۔ جیسے کے بار بار بیت الخلا کا دروازے پر دستک دینا زور زور سے بجایا جانا ہے اور دوران ماہواری خواتین کو بیت الخلا کے استعمال کے لئے انتظار کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی خاتون سیاست دان یا کسی اور خاتون کو اخبار کے دفتر انٹرویو کے لئے بلا لیا جائے تو انکو بھی مجبورا مردانہ بیت الخلاء میں جانا پڑتا ہے یا پھر مہمان خاتون کے لئے اعلی افسران کے کمرے کا بیت الخلا استعمال کرنے کی اجازت مانگی جاتی ہے جو کہ نہایت شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔

ان صحافی خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے اخبارات میں پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن انکو بیت الخلا کا استعمال نہیں آتا اور مردوں کے زیر استعمال بیت الخلا اکثر انتہائی گندے ہوتے ہیں۔

اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اخبارات کے زیادہ تر دفاتر میں خواتین کے الگ بیت الخلا کا تصور ہی موجود نہیں ہے جو آگاہی کا مسئلہ ہے اور جب ایک ہی بیت الخلا مرد و خواتین استعمال کر رہے ہوں تو بیت الخلا کے باہر انتظار کرتی خاتون کو ہر آتا جاتا گھور کر جاتا ہے جو کہ شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر نا صرف بات ہونی چاہئیے بلکہ ریاست کیس سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے کوششیں بھی ہونی چاہئیے۔

ایک بیت الخلاء کی سہولت نہ ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چھوٹے چینلز اور اخبارات کے مالکان کی بھی ذمہ داری ہے کہ انکے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو یہ بنیادی سہولت فراہم کی جائے۔ سینئر صحافی فریدہ حفیظ کہتی ہیں کہ یہ مسائل انکھیں بند کر لینے اور ٹال دینے سے حل نہیں ہو سکتے۔

صحافت میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے اور جہاں دیگر مسائل ہیں وہیں بیت الخلا بھی ایک اہم ہے جسکا حل ضروری ہے۔ اس بارے ریاست اور میڈیا مالکان کو سوچنا چاہئیے تاکہ خواتین کو یہ بنیادی سہولت میسر ہو سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے