غیرقانونی مہاجرت، گھر والوں پہ روز قیامت گزرتی ہے

[pullquote]غیرقانونی مہاجرت موت کا دوسرا نام ہے۔[/pullquote]

چہرے پر جھریاں، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، بے یقینی جیسی حالت میں بیٹھی پچاس سالہ فضیلت فرضی نام آج کئی سال گزرنے کے باوجود بھی اس انتظار میں بیٹھی ہیں کہ انکے بچوں کا والد انکی بڑھاپے کا سہارا کسی بھی وقت دروازہ کھٹکھٹائے گا اور انکے گھر میں دوبارہ خوشی دستک دے گی لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ 14 سال گزر گئے لیکن فضیلت کے شوہر کا کوئی سراغ نہ مل سکا کہ وہ آسٹریلیا پہنچ چکا ہے یا نہیں کہیں سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا ہے۔

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی فضیلت جو اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی لگتی ہے کا کہنا ہے کہ انکا شوہر 14 سال قبل اس امید پہ گھر سے آسٹریلیا کے غیرقانونی سفرپر نکلا تھا کہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے گا لیکن انکو معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد وہ اپنے بچوں سے کبھی مل نہ پائیں گے۔ بہتر زندگی کی تلاش میں وہ غیر قانونی طور پر آسٹریلیا کے سفر پر نکلے تھے تین چار دن ان سے بات ہوئی تھی پہلے وہ ملائشیا گئے اس کے بعد آسٹریلیا کے لیے کشتی کیں بیٹھ گئے اور تب سے لے کر اب تک نہ انکی آواز سنی نہ انکو دیکھا، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا اس دنیا میں نہیں رہے، بہت مشکل سے زندگی کے یہ سال گزارے ہیں اور جب تک انکے زندہ یا مردہ ہونے کا پتہ نہیں لگتا ہم یونہی تکلیف دہ زندگی گزارتے رہیں گے۔

[pullquote]شوہر کی جدائی نے گھر کا سکون چھین لیا ہے[/pullquote]

فضیلت کے گھر میں ضرورت کا سامان تو موجود ہے، انکے اپنے بھائی اور دیور ان کے گھر کی بنیادی ضروریات تو پوری کررہے ہیں لیکن شوہر کی جدائی نے انکے گھر سے سکون چھین لیا ہے۔ انکے بچے آج بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انکے والد آجائیں گے لیکن فضیلت کی امیدیں اب دم توڑ رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان سالوں میں انہوں نے کئی نشیب فراز دیکھے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ جیسی زندگی میں نے اور میرے بچوں نے گزاری ہے ویسی کوئی نہ گزارے اور اپنے ملک میں جو بھی چھوٹا موٹا کام ہو وہ کرے لیکن غیرقانونی طورپر باہر ممالک نہ جائے کیونکہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور یہ موت کا دوسرا نام ہے۔

یہ کہانی صرف فضیلت اور اسکے بچوں کی نہیں ہے بلکہ خیبرپختونخوا سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں ہزاروں ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں کئی بچے اور خواتین اپنے پیاروں کی راہ تھک رہے ہیں تو سینکڑوں لوگ غیرقانونی مائیگریشن کی وجہ سے گھر کے واحد سہاروں اور کفیلوں کو ہمیشہ کے لیے کھوچکے ہیں۔

[pullquote]کچھ ایسی ہی کہانی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے اجیراللہ کی بھی ہے. [/pullquote]

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے اجیر اللہ شنواری بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جو غیرقانونی طور پر اٹلی جانا چاہ رہے تھے لیکن دریا کی بے رحم موجوں نے اجیر اللہ کو ابدی نیند سلادیا اور وہ جوں اپنے گھر ذہنی بیمار والد کا واحد سہارا تھا ہمیشہ کے لیے انکو چھوڑ کرچلا گیا۔ لنڈی کوتل فاطمی خیل سے تعلق رکھنے والے اجیر اللہ شنواری کے چچا تجل شنواری نے بتایا کہ اجیر اللہ کے گھر والے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اجیر اللہ نے رواں برس اکتوبر میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اٹلی جانے کا فیصلہ کیا تھا، چارسال قبل وہ ترکی گیا تھا لیکن گھر کی حالات کی وجہ سے اس نے اٹلی جانے کا سوچا جس کے لیے اس کے گھر والوں نے دس لاکھ روپے کا قرضہ بھی لیا لیکن شاید قسمت کو یہ منظور نہ تھا کیونکہ وہ راستے میں ہی دریا میں ڈوب گیا۔ اس نے اٹلی جانے کے لیے سفر شروع کیا تو سربیا ملک پہنچا اور اس کے بعد بوسنیا تک گیا اور کروشیا میں دریا عبور کررہا تھا کہ انکی کشتی میں مسئلہ پیدا ہوا اور یہ دریا میں ڈوب گیا۔

تجل شنواری کا کہنا ہے کہ جب تین چار دن تک اجیر اللہ سے گھر والوں کی بات نہ ہوئی تو انکو تشویش ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے اس کے دوستوں اور ایجنٹ سے معلوم کیا تو انہوں نے انکو بتایا کہ وہ دریا میں ڈوب گیا ہے، جس کے بعد اس کے گھر والوں پہ قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ اجیر تو ابکا واحد سہارا تھا، انکے مطابق اجیر اللہ کی چار بہنیں ہیں جن میں سے تین شادی شدہ اور ایک 8 سال کی ہے جبکہ اس کا ایک بھائی 11 سال کا ہے اور گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔

[pullquote]لاش لانے میں سینیٹر الحاج تاج محمد آفریدی نے مدد کی[/pullquote]

تجل شنواری کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد انہوں نے علاقے سے منتخب سینیٹر الحاج تاج محمد آفریدی سے رابطہ کیا کہ لاش لانے میں انکی مدد کریں کیونکہ یہ غریب لوگ ہیں جس کے بعد الحاج تاج محمد نے ان کی بہت مدد کی اور اجیر اللہ شنواری کی لاش گھر تک پہنچائی جس پر وہ انکے بے حد مشکور بھی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق لنڈی کوتل میں گزشتہ کئی عرصے سے انسانی سمگلرز سرگرم سادہ لوح نوجوانوں کو ورغلا کر ترکی اور ملائشیا میں موت کے منہ میں دھکیل رہے ہی۔

لنڈی کوتل سے ہر سال درجنوں نوجوان غیر قانونی راستوں سے ترقی یافتہ ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ یہ راستے نہ صرف دشوار گزار ہیں بلکہ ان راستوں پہ جگہ جگہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر نوجوان نہ صرف دھوکہ کھا جاتے ہیں بلکہ کئی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایجنٹ انکو کوئٹہ سے ایران اور پھر ترکی پہنچاتے ہیں اور پھر سمندر میں یورپ کی طرف جاتے ہوئے کئی نوجوان اجیر اللہ شنواری کی طرح ڈوب جاتے ہیں اور اپنے پیچھے گھر والوں کو روتا بلکتا چھوڑ دیتے ہیں۔

[pullquote]خیبر پختونخواہ میں انسانی سمگلنک کی صورتحال[/pullquote]

رواں سال خیبر پختونخوا سے انسداد انسانی سمگلنگ کی چار سو ایف آرز درج ہوئیں ،وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا سے انسداد انسانی سمگلنگ کی چار سو ایف آرز درج ہوئیں جن میں 369 افراد گرفتار ہوئے جبکہ 355 کو عدالتوں کی طرف سے سزائیں ملیں۔ ادارے کو 378 شکایات موصول ہوئیں، 328 میں انکوائری ہوئی جبکہ ادارے کو 200 شکایات سیٹزن پورٹل کے ذریعے موصول ہوئیں جن میں اندرون ملک سمیت بیرون ممالک میں موجود پاکستانی شہریوں نے اپنی شکایت ادارے تک پہنچائیں۔

بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق رواں برس اکتوبر کے مہینے تک پاکستان سے کل 11714598 افراد نے باہر کے ممالک کا سفر کیا جن میں سے 34532 کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے جبکہ 6737 افراد خیبرپختونخوا سے بیرون ممالک گئے تاہم اس ڈیٹا میں وہ افراد شامل نہیں ہے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ اور باقی ممالک گئے۔

بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق سال 1981 سے لے کررواں برس نومبر کے مہینے تک ایک لاکھ چھتیس ہزار افراد نے بیرون ممالک کا سفر کیا جبکہ اسی عرصے میں ضلع خیبر سے 92151 افراد بیرون ممالک گئے۔

[pullquote]کیا غربت لوگوں کو مہاجرت میں دھکیل رہی ہے؟[/pullquote]

پاکستان میں رواں سال بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد رہنے اندازہ ہے۔ واضح رہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال سے ترقی کی شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں کم رہنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح 19.9 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ گزشتہ برس مہنگائی کی اوسط شرح 12.1 فیصد تھی۔ بے روزگاری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں سال بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد رہنے اندازہ ہے جو گزشتہ مالی سال میں 6.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

[pullquote]محفوظ اور قانونی ہجرت کے طریقے[/pullquote]

محفوظ اور قانونی ہجرت کے بارے میں پاکستانی عوام کو سہولیات فراہم کرنے والے ادارے مائگرینٹ ریسورس سنٹر اسلام آباد کے کوآرڈینیٹر عمر وزیر کا کہنا ہے کہ انکی دو دو شاخیں ہیں ایک اسلام آباد میں اور دوسرا لاہور میں، لاہور میں انکا ادارہ ڈیپارٹمنٹ آف لیبر کے زیر نگرانی کام کررہا ہے جبکہ اسلام آباد میں اورسیز پاکستانی اینڈ ہومین ریسورس ڈیویلپمنٹ کے زنرنگرانی کام کررہا ہے۔ عمر وزیر کا کہنا ہے مائیگرینٹس ریسورس سنٹر کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے کہ غیر قانونی طور پر یورپ اور باقی باہر ممالک جانے سے انکو اور انکے گھر والوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ کہ کس طرح غیر قانونی مائیگریشن کو روکا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایم آر سی کا قیام دو ہزار سولہ میں ہوا ہے اور تب سے لے کر اب تک کام کررہے ہیں، آگاہی کے ساتھ ایم آر سی لوگوں کو مائیگریشن کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے، اس کے علاوہ جو لوگ قانونی طور پر باہر ممالک جاتے ہیں انکو متعلقہ ملک کے قوانین، رہن سہن، روایات، کلچر اور امیگریشن کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں، ساتھ میں انکا ادارہ لوگوں کو ٹینکل ایجوکیشن بھی فراہم کرتے ہیں کہ جولوگ باہر ممالک جانے کے شوقین ہو وہ کیسے ہنر سیکھ کر بہتر نوکری پر کسی دوسرے ملک جاسکتے ہیں جہاں انکو اچھی جاب مل سکیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے خیبرپختوںخوا میں بھی کافی کام کیا ہے اویئرنیس سے لے کر لوگوں کو قانونی مائیگرین کے حوالے سے معلومات دینے تک، ہم نے افغان باشندوں کو بھی معلومات فراہم کی ہے جب افغانستان میں حالات خراب ہوئے اور زیادہ لوگوں نے پاکستان کا رخ کرنا چاہا تو انکو پاکستانی ویزوں اور باقی ضروری چیزوں کے حوالے سے معلومات دی تھی کہ انکو یہاں آنے میں آسانی ہو۔

عمر وزیر کے مطابق خیبرپختونخوا کے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ ٹیفٹا کے ساتھ بھی ایم آر سی کام کرچکا ہے، ٹیفٹا کے ساتھ ایم آر سی کا ایم او یو سائن ہوا ہے جس کے تحت ہری پور، مردان، کوہاٹ اور پشاور کے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوشنز میں طلباء کے ساتھ سیشنز کئے ہیں جہاں انکو قانونی مائیگریشن اور ساتھ میں دستیاب مواقعوں کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہے۔

عمر وزیر کا کہنا ہے کہ غیرقانونی مائیگریشن ایک سیاہ پہلو ہے اور اس جانب بھی جانا ضروری ہے کہ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ غیرقانونی طریقے سے باہر ممالک جانا کتنا نقصان دہ ہے اور یہ کہ وہ کس طریقے سے قانونی راستے کے ذریعے باہر جاکر باعزت طریقے سے کام کرسکتے ہیں۔

[pullquote]غیرقانونی مائیگریشن کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے[/pullquote]

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان ایڈوکیٹ کے مطابق انسانی سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے پاکستان میں دو ہزار دو میں آرڈیننس موجود ہے، ان کا کہنا ہے یہ آرڈینینس پریوینشن اینڈ کنٹرول آف ہیومین ٹریفیکنگ آرڈینینس کے نام سے تھا جس میں دو ہزار اٹھارہ میں تبدیلی ہوئی اور اب اس کا نام دی پریونشن آف ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ ہے۔ اس قانون کے سیکشن میں 3 میں بتایا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو غیر قانونی طور پر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہو، لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجتا ہو، اس سلسلے میں کسی کی مدد لیتا ہو، کسی کو جبری طور پر مزدوری کے لیے آمادہ کرتا ہو، سیکس ورک کے لیے کسی کو سمگل کرتا ہو تو اس کو 7 سال کی قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص یہی جرائم کسی خاتون یا بچے کے ساتھ کریں تو اس کو دس سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔

طارق افغان ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس کے علاوہ جو لوگ انسانی سمگلنگ میں کسی کی مدد کریں تو انکے لیے بھی سزائیں موجود ہے۔ قانون کے سیکشن 6 میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ لوگوں کو کوئی سزا نہیں ملے گی البتہ وہ کیس میں گواہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 8 میں کہا گیا ہے بیرون ممالک انسانی سمگلنگ کی تفتیش ایف آئی اے کرے گی جبکہ ایسے کیسز میں ضمانت بھی نہیں ہوسکتی۔

طارق افغان نے کہا کہ اس قانون میں موجود ہے کہ جو متاثرہ شخص ہے اس کو تحفظ دیا جائے گا جبکہ کیس کا ریکارڈ بھی محفوظ ہاتھوں میں دیا جائے گا کہ ہر کوئی اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے جبکہ جرم ثابت ہونے پر متاثرہ شخص کو پیسوں کی واپسی بھی ہوگی۔

انسانی سمگلنگ کو کیسے روکا جاسکتا ہے اس حوالے سے طارق افغان نے بتایا کہ مجرموں کے لیے جو سزائیں مقرر کی ہے انکو سزائیں دی جائے، لیبر ڈیپارٹمنٹ کو چاہیئے کہ فورس لیبر کے حوالے سے مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور پولیس اس حوالے سے تفتیش کریں۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پولیس اور باقی متعلقہ لوگوں کو اس حوالے سے ٹریننگز دی جائے اور اس کے لیے سپیشل کورٹس بنائے جائے جو صرف ہیومن ٹریفیکنگ کے کیسز پر کام کریں۔

[pullquote]قانونی راستہ اپنانے سے کونسے فوائد مل سکتے ہیں [/pullquote]

اگرچہ اجیر اللہ اور ان جیسے کئی نوجوانوں نے غیرقانونی طریقے سے باہر کے ممالک کا رخ کیا اور تکلیفات برداشت کیں تاہم مردان سے تعلق رکھنے والے افتخار خان نے قانونی طریقے سے انگلینڈ گئے جہاں پہلے انہوں نے ڈگری مکمل کی اور بعد ازاں نوکری کی تلاش شروع کردی اور آج ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہے۔

افتخار خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا اور اب اسی فیلڈ میں نوکری کررہے ہے، میرے کچھ دوست تھے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ گئے لیکن میں نے وہ راستہ نہیں اپنایا کیونکہ اس راستے میں بہت مشکلات ہیں اور جو راستہ میں نے اپنایا ہے اس میں عزت ہے، پیسہ ہے اور آزادی ہے میں جب چاہوں واپس آسکتا ہوں، میرے گھر والوں کو یہ ٹینشن نہیں ہے کہ مجھے پولیس پکڑلے گی یا راستے میں کہیں کھو جاؤںگا بلکہ مجھے وہ سارے حقوق ملے ہیں جو ایک انسان کا بنیادی حق ہے۔

افتخار خان نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ غیر قانونی مائیگریشن کی بجائے قانونی طریقے سے باہر کے ممالک کا سفر کریں اور پہلے تعلیم حاصل کریں چاہے وہ اپنے ملک میں ہو یا کسی اور ملک میں کیونکہ تعلیم کی وجہ سے وہ باآسانی روزگار بھی ڈھونڈ سکتے ہیں اور انکو عزت بھی ملتی ہے جبکہ گھر والوں کو ایک اچھی زندگی بھی دے سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے