کل نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا الیکشن ہے ، اس مرتبہ کچھ زیادہ پینل سامنے آ گئے ہیں کچھ جرنلسٹ پینل کے لوگوں نے یونائیٹڈ پینل بنایا ہے اور جاگو پینل بھی سامنے آ گیا ، دستور گروپ نے یونائیٹڈ پینل کی حمایت کی ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان میں سے بہتر انتخاب کون سا ہے ، گزشتہ ایک ہفتے سے صحافی دوستوں ، صحافی لیڈروں اور امیدواروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ، سوچ سوچ کر کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا کریں ، ایک ہی حل سامنے آیا کہ اس ساری صورتحال پر کچھ تحریر لکھوں تاکہ دل کو سکون حاصل ہو اور کم از کم پڑھنے والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ ووٹ کس کو دیں ۔
ووٹ دینے سے پہلے کچھ سوال اٹھتے ہیں ، کیا کسی بھی پینل کے کسی بھی لیڈر کو یہ پتہ ہے کہ اسلام آباد راولپنڈی کے کتنے صحافی ہیں جن کی تنخواہ یا ماہانہ انکم دس ہزار روپے ہے ؟ کتنے صحافی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے تک ہے ؟ یا اس سے زائد ہے ، دس ہزار والے کیسے گزارا کر رہے ہیں بیس ہزار والے کیسے جی رہے ہیں ، ان کے گھر شادیاں وقت پر ہو رہی ہیں ؟ ان کے بچے بیکن ہاؤس ، روٹس ، سٹی سکولوں میں پڑھتے ہیں یا گلی محلے کی اکیڈمیوں میں پڑھتے ہیں ، عید پر وہ کیسے اپنے گاؤں جاتے ہیں ، وہ باعزت سفید پوشی والی زندگی گزار رہے ہیں ؟ یا وہ ہر وقت مایوسی ، نا امیدی ، چڑ چڑے پن میں اپنی آئندہ نسل کو کیسے گھسیٹ رہے ہیں ؟ کیا کبھی کسی صحافی لیڈر نے یہ سوچا ہے کہ سب ایڈیٹر ، پروف ریڈر، چھوٹے اخباروں ، نیوز ایجنسیوں کے سات سات دس دس ہزار لینے والے کیسے گزارا کر رہے ہیں ؟ یا کوئی ایسا ڈیٹا یا اعدادوشمار بھی بنایا ہو جس کی تفصیلات پریس کلب میں موجود ہوں ، کیا یہ تفصیلات افضل بٹ ، فاروق فیصل خان ، مشتاق منہاس ، مطیع اللہ جان ، نواز رضا کے پاس ہیں ؟
کیا پریس کلب اور میڈیا ٹاؤن کو کاروبار اور کمائی کا ذریعہ بنانے والوں نے کبھی یہ سوچا کہ ایسے کتنے صحافی ہیں جو اصل میں صحافی ہیں اور وہ پلاٹ حاصل نہیں کر سکے ؟ کتنے صحافی ہیں جو خود یا ان کا خاندان کسی بیماری سے گزر رہا ہے ؟ کتنے صحافی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ؟ کتنے صحافی غربت کی انتہائی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ؟ کسی کے پاس کوئی معلومات ہے کہ کتنے صحافی کتنے ماہ سے بے روزگار ہیں ؟ کتنے صحافی کتنے ماہ سے تنخواوں سے محروم ہیں ؟ کوئی پلیٹ فارم ، کوئی کمیٹی ، کوئی تنظیم ، کوئی ایسا طریقہ کار کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں کہ ان پریشان حال صحافیوں کے لیے بنایا جائے ؟
یہ کیسی صحافیوں کی سیاست ہے ؟ کہ پانچ فیصد صحافی پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں ان پچانوے فیصد صحافیوں کے حقوق پر لوٹ مار کر کے ، مجھے حیرت ہوتی ہے میرے لیے انتہائی محترم نام ہے شکیل انجم صاحب کا ، انتہائی باعزت اور میرے خیال میں پاکستان کے باعزت ترین کرائم رپورٹرز میں سب سے سر فہرست ہیں ، وہ کیا سوچ کے جرنلسٹ پینل کا الیکشن لڑنے آ گئے ، وہ کتنے صحافیوں کو نام سے جانتے ہیں ؟ وہ کتنے صحافیوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ اور کتنے صحافی انہیں جانتے ہیں ، میرے خیال میں انہیں اس موقع پر کبھی بھی کم از کم اس پینل کی طرف سے الیکشن نہیں لڑنا چاہیے تھا ، پھر عمران ڈھلوں صاحب میرے انتہائی محسن اور قریبی دوست ہیں ان دونوں شخصیات کو علم ہی نہیں کہ ان کو کیسے استعمال کیا جا رہا ہے ، عمران ڈھلوں بھی انتہائی پیشہ وارانہ طور پر باعزت صحافی ہیں ، ان دونوں شخصیات کو اس لیے پینل سے الیکشن لڑوا دیا کہ اس مشکل وقت میں جب کرپشن اور بدعنوانی کے جھنڈے بلند ہو رہے ہیں اپنا کوئی بندہ کھڑا نہیں کر سکتے تو ان دونوں کو کر دیتے ہیں اگر جیت گئے تو کہیں کہ ہم کوئی بھی شخص کھڑا کر دیں ہم الیکشن جیت جاتے ہیں اور اگر ہار گئے تو کہیں گے کہ اس مرتبہ امیدوار بہت کمزور تھے ۔
اس کے بعد جاگو پینل بنیادی طور پر میرے فیورٹ صحافیوں کا یہ ٹولہ ہے ، ان کے سسرپرست اعلی مطیع اللہ جان واقعی سپریم کورٹ کا اور عدلیہ کا منفرد رپورٹر ہے ، انتہائی کمال اور جاندار صحافی ہیں ان کا صحافیوں کے حوالے سے نظریہ بھی بہت بہتر ہے لیکن کیا مطیع اللہ جان صاحب نے بول چینل کے معاملے پر کوئی آواز اٹھائی ؟ کیا انہوں نے کبھی صحافیوں کے معاملے پر کوئی مظاہر ہ کیا ؟ یہ پورا سال کیوں نہیں متحرک رہتے ، ووٹروں کی سکروٹنی ضروری ہے کرپشن سے پردہ چاک کرنا ضروری ہے لیکن صحافیوں تک رسائی کیوں نہیں کر سکتے ، کتنے صحافیوں سے وہ الیکشن مہم سے قبل ملے ہیں ؟ اپنے چند رپورٹر دوستوں کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ، یہ کیسی سیاست ہے جو صرف دو ہفتوں کے لیے ہوتی ہے ۔لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار میں رہ کر ہی صحافیوں تک پہنچا جا سکتا ہے تو یہ صرف وہ وجہ ہے کہ آپ اقتدار سے اتنے دور ہیں ، قیوم صدیقی صاحب کے لیے بھی وہی سوال ہیں جو مطیع اللہ جان اور شکیل انجم کے لیے ہیں ۔
یونائیٹڈ پینل کے سرگرم رکن محمد اکمل اچھے دوست ہیں لیکن انہیں اگر جرنلسٹ پینل سے علیحدہ ہونا تھا تو الیکشن کے وقت نہ ہوتے بلکہ اس وقت آواز اٹھاتے جب کرپشن ہو رہی تھی کرپشن کو روکنے کے لیے آگے بڑھتے اور پینل کے اندر آواز اٹھاتے ، اور ابھی ان کے حمایتی بھی پرانے کھلاڑی ہیں تو کوئی بڑی تبدیلی یا اپ سیٹ کی پوزیشن میں یہ پینل بھی نہیں ہے ۔
یہاں پر اب صورتحال واضح ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے کس کی کیا صورتحال ہے ، تبدیلی ایک مرتبہ پریس کلب کے الیکشن میں بھی آنی چاہیے ، اور ایک موقع جاگو پینل کو بھی ملنا چاہیے تاکہ ان کے کچھ منشور سے پریس کلب میں اس لیے بہتری آ سکتی ہے کہ سکروٹنی سے جعلی صحافی نکل جائیں گے اور بدعنوانی اور کرپشن سے کچھ بچت ممکن نظر آتی ہے ۔