بڑے لوگوں کا انجام

بہادر شاہ ظفر ہندوستان کے آخری مسلمان حکمران ہو گزرے ہیں، بہادر شاہ ظفر کو بڑھاپے میں بادشاہی سے ہٹا کر قید میں ڈال دیا گیا تھا ۔ بہادر شاہ ظفر نے زندگی کے آخری ایام رنگون میں گزارے ، انہیں اپنی سرزمین پر دفن کے لیے جگہ بھی نہ ملی، وہ اپنا غم اپنی شاعری کے ذریعے کم کرتے رہے ، بہادر شاہ ظفر کو صرف قیدو بند کی صعوبتیں ہی نہیں جھیلنی پڑیں بلکہ انہیں اپنے بیٹوں کو ذبح ہوتے دیکھنے پر مجبور کیا گیا، بادشاہت اور پھر اس پہ آزادی کا نعرہ لگانا انہیں بہت مہنگا پڑا.

بہادر شاہ ظفر پہلے یا آخر ی حکمران نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے حکمران گزرے ہیں جنہیں قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہیں مقتلوں سے گزارا گیا ، جنکی گردنیں تن سے جدا کی گئیں.

میں بہادر شاہ ظفر سے پہلے لوگوں کاانجام تو نہیں لکھنا چاہتا لیکن آج کے دور کے چند بڑے لوگوں کے تذکرے زیر قلم لانا چاہتا ہوں .

[pullquote]بانی پاکستان محمد علی جناح کی موت سڑک کے کنارے ہوئی جس ایمبولینس میں انہیں لے جایا جا رہا تھا وہ بھی خراب تھی سڑک کنارے بانی پاکستان کی موت بہت بڑا المیہ ہے، قائد کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگوں کے سامنے گولی مار دی گئی اور انکے قاتل کو بھی موقع پر ہلاک کر دیا گیا یوں ملک کے وزیراعظم کا خون خاک میں مل گیا،لیاقت علی کی شہادت کے بعد گورنر اسکندرمرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اسکندر مرزا نے نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام ہوٹل کی نوکری میں گزارے ،کہاں گورنر کا عہدہ اور کہاں ہوٹل کی زندگی ؟اسکندرمرزا کے بعدایوب خان برسراقتدارآ ئے ایوب خان کیخلاف انہی کا وزیر خارجہ میدان میں نکلا اور انکے لیے تخت پر بیٹھنا مشکل کر دیا ، پورا ملک ایوب کتا کتا پکارنے لگا حتیٰ کہ ایوب خان کے پوتے بھی ایوب کتا کتا کہنے لگے تھے ایوب خان صدر پاکستان اور آرمی چیف رہنے کے باوجود جاتے ہوئے تخفے میں کتے کا لقب لے کر گئے.[/pullquote]

ایوب کو ڈیڈی کہنے والا بھٹو بھی اپنے بنائے ہوئے آرمی چیف کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پہ جھولا، بھٹو کورات کی تاریکی میں لٹکایا بھی گیا اور دفنایا گیا ، انکے جنازے کی اطلاع بھی لوگوں کو نہیں دی گئی ، پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کا یہ انجام ہوا ۔ بات بھٹو تک نہیں رکی بلکہ ضیاء الحق کا انجام اس سے بھی بد تر ہو ا، ضیا ء الحق کے طیارے کو ہوا میں ہی اڑا دیا گیا ، ان کاتو چہرہ بھی کوئی نہ دیکھ سکا کہ جسم ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ جب وطن عزیز پاکستان دو لخت ہوا تو شیخ مجیب بانی بنگلہ دیش کہلایا ، شیخ مجیب کو بھی قتل کیا گیا اور اندرا گاندھی جس نے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال کی نظر ہو گیااسے بھی اس کے سکھ ملازموں نے قتل کر دیا تھا ۔

جنرل یحییٰ خان کو زبردستی اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا ان کی باقی عمر نظر بندی میں گزری ، بھٹو کی پھانسی کے بعد انکی اہلیہ حواس کھو بیٹھی تھی۔ بھٹو کے دونوں بیٹے بھی برے انجام سے دوچار ہوئے، ایک بیٹے کو فرانس میں زہر دیا گیا اور دوسرے کودن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر قتل کیا گیا ۔

[pullquote]بھٹو کی ذہین بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو جنہیں دختر مشرق کا خطاب بھی ملا تھا طویل جلا وطنی کا شکار رہیں اور بعد ازاں انہیں لیاقت باغ کے سامنے اڑا دیا گیا ، پاکستان کے حالیہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی کئی سال جلا وطنی میں گزارے ، جب ملک آنے کی کوشش کی تو اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی واپس بجھوا دیئے گئے ، میاں صاحب کو انکے والد کے جنازے تک میں شرکت کی اجازت نہیں ملی ، قید و بند کے ایام میں انکے کمرے میں سانپ چھوڑ دیے جاتے تھے ۔ اور جس شخص نے میاں صاحب کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا آج اس پر زمین باوجود اپنی وسعتوں کے تنگ پڑ گئی ہے ، جنرل مشرف قید کی زندگی گزار رہے ہیں ، کبھی ایک عدالت کا چکر اور کبھی دوسری عدالت میں پیشی، کل جو سیاہ سفید کے مالک تھے آج ان کے حالات پڑھ اور سن کے جسم پہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے.[/pullquote]

ایران میں شاہ ایران کا انجام کیا ہو ا ؟ سر زمین ایران پہ انکا جینا حرام ہو گیا تھاجبکہ کوئی دوست ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھا ،شاہ ایران سے ہٹ کر دیکھا جائے تو افغانستان میں نجیب کی لاش کئی دن تک سربازار لٹکتی رہی ، لیبیا میں کرنل قذافی کا برا انجام ہوا او رقذافی کا بیٹا سیف الاسلام مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کسمپرسی کی حالت میں گرفتا ر ہوا ، عراق کے صدر صدام حسین کے بیٹوں کو قتل کیا گیااور خود انہیں عید کی رات پھانسی پہ چڑھا دیا گیا تھا، تیونس میں صدر زین العابدین کو پورے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا جبکہ مصر کے صدر حسنی مبارک کو جیل کے پنجروں میں بند کیا گیا ، سعودی عرب میں شاہ فیصل کو اپنے بھتیجے نے شہید کیا ، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو بھی اندھی گولیوں سے بھونا گیا .

یہ دیگ کے چند دانے ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں ایسی مثالیں بادشاہوں اور حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہیں ۔دوستو بڑے عہدے بڑے دکھ بھی دیا کرتے ہیں ، اقتدار پھولوں کی سیج نہیں یہ کانٹوں کی مسند ہے ، غریب اور گمنام لوگ گھروں میں آرام کی نیندتو سوتے ہیں غریب فٹ پاتھ پہ بھی سکون سے سوتے ہیں ، غریبوں کو لٹنے کا بھی دھڑکا نہیں لگا رہتا، مالدار اور صاحب اقتدار لوگ ہر وقت خوف کے سائے میں رہتے ہیں ، ہر وقت برے انجام سے بچنے کی دعا کر تے ہیں .

خدانے جس کو جو مقام عطا کیا ہے اسی پہ خوش رہنا چاہئے ، بڑے عہدوں کیلئے چھلانگیں لگانا اچھی بات نہیں اور بڑے عہدوں کو دیکھ کر منہ میں پانی بھی نہیں آنا چاہئے ، بڑے لوگوں کی تاریخ پڑھ کے پھر فیصلہ کیجئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ رب نے اس حال میں خوش رکھا ہوا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے