تھوڑی سی سچائی

کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ ایک نامکمل کہانی نے اتنا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ جب یہ کہانی انجام کو پہنچے گی تو کیا ہوگا؟

اس کہانی کے دو مرکزی کردار آج کل ایک دوسرے کے بارے میں تھوڑا تھوڑا سچ بول رہے ہیں۔ دونوں نے پورا سچ بول دیا تو پھر دونوں ہی بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ اس نامکمل کہانی کا ایک کردار عمران خان اور دوسرا کردار جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ ہیں۔ یہ دونوں ہی اپنے آپ کو بہت چالاک اور باقی سب کو بہت بے وقوف سمجھتے ہیں۔

دونوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک دوسرے سے دوستی کی پھر یہ دونوں ایک دوسرے کو استعمال کرتے کرتے آپس میں لڑ پڑے۔ دونوں کی لڑائی میں پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔

باجوہ صاحب کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے بطور آرمی چیف اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2017ء میں سیاست میں مداخلت شروع کردی۔

ایک طرف انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو قابو کرکے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرایا دوسری طرف بھارت کے ساتھ بیک چینل کھول لیا۔شاہد خاقان عباسی کی کمزوری سے باجوہ صاحب کے حوصلے بلند ہوگئے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ باجوہ صاحب نے 2018ء میں عمران خان کو کیسے وزیر اعظم بنوایا؟ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی اور میڈیا کی زباں بندی کا میں عینی شاہد ہوں۔

عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے بعد وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی مرضی کے وزرائے اعلیٰ لانا چاہتے تھے لیکن خان صاحب نے ان کی مرضی نہ چلنے دی۔ خان صاحب نے باجوہ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے معاملات سے دور رکھنے کے لئے انہیں بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

اس بیک چینل کے تحت نومبر 2018ء میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔

فروری 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خودکش حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ پر فضائی حملہ کردیا۔ پاکستان ایئر فورس نے بھارت کے فضائی حملے ناکام بنا دیئے اور ایک بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کرلیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت پر پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا۔

اس دوران جون 2019ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ سید عاصم منیر کو اچانک تبدیل کردیا گیا کیونکہ وہ عمران خان کو بھی ناپسند تھے اور باجوہ صاحب کے بیک ڈور چینل کے لئے بھی نامناسب تھے۔ ان کی جگہ فیض حمید کو لایا گیا۔

انہی دنوں جنرل باجوہ نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ بھارت کے ساتھ کوئی بریک تھرو ہونے والا ہے۔ 25 جولائی 2019ء کو میں نے اپنے ’’جنگ‘‘ کے کالم میں خبردار کیا کہ مودی پر اعتماد نہ کیا جائے مودی پاکستان کو گھیر کر کشمیر پر ڈپلومیٹک سرنڈر کرانا چاہتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کا کالم بھی کشمیر پر تھا اور اسی دن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مارشل لانافذ کردیا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک تفصیلی رپورٹ جاری ہو چکی تھی اور پاکستان اس پر بہت شور مچا سکتا تھا لیکن 9 نومبر 2019ء کو یوم اقبال پر عمران خان سے کرتار پور راہداری کا افتتاح کروا دیا گیا۔

میں نے ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ میں پاکستان کی کشمیر پالیسی پر سوالات اٹھائے تو باجوہ صاحب ناراض ہوگئے اور انہوں نے ٹی وی چینلز کے مالکان کے ساتھ ایک ملاقات میں مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں نے تو اجمل قصاب کے گائوں جا کر کوئی پروگرام کیا تھا حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا۔ پھر ایک ٹی وی چینل نے مجھے بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا اور اسی چینل پر مجھے توہین رسالت کا مرتکب قرار دے دیا گیا۔

کشمیر پالیسی پر سوالات مجھے بہت مہنگے پڑے۔ یہ وہ وقت تھا جب مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق کے سوا اکثر سیاسی قائدین کشمیر پر خاموش تھے اور پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کے ساتھ مل کر باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دے دی۔ ایکسٹینشن کے بعد باجوہ صاحب کا نشانہ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی تھے۔ پاکستان میں ان کے نمائندے عبداللہ گیلانی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن قصہ مختصر یہ کہ علی گیلانی صاحب حریت کانفرنس سے علیحدہ ہوگئے۔

فروری 2021ء میں پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا اعلان کردیا۔ 23مارچ 2021ء کو نریندر مودی نے یوم پاکستان پر عمران خان کو خط لکھ دیا تو پاکستان کے دفتر خارجہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کے ذریعہ یہ خبر نکلی کے دبئی میں فیض حمید اور اجیت ڈوول کے درمیان خفیہ بات چیت بہت آگے جا چکی ہے۔

ایک دن باجوہ صاحب وزیر اعظم کے پاس آئے اور بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 9 اپریل 2021ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی پہلے تو بلوچستان کے پہاڑی علاقے لسبیلہ میں دریائے ہنگول کے کنارے ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے اور وہاں ہندوئوں کے سالانہ میلے میں شرکت کریں گے پھر اسلام آباد آئیں گے اور عمران خان کے ساتھ ملاقات میں پاک بھارت تجارت اور کرکٹ میچوں کی بحالی کا اعلان کریں گے۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ ہنگلاج ماتا کے مندر کو بلوچستان میں بی بی نانی کی زیارت بھی کہا جاتا ہے اور کرتار پور راہداری کی طرز پر راجھستان اور بلوچستان کے درمیان ہنگلاج راہداری بھی کھولی جا سکتی ہے۔

خان صاحب نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ فیض حمید نے انہیں بتایا کہ بیس سال تک مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہے گا اور بیس سال کے بعد کوئی حل تلاش کریں گے۔

یہ وہ موقع تھا جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خان صاحب کو خبردار کیا کہ پاکستان میں ایک پارلیمینٹ بھی ہے، ہم وہاں کیا جواب دیں گے؟ ہم نے الیکشن بھی لڑنے ہیں ہم پر کشمیر فروشی کا الزام لگ جائے گا۔جولائی 2021ء میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ خدشہ تھا کہ اگر اپریل میں مودی نے پاکستان کا دورہ کیا تو جولائی میں تحریک انصاف کا آزاد کشمیر سے صفایا ہو جائے گا۔ اس دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن شاہ محمود قریشی نے ناصرف بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات سے لاعلمی ظاہر کر دی بلکہ وفاقی کابینہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کی بھی مخالفت کردی۔

باجوہ صاحب شدید غصے میں آ چکے تھے۔ انہوں نے خان صاحب سے شکایت کی کہ ہم نے جو بھی کیا آپ سے پوچھ کر کیا۔ خان صاحب نے کہا فکر مت کریں ذرا آہستہ چلیں اور اپوزیشن کو اندر کردیں۔

شاہ محمود قریشی نے باجوہ صاحب کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے انہیں دفتر خارجہ بلایا اور بتایا کہ جب تک بھارت 5 اگست 2019ء کے اقدامات واپس نہیں لیتا تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی شکست سمجھا جائے گا۔

ستمبر 2021ء میں عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں کشمیر پر پاکستان کا پرانا روایتی موقف دہرا کر باجوہ کو مایوس کردیا لیکن باجوہ صاحب بیک چینل کے ذریعہ بھارت کو امید دلاتے رہے کہ فکر نہ کریں اپریل 2022ء میں بریک تھرو ہو جائے گا۔

مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو وہ باجوہ کو ایک اور ایکسٹینشن کے ساتھ ساتھ ان کی تمام باتیں ماننے کے لئے تیار ہوگئے۔ باجوہ صاحب اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے صرف جھٹکا دینا چاہتے تھے لیکن جھٹکا ذرا شدید ہوگیا۔خان نے بھی جوابی جھٹکے دینے شروع کردیئے اور لڑائی دونوں کے قابو سے باہر ہوگئی۔

اس لڑائی میں ہم سب کیلئے ایک سبق ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی نے ایک گندا کھیل شروع کیا جس کے نتیجے میں ابھی تک سیاست میں گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ فوج کو ہمیشہ سیاست سے دور رہنا چاہئے اور سیاستدانوں کو تمام اہم فیصلے پارلیمینٹ میں کرنے چاہئیں۔

بھارت کیساتھ دوستی ضرور کریں لیکن کشمیریوں کی قربانیوں کو بیچ کر نہیں بلکہ آئین کے اندر رہ کر پارلیمینٹ میں فیصلہ کریں۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے