قرونِ اولیٰ کی سی مردانہ وجاہت، عالمانہ شان، قائدانہ چال، مربّیانہ بیان، دل چیرتی مسکراہٹ۔
آواز میں حلاوت، لہجہ میں کھنک، غنائیت اور اثر انگریزی کا ایسا امتزاج کہ سامع کا دل گویا مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔
نجابت، علمیت، وقار ،فقر، استغنا، گرم جوشی اور طمانیت کا ظہور۔
زندگی کی اوج گاہ سے جھانکتا متبسم دمکتا چہرہ، مصحف ِربانی، دانش برہانی۔
روایت سے پیوستہ، عصرسے ہم آہنگ، ابن تیمیہ اور امام شامل کی روایت کا فرد، صوفی فطرت، مجاہد طینت
اپنے وقت پہ حاوی، اشہبِ دوراں پہ سوار جادہ پیما۔
مخاطب کو دلیل سے قائل اور حسن خلق سے گھائل کرنے والا۔
سننے والا کوئی بھی ہو، مخاطب ہر کو ئی ہوتا۔ حوالہ کسی کا ہو، معاملہ امت کے ہر فرد سے رہا کرتا۔
محبت فاتح عالم کی تفسیر وتجسیم
پہاڑی کا چراغ، قائد ہفت زباں، فرزند کوہستاں، عزیزِ جہاں
———–2——–
دو برس قبل آج کی تاریخ تھی، رات بھی تاریک تھی، کہر آلود سردی میں ، نامعلوم سی بےچینی کہ باوجود نیند کے غلبہ کے سونے نہیں دیتی تھی، فون پہ ایک پیغام ملتا ہے، اجل کے فرشتہ کی آمد اور گزشت کا پیغام، ہجر اور وصال کا پیغام۔ میں ایک ٹرانس کی کیفیت میں بستر پہ درازہو جاتا ہوں، جیسے اسی خبر کا انتظار تھا۔ اگلا دن اسی تنویمی حالت میں گزرتا ہے، کاروبار زندگی معمول کے مطابق گزارکے گھر لوٹ آتا ہوں۔
شام ٹی وی کی خبر میں قاضی صاحب کا بےسکت چہرہ دیکھ کر اس کیفیت سے گویا ایک جھٹکے سے نکل آتا ہوں، اس لمحہ یہ خبر دل میں ترازو ہو جاتی ہے، شعور میں در آتی ہے، چشم گریاں ، وجود کے ہچکولوں سے ہم آہنگ ہو تی ہے، ایک بے صدا چیخ کہ گوشِ خویش سے سنتا ہوں اور ہر بنِ مو ماتم کرنے لگتا ہے۔ بیک وقت دو دنیاوں میں اپنے ہونے کو محسوس کرتا ہوں۔
غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی دوانہ مر گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
یہ اس انسان کا وصال تھا جسے بچپن سے بصورت بزرگ دیکھا اور جانا، جو گھر سے باہر اپنوں سے بڑھ کر لگا اور جسکی معنوی پدریت میں ماہ و سال بسر کئے۔ کسی کم ظرف مخالف کی یاوہ گوئی کا جواب یوں ہی دیا جیسے کوئی خاندانی نجابت پہ حملہ آور ہوا ہو۔ یتیمی اگر امرواقعہ سے ہٹ کر کسی کیفیت کا بھی نام ہے تو اس لمحہ اسکو محسوس کیا۔ اس رات باہر بھی جل تھل تھا ور اندر بھی، برستا آسمان اس نوآمدہ روح کی طرف سے گویا سکینت نازل کررہا تھا۔روح اک ایسی حال آفریں کیفیت کے وفور میں تھی کہ جسکی بُنت غمِ وصال اور الوہی تیقن سے ہوئی تھی۔ ہاتف غیبی سرگوشی کررہا تھا، اک ذرا صبر کہ ہجر کے دن تھوڑے ہیں۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا تیرے وجود کےمرکز سےدور رہتا ہے
———-3——
پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان کی مذہبی سیاست جس شخصیت کے گرد گھومتی رہی وہ قاضی حسین احمد تھے۔ فطرت نے انکی شخصیت میں بیک وقت اتنی خوبیاں ، موزوں تناسب سے جمع کردی تھیں کہ انہیں یہی کردار ادا کرنا تھا۔ اس تمام عرصہ میں دینی سیاست کے ہر حامی و مخالف نے ہوا کے رخ کا تعین انکی بلند قامت شخصیت سے ہی کیا۔
قدیم روایتی دینی پس منظر، جدید تعلیم و تعلم سے علاقہ، جغرافیہ میں تخصص کی وجہ سے عالمی سطح کا ذہنی افق، فطری قائدانہ مزاج، عربی، فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو میں ابلاغ کی صلاحیت اور فکر مودودی سے علمی و عملی وابستگی کے باوجود اپنی صوفیانہ فطرت کے باعث انسان دوستی اور انسانوں سےمحبت انکا ایسا وصف تھا جسکا احساس خود انکی جماعت کو بھی نہ ہوسکا ورنہ یہ خوئے دلنوازی عام ہوجاتی۔
بےپناہ اخلاص اوربے پایاں تحرک، دو ایسی توانا قوتیں تھیں جو ہمہ وقت قاضی صاحب کو روبہ عمل رکھتیں، انکے وقت کا شماردن اور رات سے نہ ہوتا تھا، ہاں مگر رزمگاہ حیات میں پیکار اورسانس درست کرنے کے وقفہ سے، سانس بھی کیا صفیں کہیےکہ زیست ہرنفس ان کو نیامعرکہ تھی۔
تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے ذہن میں بننے والے کلاسیکی مرد مومن کی شبیہ قاضی صاحب کی شخصیت میں مجسم نظر آتی تھی، تس پہ فارسی میں اقبال خوانی، سامع اور ناظر کو صدیوں پیچھے لےجاتی تھی۔
فیض کو پسندیدہ شعراء میں سرفہرست رکھنے والےقاضی حسین احمد کا انقلابی مدوجزر بالترتیب اقبال اور فیض سے ہی متشکل ہوتا تھا۔
قاضی صاحب سرتاپا جماعت اسلامی کا حصہ ہونے کے باوجودایک وسیع اور برتر سطح پر عام شہری اور نظریاتی مخالفین سے بھی تعلق خاطر رکھتے تھے۔ وہ جماعت میں اس روایت کے موجد تھے اور خاتم بھی۔ انکی اس محبوبیت اور مقبولیت سے شاید جماعت کو بالواسطہ فائدہ بھی ہوا ہو مگرجماعتی زعماء نے عموماً اسے مشکوک اورنا محمود نظر سے ہی دیکھا۔ اللہ رے غرورِزہد کی نارسائیاں۔
جماعت کے اس مجتہد امیر کو بھی ہر مجتہد فی الدین کی طرح پیران کلیساکی مخالفت کا سامنا کرنا پڑاجو گاہے سیاسی فتووںکا روپ دھار لیتی مگر اس مرد رویش نےکبھی اپنے پائے استقامت کو تاویل کے پھندے میں نہ آنے دیا۔
سیاست کے اعلیٰ ایوانوں سےلیکرجماعت کی طویل ترین امارت کے باوجود اپنی زندگی ایسی انسانی سطح پر گذاری کہ انسانوں میں کبھی فرق نہیں کیا، امیرہو یا غریب، صاحبان رسوخ ہوں یا معاشرے کا پسا ہوا کوئی عام شخص، ہر کسی سے ایک ہی طور معاملہ رکھا۔ کسی سے مرعوب ہوتے نہ مرعوب کرنے کی کوشش کرتے۔ سخت مصروفیت کے باوجود مزاج میں کبھی تلخی نہیں آنے دیتے۔
مشاہدہ میں آیا ہے کہ پٹھان حضرات پشتو میں اگر عمومی گفتگو بھی کررہے ہوں توزبان کی کرختگی لڑائی کا تاثر دیتی ہےمگر قاضی صاحب پشتو بھی بولتے تولہجہ میں وہی حلاوت، وقار اور تہذیبی رچاو نظر آتا۔ ممکن ہے کسی جلالی لمحہ میںمعاملہ اسکے برعکس بھی رہا ہومگر مجلسی زندگی میں انہیں ایسا ہی پایا۔ برادر آصف لقمان شاید کسی ایسے مقام آہ وفغاں سے آشنا ہوں۔
جماعت کے امیر ہونے کے باوجود جماعتی تعصب اور حزبیت سے عملاً کوسوں دور رہے۔ اپنے عام کارکن کا نکاح پڑھا کر اسکی خوشی میں شریک ہوتے اور حسن نثار کی بیٹی کو نام اور کان میں اذان دےکر بھی اپنایئت کا اظہار کرتے۔
[pullquote]
قاضی صاحب اپنی زندگی میں ہی "اپنے اور غیر” کی تفریق سے ماورا ہوچکے تھے۔ مولانا نورانی سے افضل خان لالہ تک، عمران خان سے مولانا فضل الرحمان تک، حسن نثار سےساجد نقوی تک، نجم سیٹھی سے حمید گل تک، جے سالک سے لاہور کے مان سنگھ تک سب نے ہمیشہ قاضی صاحب کو اپنا جانتے۔ حامد میر سے روئیداد خان تک سب قاضی صاحب کادم بھرتے اور انکی یاد میں آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ملاقات میں روئیداد خان نے مجھ سےکہا غلام اسحٰق خان انکے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ شخص سچا اور کھرا پاکستانی ہے۔
[/pullquote]افغانوں سے اپنے دیرینہ اور گہرے تعلق، رفاقت اور پشتیبانی کی بنیاد پر انکے داخلی تنازعات کو ثالث کی ضرورت قاضی صاحب کی شخصیت ہی پوری کرتی، طالبان کی آمد سے قبل کے مزاحمت کاروں کے حرم کعبہ میں قاضی صاحب کی موجودگی میں کئے گئے میثاق کی خلاف ورزی نے بزرگ قاضی کوتا عمر رنجیدہ رکھا۔
عالمی سطح پر ترکی کے اربکان سے مصر کے اخوان راہنماوں تک، تیونس سے ماورالنہرکی اسلامی تحریکوں تک انکی شخصیت پراعتماد اور اتفاق موجود تھا۔ 90 کی دہائی میں ایک عام ترک کے لئے پاکستان کا تعارف قاضی صاحب کے نام سے ہی ہوتا تھا۔ صدر اردوگان آج بھی ذاتی طور پہ قاضی صاحب سے اپنے تعلق پہ فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
اواخر عمر میں جب قویٰ کا اضمحلال تگ وتاز کے آڑے آنے لگا تو اپنے قافلہ کی قیادت سے معذرت کرلی مگر سیادت مرتے دم انکو ہی زیبا رہی۔ اپنی بھرپور ، متحرک اور طویل سیاسی زندگی میں پاکستان کی دینی سیاست کو تن تنہا– گاہے اپنی جماعت سے ورا– اتنا کچھ دیاکہ پلٹ کر دیکھیں تو یقین نہیں آتا۔
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے
اے خفتہء خاک تیرے عشاق اب بھی تیرے خیال سے قلب حزیں کو گرماتے ہیں،تحریک پاتے ہیں۔ ہاں تجھ سے اختلاف بھی کرتے ہیں کہ بشر معصوم نہیں ہوتا مگر تیری عظمتِ کردار مشعل راہ بنتی ہے تو زندگی کے معنی نکھرنے لگتے ہیں، بکھرتے وجود سمٹنے لگتے ہیں۔یہ متاعِ دیدہء تر ہے یہی بِنائے عظمتِ بشر ہے۔