خلیجی ممالک مشرق ِوسطیٰ اور اس سے باہر کی دنیا اپنے بازو آزمانے کی تیاری میں ہے۔ جب 2013ء میں امریکی حمایت سے عراق میں شیعہ نواز حکومت قائم ہوئی تو عرب ملکوں نے سنی انتہاپسند گروہوں، جن کی قیادت القاعدہ کے ابو مصعب الزقاوی کے پاس تھی، کی پشت پناہی شروع کردی۔ 2011-12 میں خطے میں رونما ہونے والی ہنگامہ خیز صورت ِحال، جسے بہار ِعرب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے بعد بعض عرب ملکوںنے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے شام میں علوی مسلک سے تعلق رکھنے والے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف سنی انتہا پسند گروہوں کو وسائل فراہم کیے۔ 2015ء میں یمن میں حوثی قبائل، جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ ہیں، پر بمباری شروع کردی گئی۔ اب گزشتہ ہفتے برادر عرب ملک کے تیل کے وسیع ذخائر اور شیعہ آبادی کا ارتکاز رکھنے والے صوبے میں ایک شیعہ عالم ِدین شیخ نمر النمر کوشیعہ گروہوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں سزائے موت دے دی گئی، اور اس پر ایران کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کرنے پر اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں۔
اب عرب ملکوں نے چونتیس سنی ریاستوں پر مشتمل عسکری الائنس قائم کیا ہے جس کا مقصد ’’شیعہ دہشت گردی‘‘ کو کچلنا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام آباد پر بھی دبائو ہے کہ وہ اس الائنس میں شامل ہوکر عملی اقدامات میں حصہ لے۔ اس پیچیدہ صورت ِحال میں پاکستان کا رد ِعمل کیا ہونا چاہئے؟ایک وقت تھا جب پاکستان کی طرح سنی مسلک رکھنے والے بعض عرب ملک اور شیعہ مسلک رکھنے والا ایران سرد جنگ کے دوران امریکہ کے اتحادی تھے۔ تاہم1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور ہمارے برادر عرب ملک میں شدید دشمنی پیدا ہوگئی جب ایک عشرے پر محیط ایران عراق جنگ میں برادر ملک نے صدام حسین کا ساتھ دیا۔اُس وقت پاکستان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کوعرب و عجم کی اس کشمکش سے دور رکھا، لیکن ایران کے رویے میں ہمارے لئے سرد مہری پائی گئی کیونکہ اُسے شک تھا کہ ایران کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے عرب اور امریکہ کی سازش میں اسلام آباد ٹروجن ہارس کا کردار ادا کررہا ہے۔
1987 ء میں حج کے موقع پر ہونے والے ہنگاموں میں چارسو سے زائد شیعہ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس پر مشتعل شیعہ ہجوم نے تہران میں برادر ملک کے سفارت خانے پر حملہ کردیا اوران دونوں ریاستوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ ادھر خلیج سے گزرنے والے ا ٓئل ٹینکروں کو ایران سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ 2000کی دہائی میں ایرانی معتدل مزاج قیادت اور ہمارے عرب بھائیوںکے تعلقات میں بہتری دکھائی دی، لیکن ایران کے مبینہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی خبروں نے ان تعلقات میں پھر بگاڑ پیدا کردیا۔ جس دوران عالمی برادری مشرق ِوسطیٰ کو جنگ کے شعلوںسے بچانے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرانے کے لئے سفارتی بازو استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کی دانشمندانہ راہ اختیار کررہی تھی، بعض عرب ملک امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لئے اکسارہےتھے۔ گزشتہ برس، 2015 ء میں حج کے موقع پر مچنے والی بھگدڑمیں دوہزار سے زائدحجاج ہلاک ہوگئے تھے۔ ایران نے دعویٰ کیا ہلاک ہونے والوں میں چار سو سے زائد اُس کے شہری تھے۔ اس پرتہران اوربرادر ملک کے تعلقات میںایک مرتبہ پھر تنائو دیکھنے میں آیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرب ملکوں کو شیعوں سے اتنی پرخاش کیوں ہے؟ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں،اس مسئلے کا تعلق ان کی اپنی سرزمین سے اورموجودہ دور سے ہی ہے۔ برادر ملک کے مشرقی صوبے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور یہ وہ صوبے ہیں جہاں شیعہ آبادی کا ارتکاز پایا جاتا ہے۔ انقلاب ِایران کے بعد سے یہ افراد نسبتاً دلیری اور اعتماد سے عرب شاہی خاندان سے سماجی اور معاشی حقوق کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اُنہیں مطمئن کرنے کی بجائے حکومت سیکورٹی فورسز کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں دبادیتی ہے۔ دوسری طرف اس نے شیعہ مسلک کی مخالفت کرنے والے وہابی مسلک کے دنیا بھر میں پرچار کی مہم شروع کردی۔ مختصر یہ کہ کچھ ملک اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے دنیا میں مسلکی جنگ بھڑکانے کی خطرناک راہ پر گامزن رہے ہیں۔ اب اس جنگ کی تمازت انکے اپنے گھر تک آن پہنچی ہے۔
اب تک پاکستان پر خلیجی ملکوں کا اثر صرف اتنا ہی تھا کہ وہ اپنے ہم مسلک علما ، مساجد اور غیر ریاستی عناصر کو فنڈز مہیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سوویت یونین کے خلا ف کیے جانے والے نام نہاد جہاد میں بھی سنی انتہا پسند گروہوں کو مسلح کیا گیا تھا۔ اس میں بھی خلیجی رقم استعمال ہوئی تھی۔ 1997ء میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کوشروع میں پاکستان کے علاوہ عربوں کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن جب طالبان نے اسامہ بن لادن کی کھلی حمایت شروع کردی توعرب بھائی ناراض ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بن لادن عرب حکمراں خاندان کے امریکہ کے ساتھ تیل کے معاہدوں پر ناراض تھا۔ ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان میں انتہا پسند گروہ اہل ِ تشیع کے جانی دشمن کیوں رہے ہیں۔ القاعدہ، طالبان اور اب داعش، مسلکی اعتبار سے شیعہ مخالف گروہ ہیں اور ان سب کے سوتے ایک ہی مکتب ِ فکر سے پھوٹتے ہیں۔
اس وقت پاکستان پر چونتیس خلیجی ممالک کے الائنس میں شامل ہونے اور عملی حصہ لینے کے لئے دباؤ ہے۔ نواز حکومت نے فوجی قیادت کے ساتھ مل کر ہر قسم کی د ہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان شروع کررکھا ہے۔ مسلکی بنیادوں پر کی جانے والی خونریزی کا تدارک بھی اس پلان کا ہدف ہے۔ عسکری اور سیاسی قیادت کی طرف سے یہ بات بارہا کہی گئی ہے کہ ملک کی سلامتی کو بیرونی کی بجائے اندرونی عناصر سے خطرہ لاحق ہے۔ آرمی چیف کے ایک حالیہ بیان کے مطابق داعش کو کسی قیمت پر پاکستان میں اپنی جڑیں گاڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔دوسری طرف سے سیاسی انتظامیہ مسلکی بنیادوں پر دہشت گردی کرنے والوں کو مبینہ طور پر ماورائے عدالت مقابلوں میں ہلاک کررہی ہے۔ پاکستان کوعرب بھائیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کے وعدے سے پہلے اس پس ِ منظر کو یاد رکھنا ہوگا۔ اس سے پہلے نواز حکومت نے دبائو کے باوجود دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یمن میں مسلکی بنیادوں پر ہونے والی لڑائی کی دلدل میں قدم رکھنے سے انکار کردیا تھا۔اُس وقت پارلیمنٹ نے حکومت کو تقویت دی تھی اور ہم اپنےعرب بھائیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ ایسی کوئی پیش رفت پاکستانی معاشرے کو داخلی طور پر شدید نقصان پہنچائے گی اور یہ مسلکی تصادم کی آگ میں جل اٹھے گا۔ وہ وقت تو ٹل گیا، لیکن اب یہ نئی ابتلا سامنے موجود ، اور سابق آزمائش سے زیادہ سنگین ، کیونکہ انکار کی صورت میں ہمارا عرب ملکوں کے ساتھ وابستہ مالی مفاد دائو پر لگ سکتا ہے تو اقرار کی صورت میں ملک میں شیعہ سنی تصادم کی آگ دہک سکتی ہے۔ چنانچہ عقل کہتی ہے کہ پاکستان کو چونکہ اپنی سرحدوں پر افغانستان اور بھارت کے ساتھ مسائل کا سامنا رہتا ہے اور کوئی ملک ہماری مدد کو نہیں آتا ، اس لئے ہمیں بھی مشرق ِوسطیٰ کی جنگوںسے دور رہنا چاہئے۔ دوست ممالک کی طرف سے انتہاپسندنظریات کی ترویج نے ہمارے معاشرے کو پہلے ہی ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے، اس لئے اب وقت ہے کہ ہم قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے گھر کی طرف دیکھیں۔ ہمیں مالی مفاد کی بجائے سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کی فکر کرنی چاہئے۔ –