ساجدہ کے گلے میں دوپٹہ رسی کی مانند جھولتا رہتا تھا۔ جس کو کبھی کبھار وہ اپنی کمر پر بھی باندھ لیتی تھی۔ دور سے دیکھنے پر وہ بالکل اسی سانپ کی مانند لگتا تھا جس کو میرے ماموں جان یوسف نے ہمارے پیپلز کالونی والے گھر میں ساون کے دنوں میں اپنی گز بھری لمبی لاٹھی سے مار ڈالا تھا۔ کبھی کبھی اس سانپ صورت دوپٹے میں مجھے بیکری والے دکاندار کا عکس دکھنے لگتا تھا۔ گویا کہہ رہا ہو کہ باز رہو! پیسٹریاں کاغذ کی ہیں۔۔ سجانے کو رکھی ہیں۔ ہاتھ مت بڑھانا !!!
ساجدہ کا قصہ تو چلتا رہے گا مگر سردست اسے روکنا ضروری ہے کیونکہ واقعات کا ایک بہاو ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ انیس سو اسی، اکیاسی اور بیاسی کی یادیں ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگی ہیں۔ پیپلز کالونی والے کرائے کے مکان سے پہلے، کچھ عرصہ ہم نے کیانی روڈ کے نزدیک مغل آباد والے گھر میں بھی گزارا۔ اسی گھر میں، میں نے پہلی چوری بھی کی، صرف چار برس کی عمر میں۔۔ دس روپے کا نوٹ ان دنوں شاید سو روپے یا پھر پانچ سو، ہزار کے برابر تو رہا ہی ہوگا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میری تانک جھانک کی عادت نے تاڑ لیا تھا کہ امی جان روزمرہ خرچے کے پیسے اپنے دوپٹے کے پلو سے باندھ کر کررکھتی ہیں۔ انہی دنوں میری چھوٹی بہن شازیہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ امی جان اسے سنبھالنے میں مصروف تھیں کہ میں نے نظر بچاتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے دس روپے کا نوٹ نکالا اور گھر کے نزدیک ہی موجود بڑی دکان کھوکھر جنرل اسٹور پر جاپہنچا۔ شیزان کی بوتل پینا ان دنوں میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ اب میری قسمت خراب تھی کہ اس دن دکان پر شیزان کی بوتلوں کے صرف خالی کریٹ ہی دھرے تھے ، یوں میری خواہش دھری کی دھری رہ گئی اور سمجھدار دکاندار نے ایک یا دو روپے اب مجھے یاد نہں کاٹ کر باقی رقم میرے حوالے کی اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ میں سیون اپ کی بوتل پکڑا دی۔
اس دوران گھر میں میری تلاش شروع ہوچکی تھی۔ بڑے بہن بھائی تو اسکول گئے تھے ۔ امی جان نے ساتھ والی پڑوسن خالہ صغیر سے مدد مانگی جس نے ڈھونڈتے ڈھانڈتے مجھے کھوکر جنرل اسٹور پر رنگے ہاتھوں جا پکڑا۔ ایک ہاتھ میں آٹھ یا نو روپے جو باقی بچے تھے اور دوسرے ہاتھ میں سیون اپ کی بوتل جس کا ابھی تک میں نے مشکل سے ایک گھونٹ ہی پیا تھا۔ گھر واپس پہنچتے ہی امی جان نے پہلے مجھے ڈانٹا، پھر بقایا پیسے گنے، دوپٹے کے پلو میں باندھے اور پھر جانے کیوں روتے ہوئے میرا منہ چوما اور سیون اپ کی بوتل گلاس میں ڈال کر مجھے پلانے لگیں۔ 1980 کی اس گرم دوپہر سے لیکر 2010 کے دسمبر کی ٹھٹرتی راتوں تک میری ماں نے جب بھی مجھے بازار بھیج کر اپنے لئے سیون اپ منگوائی ( امی جان معدے کی مریضہ ہیں اور پانچ برس قبل تک مسلسل روزانہ سیون اپ پیتی تھیں ) گلاس میں تھوڑی میرے لئے بھی چھوڑی اور بڑے شوق سے مجھے پیتے ہوئے دیکھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں نے امی جان کو آج تک نہیں بتایا کہ اس دوپہر میں گھر سے شیزان پینے نکلا تھا مگر ہاتھ میں سیون اپ لئے گھر واپس آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح زندگی نے پہلا سبق یہ سکھایا کہ چوری کے پیسوں سے میٹھا خریدنے نکلو گے تو ہاتھ کڑوا ،ہی آئے گا۔
( جاری ہے )