آج بھی برقرار”دبئی چلو” والا چلن

موجودہ حکومت کی ترجمانی یا دفاع میرا دردِ سر نہیں۔ اندھی نفرت کے اسیر ہوئے افراد مگر سوشل میڈیا پرتواتر سے دہائی مچائے چلے جارہے ہیں کہ حال ہی میں یورپ میں روزگار کی تلاش میں لیبیاسے یونان پہنچنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھونے والے بدنصیبوں کودرپیش آئے سانحہ کی ذمہ دار فقط یہ حکومت ہے۔ گزشتہ برس کے اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے مہنگائی کی آگ بھڑکائی۔ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی رہی۔ اس کی وجہ سے بے تحاشہ کار خانے چلانے کے لئے درکار خام مال درآمد نہیں ہوپایا۔کارخانے بالآخربند ہونا شروع ہوگئے اور ہمارے نوجوان اب بیرون ملک جانے کوبے تاب ہیں۔رزق کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اس کے علاوہ جذبات سے مغلوب ایک اور گروہ بھی ہے جومصرہے کہ نوجوانوں کوپرکشش ملازمتوں کا جھانسہ دے کر ان کی زندگیوں سے کھیلنے والے انسانی سمگلروں کی نشان دہی کے بعد انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ ایسی سزائوں کے بغیر انسانی سمگلر نوجوانوں کوبہکانے سے باز نہیں آئیں گے۔

مذکورہ بنیادوں پر جوواویلا مچایا جارہا ہے اس حقیقت کونظراندازکئے ہوئے ہے کہ ہمارے یہاں ’’دبئی چلو‘‘ والا چلن 1970ء کی دہائی کے آغازکیساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔1974ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عرب ممالک نے تیل کے حوالے سے خودمختاری اختیار کی تو نام نہاد ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کی برسات سے ان ممالک میں روزگار کے بے شمار امکانات پیدا ہوئے۔لاکھوں پاکستانیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔صحراکی تپش میں جھلستے پاکستانیوں نے اپنے لواحقین کو جو رقوم بھجیں وہ ان کے خاندانوں کوخوشحال اورمعتبر بنانے کا باعث ہوئیں۔ اس سے ایک دہائی قبل پاکستانیوں کی کثیرتعداد دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی بحالی کے عمل میں حصہ لینے کے لئے وہاں منتقل ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ناروے جیسے ممالک میں بھی پاکستانیوں نے خوشحالی کی راہیں ڈھونڈ لیں۔

خلیجی ممالک مگر اب محض تعمیراتی کاموں کیلئے درکار مزدوروں کے محتاج نہیں رہے۔یورپ کے ممالک بھی ’’یونین‘‘ میں یکجا ہونے کے بعد وہاں کے پرتگال اور بلغاریہ جیسے نسبتاََ پسماندہ ممالک کے نوجوانوں کو ’’اوپرکا کام‘‘ سرانجام دینے کے لئے ملازم رکھنے کوترجیح دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو ’’دہشت گردی‘‘ کے جنون میں مبتلا دکھانے کا عمل بھی جاری ہوگیا۔ امریکہ اور یورپ کے نسل پرست سیاست دانوں نے اس تصور کو نہایت سفاکی سے اپنا کر اسلام دشمن بیانیے تشکیل دینا شروع کردئے۔ اسلام دشمنی نے Great Replacement جیسی احمقانہ سازشی تھیوری کو یورپ میں کافی مقبول بنایا ہے۔ مذکورہ تھیوری کے مطابق مسلمان ’’جان بوجھ کر‘‘ کسی نہ کسی بہانے ہرصورت یورپ پہنچ کروہاں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل ارادہ روزگار کا حصول نہیں بلکہ بتدریج فرانس جیسے ممالک میں مسلمانوں کو ’’اکثریت‘‘ میں بدلنا ہے۔ ایسی تھیوریوں نے یورپ کی حکومت کوتارکین وطن کی بابت سنگ دل بنادیا ہے۔ وہ مختلف قوانین کے ذریعے اپنے ہاں ’’غیروں‘‘ کی آمد مشکل تر بنارہے ہیں۔غیر قانونی ذرائع سے وہاں پہنچ جانے والوں کے لئے انسانی ہمدردی کے جذبات بھی بتدریج عنقا ہوچکے ہیں۔

معاملہ موجودہ یا سابقہ حکومتوں کا نہیں۔ تلخ مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کی حکومت کے علاوہ کسی اور حکومت نے ہمارے آبادی میں قابو سے باہرہوتے اضافے کوسنجیدگی سے نہیں لیا۔ہمارے وسائل بڑھتی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے سکڑ چکے ہیں۔روزگار کے نئے ذرائع فراہم کرنے پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ہمارا تعلیمی نظام بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں اجاگر نہیں کرتا۔کتابوں کو رٹا لگا کر یاد رکھنا آپ کوڈگری تو دلوادیتا ہے مگرحقیقی معنوں میں ’’ہنر مند‘‘ نہیں بناتا۔

’’ہنر‘‘ کی ہمارے یہاں تہذیبی اعتبار سے عزت کی ویسے بھی روایت ہی قائم نہ ہوپائی۔ ’’ہنر مند‘‘ بلکہ’’کمّی‘‘ پکارا جاتا ہے جس کے پیشے کوتحقیرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔بارہا امریکہ یا برطانیہ میں پیٹرول پمپ وغیرہ پرمجھے کئی پاکستانی نوجوان ملے جو ہمارے تناظر میں خوشحال تصور ہوتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدین نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیج تودیا مگراس قابل نہیں تھے کہ باقاعدگی سے ان کی فیس اور رہن سہن کا خرچہ برداشت کرسکیں۔ ایسے نوجوان چھوٹی اور وقتی چاکری سے مذکورہ اخراجات کا بندوبست یقینی بناتے ہیں۔وہی نوجوان مگر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے لئے کسی پیٹرول پمپ پر چندگھنٹوں کے لئے کام کرنا اپنی تحقیر محسوس کرے گا۔’’کمّی‘‘ سے منسوب تحقیر اسے مطلوبہ ہمت وجرات سے محروم رکھتی ہے۔

اتوار کی شب اتفاق سے میں ’’ہم ٹی وی‘‘ کے لئے ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار صاحبہ کے شو کا مہمان تھا۔ سانحہ یونان سے براہ راست متاثر ہوئے ایک صاحب نے بھی اس پروگرام میں گفتگو کی۔ ان کی بدولت علم ہوا کہ ان کے دو قریبی عزیزوں نے یورپ پہنچنے کے لئے ایجنٹوں کو فی کس 23لاکھ روپے ادا کئے تھے۔ 23لاکھ روپے پاکستان کے مخصوص حالات میں خاطر خواہ حد تک معقول رقم ہے۔ اس رقم سے بآسانی بے تحاشہ چھوٹے کاروباروں میں سے کوئی ایک شروع کیا جاسکتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ ہماری حکومت یا غیر سرکاری ادارے نوجوانوں کو منظم انداز میں ایسے دھندوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب کیوں نہیں دے رہے کہ جو نہ صرف 20لاکھ کے سرمایے سے کسی کاروبار کا آغاز کرنے والوں کو بتدریج ’’باعزت وخوشحال‘‘ ہوا دکھائے اور اس کا چلایا کاروبار دیگر نوجوانوں کے رزق کا بھی سبب بنے۔

یونان میں ہوئے سانحے جیسے واقعات پرسیاپا فروشی میری دانست میں سفاکی کے سوا کچھ نہیں۔ہمیں نہایت سنجیدگی سے اپنے سماج کے ایسے رویوں کی نشاندہی کے بعد ان سے نجات پانے کو سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی جو ہمارے نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کی تڑپ میں مبتلا نہ کریں۔ ہمارے پالیسی سازوں کو تخلیقی انداز میں پاکستان ہی میں روزگار کے نئے امکانات تشکیل دینا ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے