خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے چار ماہ کا بجٹ محض وفاق کے خالی دعوﺅں، لاحاصل امیدوں اور الفاظ کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس بجٹ میں سرکاری ملازمین بالخصوص سیکرٹریٹ کے ملازمین کو بھرپور طریقے سے نوازا گیا ہے۔ چار ماہ کے اس بجٹ کا کُل حجم 462 ارب 42 کروڑ روپے ہے جس میں 75 فیصد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں خرچ ہو جائے گا جبکہ بقیہ 25 فیصد ترقیاتی فنڈ کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ 15 فیصد ملنے کا کوئی امکان نہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن کے لئے بجٹ میں 350 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح ترقیاتی بجٹ کا کُل تخمینہ 112 ارب 38 کروڑ ہے جس میں سے بندوبستی اضلاع کے لئے 92 ارب اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بندوبستی اضلاع کے 92 ارب میں سے غیر ملکی امداد کے 33 ارب اور پی ایس ڈی پی کے تین ارب روپے کا وفاق کی جانب سے ملنے کی کوئی امید نہیں۔ جبکہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈ کے 20 ارب روپے میں سے اگر پانچ یا چھ ارب بھی جاری ہو جائیں تو یہ صوبائی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
یاد رہے کہ مالی سال2022-23ءمیں قبائلی اضلاع کے لئے 55 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام منظور ہوا تھا۔ وفاق نے صرف 11 ارب 50 کروڑ کی ادائیگی کی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد اضافے کے باعث صوبائی حکومت کو 105 ارب مزید اخراجات جاریہ کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ صرف چار ماہ کے دوران صوبائی حکومت کو ان اضافی تنخواہوں کے باعث 29 ارب 67 کروڑ کی اضافی ادائیگی کرنا ہو گی۔ سرکاری ملازمین میں سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے چار ہزار سے زائدملازمین کو بھی سوفیصد بنیادی اضافی تنخواہ کے سیکرٹریٹ پرفارمنس الاﺅنس سے نوازا گیا ہے۔ اسی طرح مقابلے کے امتحان میں پاس ہونےوالے اعلیٰ سرکاری ملازمین اگر اب او ایس ڈی ہوگا تب بھی اسے 150 فیصد ایگزیکٹوالاﺅنس ملتا رہے گا۔ یوں سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے پی ایم ایس، پی اے ایس اور ایگزیکٹو گروپ کے ملازمین کو 250 فیصد اضافی تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے گی۔
مالی سال 2022-23 بجٹ کا حجم 1332ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن اخراجات کا کل حجم 815 ارب روپے ہے جس کا مطلب ہے کہ بجٹ میں 500 ارب روپے سے زائد کے اضافی اعداد و شمار جمع کئے گئے ہیں۔ مشیر برائے خزانہ حمایت اللہ کہتے ہیں کہ مالی مشکلات کے باعث 43 فیصد اخراجات ممکن نہ ہو سکے۔ اسی طرح آمدن کا 36 فیصدحصہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے مالی سال2022-23ءکو سرپلس بجٹ قرار دیا تھا لیکن پورا بجٹ چار ارب روپے کے خسارے کا ہے یعنی صوبائی حکومت کی آمدنی 811 ارب روپے رہی اور اخراجات 815 ارب روپے رہے۔ وفاق نے ضم شدہ اضلاع کے فنڈ کے نام پر میٹھی گولیاں دی ہیں۔ محکمہ خزانہ کے مطابق دس سال تک ضم اضلاع کی مالیات اخراجات کی ذمہ داری وفاق کی ہے لیکن خیبر پختونخوا کو ضم شدہ اضلاع میں 15 ارب روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑا اور خدشہ ہے کہ یہ خسارہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں چالیس ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ پن بجلی منافع اور بقایاجات کی مد میں وفاق نے صوبے کو 62 ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی لیکن گذشتہ 12 ماہ کے دوران صرف پانچ ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ نگران کابینہ کے مشیر برائے خزانہ حمایت اللہ کہتے ہیں کہ ضم شدہ اضلاع کے لئے اگر وفاق نے پورے فنڈ نہ دئیے تو ترقیاتی فنڈ کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں خرچ کرنا پڑے گا۔
بجٹ کا سب سے اہم پہلو نگران کابینہ کی جانب سے نئی سکیموں کاآغاز ہے۔ محکمہ ترقیاتی و منصوبہ بندی کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ نگران وزیر برائے پی اینڈ ڈی حامد شاہ بجٹ سے قبل نئے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز پربضد تھے لیکن خیبر پختونخواکی بیوروکریسی نے واضح انکار کر دیا۔ بجٹ میں کُل جاری سکیموں کی تعداد دو ہزار 288 سے کم ہو کر دو دہزار 191 ہو گئی ہے۔ نگران کابینہ کے ایک وزیر کے مطابق لوکل اے ڈی پی کے تحت چار ماہ کے دوران وفاق نے پچپن ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے لیکن مشکل ہے کہ بیس ارب روپے بھی دئیے جائیں کیونکہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران نگران وزیراعلیٰ اعظم خان نے وزیراعظم سے نہیں بلکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارسے پانچ مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وفاقی وزیر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر نگران وزیراعلیٰ نے کال بندکرتے ہوئے کہا ’’بس یہ اوقات ہے ہماری۔‘‘