استنبول میں دھماکہ داعش کے خود کش حملہ آورنے کیا

ترکی میں حکام کے مطابق استنبول میں سیاحت کے لیے مقبول علاقے میں ایک ’خودکش دھماکے‘ میں کم ازکم دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جب کہ ترک صدر کے مطابق خودکش بمبار کے روابط شام سے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں کم از کم نو کا تعلق جرمنی سے ہے۔

یہ دھماکہ مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے سلطان احمد کے علاقے میں شہر کی تاریخی نیلی مسجد جامعہ سلطان احمد کے قریب ہوا۔

استنبول کے گورنر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 15 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

turkey6

ترک صدر رجب طیب اردوغان کے مطابق سلطان احمد کے علاقے میں ہونے والے خودکش بمبار کے روابط شام سے تھے۔

حملے کی مذمت کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترکی ’خطے میں دہشت گرد گروہوں کا سرفہرست ہدف‘ تھا اور ان کا ملک ’ان سب کے خلاف یکساں طور پر لڑ رہا ہے۔‘

ترک صدر نے جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل کو فون کر کے مرنے والے جرمن شہریوں کی تعزیت کی۔

ایک عینی شاہد مراد مناز نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ خودکش حملہ تھا۔ میں وہاں گیا اور سب کچھ دیکھا، پھر اپنے ہوٹل واپس آگیا۔ وہاں افراتفری تھی۔ ہر کوئی ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔‘

ترکی کے نائب وزیراعظم کی مطابق نعمان کورتولموش کا کہنا ہے کہ دھماکے میں زیادہ تر غیرملکی افراد نشانہ بنے ہیں۔

ترک نائب وزیراعظم کے مطابق خودکش حملہ آور کے جسم کے اعضا سے اس کی شناخت ہوگئی ہے اور وہ سنہ 1988 میں شام میں پیدا ہوا تھا۔

ان کے کہنا تھا کہ دو زخمیوں کے حالت تشویش ناک ہے۔

گورنر کے مطابق دھماکے کے بعد پولیس نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے جبکہ دھماکے کی نوعیت کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے دھماکے کا نشانہ بننے والوں کے بارے میں ’شدید خدشات‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی کے سیاح حملے میں متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج استنبول نشانہ بنا، پیرس نشانہ بن چکا ہے، تیونس نشانہ بن چکا ہے، انقرہ اس سے پہلے نشانہ بن چکا ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی ایک بار پھر اپنا بھیانک اور غیرانسانی چہرہ دکھا رہی ہے۔‘

TURKEY-BOMB-BLAST-SURUC_1437413837997788

دوسری جانب جرمنی وزارت خارجہ نے استنبول میں اپنے شہریوں کو پرہجوم مقامات سے دور رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

ناروے کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس کا ایک شہری ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔

استنبول میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار مارک لون کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ترکی کی انتہائی بائیں بازو کے ایک گروہ کی طرف سے تشدد کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں جبکہ ترکی کی سرکاری فورسز اور پی کے کے نامی کرد تنظیم کے جنگجوؤں کے درمیان ملک کے جنوبی مشرقی علاقوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔

ترکی میں گذشتہ مہینوں میں ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار حکومت کی طرف سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو ٹھہرایا گیا تھا۔

گذشتہ سال اکتوبر میں دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے ایک دھماکے میں سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جبکہ اس سے قبل جولائی میں شام کی سرحد کے قریب ایک اور دھماکے میں 30 افراد مارے گئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے