جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی چھوٹے شہروں، گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے صحافی خبر دینے درست یا غلط خبر کی پہچان رکھنے یا اس حوالے سے کسی بھی معلومات سے لا علم ہیں۔
اسی طرح یونیورسٹی میں طلبہ کو صرف کتابوں میں سب پڑھایا جاتا ہے لیکن عملی طور پر کوئی بھی ٹولز یا میڈیا سیفٹی کے بارے میں نہیں سکھایا جاتا ہے۔
محمد شیرازی دس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور پانچ سال سے نارووال میں سنو ٹی وی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جہاں وہ سماجی علاقی اور ضلعی خبریں کور کرتے ہیں۔
لیکن آج تک انہوں نے ایسی کوئی بھی تربیت نہیں لی جس میں ان کو خبر دینا یا کسی ہنگامی صورتحال میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا سکھایا گیا ہو۔
شیرازی بتاتے ہیں کہ، "کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی ادارے کی خبر دیتے وقت بہت سی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کافی پریشر بھی آتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس صورت حال میں کس سے رابطہ کریں یا کیا کریں”
اسی طرح فلڈ کی کوریج کے دوران بھی کوئی ایسا حفاظتی سامان ساتھ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی بتایا گیا کہ ہنگامی صورتحال کی دوران کیا کرنا ہے. ہمیں ایک شہر سے دوسرے شہر کتنے کلو میٹر طے کر کے اپنا کام کرنا پڑتا ہے”
اسی طرح چھوٹے شہروں میں رہنے والے مختلف چینل سے وابستہ صحافیوں کو جینڈر سینسٹو رپورٹس کو کوور کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سکھایا گیا۔
اشتاق ربانی نارووال میں 24 نیوز سے وابستہ ہیں جہاں وہ ضلح کی خبریں کوور کرتے ہیں”۔ وہ بھی پندرہ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں لیکن اتنے سالوں میں انہوں نے آج تک ایک بھی ایسی تربیت ورکشاپ نہیں لی جس میں ان کو صحافت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں سکھایا گیا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی تعلیم و تربیت ہونا لازمی ہے کیوں ایک خبر تو گراس روٹ پر بیٹھا صحافی ہی دیتا ہے لیکن اس کو خبر دینے یا اس کے مطلق کچھ بھی نہیں سکھایا جاتا ہے”۔”جس کی وجہ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور ہم سے کافی غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں”۔
چھوٹے شہروں میں فیک نیوز ایک معمول بن رہا ہے
محمد رمضان نارووال میں پرنٹ میڈیا صداے وطن کے لئے پانچ سال سے کام کر رہے ہیں۔ رمضان کے مطابق شہروں میں پرنٹ میڈیا پر اکثر خبریں غلط ہوتی ہیں یا ایک ہی خبر کو کاپی کر کے مختلف اخبارات میں لگا دیا جاتا ہے۔
اور بہت ساری خبریں انتظامیہ کے حق میں لگائی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں چھوٹے علاقوں میں صحافیوں کی تربیت وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ اصل خبر سب سے پہلے یہاں سے نکلتی ہے۔اگر کوئی نیوز فیک ہے تو اس کا اثر پوری کمیونٹی پر پڑتا ہے اور معاشرے میں نفرت اور شدت پسندی بھرتی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے صدر علی زوہیب کا کہنا ہے کہ "چھوٹے شہروں میں صحافییوں کی تربیت ہونا اور ان کو صحافی ذمہ داریوں سے اگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ان علاقوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے اور مین سٹریم میڈیا میں بھی ایسے لوگوں کو چھوٹے علاقوں سے رکھا جاتا ہے جن کو کوئی بھی آگاہی نہیں ہوتی ہے۔ ان کو نہ تو خبر بنانا سیکھایا جاتا ہے تو نہ ہی بتایا جاتا ہے کہ خبر کی حساسیت کیا ہے”۔
وہ کہتے ہیں کہ دیہاتی علاقوں میں بہت سے صحافیوں کو قتل کی خبر کیسے دینی ہے اس بارے میں بھی نہیں سکھایا جاتا ہے۔
اگر کہیں قتل ہوجاے تو یہ خبر ہوتی ہے کہ قتل ہوگیا لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ قتل کو کیسے فائل کرنا ہے یا کیسے رپورٹ تیار کرنی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹر کو یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ اسے کسی بھی ایمرجنسی صورت حال میں کیا کرنا ہے۔ اور یہ سب ذمہ داری میڈیا کے مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ جن کا کام ہے کہ وہ اپنے گراس روٹ پر بیٹھے صحافی کی تربیت کریں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے علاقوں میں فیک نیوز بھی چلتی ہے اور بلیک میلنگ بھی۔
ضلع نارووال کے پریس کلب کے سیکٹری اعظم خاور کا کہنا ہے کہ نارووال میں صحافیوں کی تربیت کے لئے کبھی اقدمات نہیں کیے گے اور نہ ہی پریس کلب میں کوئی تربیت کروائی گئی یا کچھ بتایا گیا۔ انہوں نے بتایا گیا کہ اس کی بڑی وجہ پریس کلب پر اجارہ داری ہے۔ اور صحافیوں کے مسائل کو سیریس نہ لینا ہے۔
اسی طرح نارووال انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسر محمد احسان کا کہنا ہے کہ چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی تربیت لازمی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ "یہ افسوس کی بات ہے کہ مقامی سطح پر ایسے کوئی بھی اقدمات نہیں کیے گے ہیں۔ ہم کوشس کر رہے ہیں کہ ایسی کوئی تربیت کروائی جائیں اور مقامی سطح پر ایسے فنڈز جاری ہوں جس کو صحافیوں پر خرچ کیا جائے ۔ اور ان کو میڈیا کے باقاعدہ اصولوں کے بارے میں بھی سکھایا جائے۔