مجھے بہت دفعہ یورپ اور امریکہ جانے کا اتفاق ہوا ہے۔مغربی ممالک سے جب بھی واپسی ہوتی ہے کچھ لوگ وہاں کے بارے میں کچھ ناگفتنی باتیں سننے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا ابھی گزشتہ روز ایک بزرگ تشریف لائے وہ اس وقت 80۔85کے پیٹے میں ہیں لیکن ابھی تک باقاعدگی سے خضاب لگاتے ہیں جو انہیں زیادہ مہنگا نہیں پڑتا کیونکہ خضاب کے لئے بال درکار ہوتے ہیں جو ان کے سر پر اب گنتی ہی کے ہیں، البتہ مونچھیں پوری ہیں اور وہ ہمہ وقت اپنی ان سالم مونچھوں کو تائو دینے میں لگے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی منگنی کی تقریب بہت دھوم دھام سے ہوئی، دراصل ان کی دوسری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا اور انہیں روٹی کی بہت تکلیف تھی چنانچہ احباب کے اصرار پر اپنی بیوی کے چالیسویں کے اگلے روز انہیں تیسری شادی کے لئے ہاں کرنا پڑ گئی۔
بہرحال انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے ہی پہلا سوال یہی کیا کہ سنائیں دورہ یورپ کیسا رہا؟ میں نے کہا ’’کون سا دورہ؟ میں تو کئی ماہ سے ملک سے باہر نہیں گیا تاہم میں آپ کے سوال کا جواب بعد میں دوں گا، پہلے آپ میرے مشورے پر عمل کرتے ہوئے منگنی کو زیادہ طول نہ دینے کا وعدہ کریں کیونکہ زندگی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ بولے’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں،الحمدللہ شگفتہ کی صحت بہت اچھی ہے‘‘ میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی اور کہا قبلہ ملک صاحب ! میں شگفتہ کی نہیں آپ کی بات کر رہا ہوں۔ اس پر وہ رنجیدہ خاطر ہوئے اور بولے ’’ مجھے کیا ہوا ہے؟میں ٹھیک ٹھاک ہوں، میری کاٹھی بھی بہت مضبوط ہے‘‘۔میں نے موضوع کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھا چنانچہ ان کے سوال کا وہی جواب دیا جو میں دوستوں کو دیتا چلا آ رہاتھا۔
میری بات سن کر بولے ،ایک بات بتائیں، میں نے کہا پوچھیں بولے سنا ہے یورپ میں فحاشی بہت ہے ؟میں نے جواب دیا آپ نے صحیح سنا ہے لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے جواب سے ان کی تسلی نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا میں نے سنا ہے وہاں لڑکیاں عریاں پھرتی ہیں؟میں نے عرض کیا ملک صاحب !خدا کا خوف کریں انہوں نے تھوڑا بہت لباس ضرورپہنا ہوتا ہے۔ بولے ’’میں نے سنا ہے کہ انہیں گرمی بہت لگتی ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا، جی ہاں، اس پر انہوں نے گرمی کھا کر کہا ،یہ کیا آپ میرے ہر سوال کا ہاں ناں میں جواب دے رہے ہیں، کچھ تفصیل تو بیان کریں۔ میں سمجھ شروع ہی میں گیا تھا کہ قبلہ مجھ سے کیا سننا چاہتے ہیں مگر میں ان کی خواہش پوری کرنے کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ میں ان کی ’’پارسائی‘‘ انجوائے کر رہا تھا، میں نے کہا، ملک صاحب !بات یہ ہے کہ ہماری اور ان کی اخلاقی قدروں میں بہت فرق ہے چنانچہ انہیں ہمارے رویے اور ہمیں ان کے رویے عجیب لگتے ہیں۔
ملک صاحب بولے ’’میں یہی تو جاننا چاہتا ہوں کہ ان کے رویے کیا ہیں ؟میں نےسنا ہے وہاں عریاں کلب ہیں،وہاں ساحل سمندر پر بڑے مخرب اخلاق منظر ہوتے ہیں وہاں تو میں نے سنا ہے کہ سڑکوں کے کنارے بھی . . . .‘‘میں نے ملک صاحب کو ٹوک دیا،جی ہاں آپ نے یہ سب صحیح سنا ہے لیکن میں آپ کو کچھ ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جو ممکن ہے آپ نے نہ سنی ہوں۔یہ سن کر ملک صاحب کا چہرہ کھل اٹھا وہ میرے اور قریب ہو گئے اور سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’میں دروازہ بند کر دوں؟‘‘اور پھر میرا جواب سنے بغیر انہوں نے اٹھ کر نہ صرف دروازہ بند کر دیا بلکہ کنڈی بھی لگا دی اور بے تابی سے بولے ’’ذرا جلدی بتائیں وہاں اور کیا کچھ ہوتا ہے ‘‘میں نے کنڈی کھولی اور ملازم کو آواز دی ’’یار ملک صاحب آئے ہیں ذرا چائے تو پلائو‘‘۔ ملک صاحب بولے ،لعنت بھیجیں چائے پر، آپ بات سنائیں، ملازم چلا گیا تو میں نے سگریٹ کا پیکٹ میز پر سے اٹھایا۔
ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں سے لگایا اور لائٹر سے سلگانے لگا تو ملک صاحب نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہا ’’ یہ سگریٹ آپ بعد میں نہیں پی سکتے تھے ؟‘‘میں نے عرض کی ملک صاحب !ذرا صبر کریں، میں کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا اور پھر سگریٹ سلگا کر کہا میں آج آپ کو یورپ کے مخرب اخلاق معاشرے کی وہ باتیں بتائوں گا جو لوگ نہیں بتاتے۔ یہ سن کر ملک صاحب کی باچھیں کھل گئیں اور بولے واقعی؟ میں نے کہا ’’ہاں‘‘ اور پہلی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے، دوسری بات یہ کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیتے ہیں، تیسری بات یہ کہ ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہیں، چوتھی یہ کہ وہاں کوئی جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹتا۔
اس دوران ملک صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور دروازہ کھول کر باہر جاتے ہوئے کہا ’’آپ لوگ باہر کا ایک چکر کیا لگا لیتے ہیں ان بے حیائوں کے قصیدے پڑھنے لگتے ہیں ،میں آپ سے یہ سب کچھ سننے نہیں آیا تھا لیکن آپ کیا سمجھتے ہیں آپ ان کی فحاشی اور عریانی کے قصوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے،یہ ممکن نہیں میں آپ کو ابھی وہاں کے کچھ میگزین بھجوا رہا ہوں جو میں نے بچوں سے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔آپ رات کو کمرہ بند کرکے اس میں شائع شدہ تصویریں دیکھیں تاکہ آپ بھی ان کے قصیدے پڑھنے کی بجائے ان بدکاروں پر لعنت ملامت کر سکیں‘‘۔ اب میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تھا چنانچہ میں نے پھیپھڑوں کی پوری قوت سے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئے صوفے کے ساتھ ٹیک لگا دی ۔
بشکریہ جنگ