"معمول ” کے حالات ہوں بقول ٹی وی چینلز اور آپ اسلام آباد کے رہائشی بھی ہوں تو اچھا، سچا اور کارآمد کالم لکھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی لگا . پھر زندگی کو ڈی کلٹر کرنے کے لئے ایک پرانی الماری کو ڈی کلٹر کرنا شروع کیا تو ہائی سکول کے زمانے کی ایک آٹو گراف بک برآمد ہوئی. گھر میں آنے جانے اور ملنے جلنے والوں میں بہت سے ستارے تھے، زیادہ کا تعلق شعرو ادب اور آرٹ سے تھا.
اس آٹوگراف بک میں نمی تھی اور قلم سے لکھی ہوئی روشنائی پھیل گئی تھی . بال پائنٹ والے کچھ سلامت تھے .ہر آٹو گراف سے جڑی ایک جانی مانی شخصیت تھی ، جن کے کام اور نام سے ایک دنیا واقف ہے اور ایک انسان بھی جن سے کوئی کوئی ہی متعارف ہے .
آج میں کچھ آٹوگرافس آپ کے سامنے لا رہی ہوں .
سلیم احمد :
بہت اچھے شاعر اور ادیب تھے . پی ٹی وی کے لئے ان کی ڈرامہ سیریز تعبیر ہم نے اپنے بچپن میں دیکھی اور پاکستان کی مزید قدر پا لی. نئی نسل شائد ہی ان کے نام اور کام سے واقف ہو. کتنا اچھا ہوتا کہ تعبیر کو دوبارہ نا صرف پی ٹی وی بلکہ بڑے نجی ٹی وی چینلز پر آج کے حالات میں جب پاکستان سے محبّت قریب قریب ایک جرم ہی ہے یا سزا تو بنا دی گئی ہے، یہ سیریز نئی نسل اور حکومتی اراکین کو روشناس کرائی جاتی .
سلیم احمد انکل نے میری آٹوگراف بک میں لکھا تھا کہ ” خوبصورتی سے دیکھو، خوبصورتی سے سوچو اور خوبصورت بن جاؤ”.
وہ کراچی کے رہائشی تھے اور اسلام آباد کسی کام سے آتے تو ہمارے گھر ٹھہرتے تھے . وہ 27 نومبر 1927 کو بارہ بنکی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے اور 1 ستمبر 1983 کو نیند میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے .
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
جوش ملیح آبادی :
ان کے حوالے سے ایک کالم "جوش ملیح آبادی اور اسلام آباد کا سلوک : کچھ دھندلی یادیں ، فروری 22, 2024 کو چھپ چکا ہے.ان کا آٹوگراف بھی شامل تھا .
جوش ملیح آبادی اور اسلام آباد کا سلوک : کچھ دھندلی یادیں
جس کو دیکھو وہ مسکراتا ہے
کون بےکس پر رحم کھاتا ہے
قمر جمیل :
قمر جمیل (پیدائش: 10 مئی، 1927ء – وفات: 27 اگست، 2000ء) پاکستان کے معروف نقاد، صحافی، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید تر رجحانات کے بانی تھے۔ بہت اچھے مصور بھی تھے . میرے اردو شاعری کے مجموعے جو نثری نظموں کا مجموع ہے ( مجھے محبّت سے ڈر لگتا ہے ) اور ١٩٩٦ میں شائع” ہوا ،اس میں ان کا گراں قدر تبصرہ بھی شامل ہے. انھوں نے آٹوگراف میں اپنی ایک نظم ” دعا” لکھی .
یہ دعا ہے کوئی گلہ نہیں
میرے ہمنشین میری زندگی
وہ گلاب ہے جو کھلا نہیں
میں یہ سوچتا ہوں خدا کرے
تمہیں زندگی میں وہ سکھ ملے
جو مجھے کبھی ملا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
” یہ دعا ہے کوئی گلہ نہیں…. ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے کئی بار نشر ہوتی تھی، ایس بی جان نے گائی تھی . ان کے شاگردوں میں نامور اداکار طلعت حسین بھی شامل تھے اور ان سے بھی ان کے توسط ملاقات ہوئی تھی اور آٹوگراف بھی لیا تھا –
زاہدہ حنا آنٹی اور انکل جون ایلیا :
ان کے نام ایک ساتھ اس لئے لکھے کہ میں نے ان کو ایک ساتھ دیکھ تھا. یہ میرے سب سے چھوٹے چچا سلطان صدیقی کے کراچی والے گھر میں ١٩٨١ میں تشریف لائے تھے . ہم لوگ اپنے بڑے پھوپھا کے اچانک انتقال پر ان دنوں کراچی گئے تھے.
جون انکل بہت مختلف انسان تھے اور کنونشنل معیار پر جیسا کہ اب ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ نا اچھے باپ اور نا ہی اچھے شوہر ثابت ہوئے . آنٹی بہار کی ہیں اور ان کی محبت بھی دیگر محبت بھری شادیوں کی طرح ناکام ہوئی .
زاہدہ حنا کے اپنے بڑے ادبی قد اور بے مثل جدو جہد کو شائد جون انکل کے چکا چوند رومانوی تصور اور مقبول عام کلام نے شائد گرہن لگا دیا . آنٹی کی تعریف کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں . فیمنسٹ بطور فیشن کہنا آسان ہے مگر ایک فیمنسٹ عورت بن کر رہنا اور اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنا بہت کٹھن ہے .
اچھے ادیب ضروری نہیں کہ اچھے انسان بھی ہوں. اس کی ایک مثال تو وہ نامور شاعر ہے جس کے ہاتھوں میں بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور اس کا نام ظاہر کیے بغیر انگریزی اور اردو کالمز میں اپنے ساتھ زندگی کی اس بد ترین زیادتی کا ذکر کر چکی ہوں.
اچھے ادیب ضروری نہیں کہ فیمنسٹ بھی ہوں . بلکل اسی طرح جس طرح انسانی حقوق کے کارکن اور لیڈران کوئی ضروری نہیں کہ تمام مظلوم انسانوں کے لیے آوازبنیں، قدرت کی تخلیقی اور اخلاقی تقسیم بہت نرالی ہے اور عوام اور نظام کے فاصلوں کی فصیل تو اور بھی نرالی ہے اور مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی .
—————-
ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم/بلاگس اور کتابیں لکھتی ہیں. مشکل موضوعات پر وکھری باتیں کرتی ہیں ،لبرل ہیں ، فیمنسٹ ہیں اور پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ، تولیدی صحت ، میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں. تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں.وہ سچ کے ہمراہ ہونے والی مفاہمت اور عزت کے ساتھ قائم ہونے والے امن کی آرزومند رہتی ہیں۔ قصیدہ گوئی سے نابلد ہیں.