ہم اگر کچھ بھی نہ کریں تو بھی ہم اس میں جدت لا سکتے ہیں
میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا ہوں لہٰذا ہر قسم کے احتجاج اور مظاہرے سے بچ جاتا ہوں‘ احتجاج کے دنوں میں چپ چاپ گھر میں محصور ہو جاتا ہوں‘ کتابیں پڑھتا ہوں‘ انٹرنیٹ اور کیبل برقرار رہے تو فلمیں دیکھ لیتا ہوں اور جم بھی چند قدموں کے فاصلے پر ہے‘ میرے دو گھنٹے وہاں بھی گزر جاتے ہیں چناں چہ مشکل دن بڑی سہولت کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘ میں 15 برس سے اس علاقے میں ہوں‘ اس دوران یہاں کافی شاپس‘ اعلیٰ درجے کے ریستوران اور شاپنگ سینٹرز کھل گئے ہیں‘ ضرورت کی تمام اشیاء یہاں سے مل جاتی ہیں‘ اﷲ نے رحم کیا اور مجھے دفتر بھی گھر کے قریب دے دیا‘ ہنگاموں کے دنوں میں اسٹاف غائب ہو جاتا ہے لیکن ہم جیسے تیسے کام چلا لیتے ہیں‘ فائنل کال کے دن بھی اسی سہولت کے ساتھ گزر رہے تھے۔
میں 26 نومبر کی شام گھر کے قریب کافی شاپ میں بیٹھا تھا‘ کافی شاپ گاہکوں سے بھری ہوئی تھی‘ اچانک منیجر آیا‘ اس نے تالی بجاکر سب کو متوجہ کیا اور اعلان کیا’’ ہم کافی شاپ بند کرنے لگے ہیں‘ ہمارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں‘ آپ پلیز اپنے ڈرنکس مکمل کر لیں‘‘ میں نے منیجر سے اعلان کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہو گئے ہیں اور ہم نے ایس او پیز بنا رکھے ہیں‘ ہم ایسی صورت حال میں شاپ بند کر دیتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن مظاہرین تو ہم سے تین کلومیٹر دور ہیں‘ یہ یہاں تک نہیں آ سکیں گے‘‘ اس کا جواب تھا ’’آپ کی بات درست ہے لیکن یہ پوری مارکیٹ کا فیصلہ ہے۔
پانچ منٹ میں ساری مارکیٹ بند ہو جائے گی‘ ہم اپنی مشینیں‘ کرسیاں اور قیمتی چیزیں تہہ خانے میں رکھیں گے اور خود پچھلے دروازوں سے نکل جائیں گے‘‘ میں نے پھر پوچھا ’’لیکن کیوں؟‘‘ اس کا جواب تھا’’یہ فیصلہ حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ ہماری پراپرٹی اور جانیں دونوں محفوظ رہ سکیں‘‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اسٹاف نے مشینیں‘ سیف‘ کمپیوٹراور کافی کے جار نکالے اور اٹھا کر تہہ خانے میں چلے گئے‘ مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کافی شاپ کے تین دروازے تھے‘ شیشے کے دروازے کے باہر جالی دار دروازہ تھا اور اس کے بعد سالڈ لوہے کا دروازہ تھا‘ اسٹاف نے تینوں دروازے بند کر دیے جس کے بعد شاپ مکمل طور پر محفوظ ہو گئی‘ اسٹاف خود بھی تہہ خانے میں چھپ گیا۔
میں پلازے سے باہر نکلا تو پوری مارکیٹ میں ہوکا عالم تھا‘ وہاں کوئی بندہ تھا اور نہ بندہ نواز‘ سوال یہ ہے کیا ہماری مارکیٹ کسی نے بند کرائی تھی‘ اس کا سادہ جواب ہے جی نہیں‘یہ فیصلہ مارکیٹ کے لوگوں نے خود کیا تھا‘ ان لوگوں نے 2022 میں فیصلہ کیا تھا کسی بھی مشکل صورت حال میں ہم نے پانچ منٹ میں پوری مارکیٹ بند کر دینی ہے‘ اس فیصلے کے بعد سب نے مل کر اس کا ایک فارمولا بنا لیا چناں چہ جوں ہی حالات خراب ہوتے ہیں یہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر محفوظ کرتے ہیں‘ تمام لائیٹس بند کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دو سال سے چل رہا ہے۔
یہ بندوبست صرف مارکیٹس تک محدود نہیں بلکہ شہر کے نوے فیصد شہریوں نے بھی اپنے ایس او پیز بنا لیے ہیں‘ لوگوں نے اپنے بچوں کو محفوظ ٹھکانے بتا دیے ہیں‘ شہر میں جوں ہی احتجاج کا اعلان ہوتا ہے بچے اسکولوں سے نکل کر قریب ترین ٹھکانوں میں چلے جاتے ہیں اور والدین چند گھنٹے بعدانھیں وہاں سے لے لیتے ہیں‘ لوگوں نے اسپتال اور ائیرپورٹس تک پہنچنے کے متبادل راستے بھی بنا لیے ہیں‘ میرا ڈرائیور مجھے پورے بند شہر سے گزار کر وقت پر اسٹوڈیو لے جاتا ہے اور وہاں سے نکال کر واپس بھی لے آتا ہے۔
لوگ احتجاج سے پہلے گاڑیوں میں پٹرول بھرا لیتے ہیں‘ بجلی اور روشنی کا بندوبست کر لیتے ہیں اور پندرہ بیس دنوں کا راشن بھی بھر لیتے ہیں اور لوگوں نے اپنی حفاظت کے انتظامات بھی کر لیے ہیں چناں چہ اسلام آباد کی آبادی جیسے تیسے یہ دن گزار لیتی ہے لیکن اب سوال یہ ہے اگر عام لوگوں اور چھوٹے دکان داروں نے دھرنوں اور احتجاجوں سے بچنے کے طریقے وضع کر لیے ہیںتو وزارت داخلہ‘ اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر آفس آج تک ایسی صورت حال سے نبٹنے کا کوئی ٹھوس بندوبست کیوں نہیں کر سکا‘ اسلام آباد میں 2014 میں پہلا بڑا‘ جامع اور اسٹیبلشمنٹ بیسڈ حملہ ہوا تھا‘ عمران خان مظاہرین لے کر لاہور سے نکلا اور 126 دن اسلام آباد بیٹھا رہا اور اسے ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی‘ یہ وہ دور تھا جب پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہاؤس‘ پی ٹی وی اور سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا جب کہ 31 اکتوبر 2016 کو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے پہلی بار صوبے کے سرکاری وسائل کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولا اور ریاست کو پہلی بار ریاست کے وسائل کا مقابلہ کرنا پڑا اور پھر اس کے بعد دس سال تک وفاق پر حملے ہوتے رہے۔
عمران خان کے دور میں بھی ٹی ایل پی‘ مولانا فضل الرحمن اور سندھ حکومت نے اسلام آباد پر چڑھائی کی‘ یہ چڑھائیاں منظم اور خوف ناک تھیں اور پھر عمران خان نے 2022 کے بعد مسلسل چاند ماری شروع کر دی‘ ان کے پاس اس زمانے میں پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے وسائل تھے‘ یہ ان وسائل سے اندھا دھند اسلام آباد پر چڑھائی کرتے رہے‘ اسلام آباد کی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کے سیکھنے کے لیے یہ تجربات کافی تھے لیکن افسوس حکومت نے ان دس برسوں میں احتجاج سے نبٹنے کے لیے کوئی سسٹم نہیں بنایا‘ ہمارے پاس رہ سہہ کر صرف پانچ آپشن ہیں۔
حکومت سارا دن مظاہرین کو دھمکیاں دیتی رہے ہم اٹک کا پل پار نہیں کرنے دیں گے‘ کٹی پہاڑی سے گزر کر دکھاؤ‘ اگر مرد کے بچے ہو تو 26 نمبر چونگی پر آ کر دکھاؤ اور ڈی چوک میں کسی کو قدم نہیں رکھنے دیں گے وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا حکومت پنجاب اور سندھ سے پولیس کے دستے منگوا لے‘ پولیس ناکام ہو جائے تو رینجرز اور ایف سی بلا لی جائے اور اگر یہ بھی کام یاب نہ ہو تو فوج طلب کر لی جائے‘ تیسرا حکومت ہر بار مظاہرین کو خود ہی بتا دے ہم نے پولیس کو غیر مسلح کر دیا ہے۔
ان کے پاس ہتھیار نہیں ہیں لہٰذا جب مظاہرین کو یہ معلوم ہو گا پولیس کیچوا بن چکی ہے اور یہ اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتی تو پھر یہ شیر کیوں نہیں ہوں گے؟ چوتھا ہم پورے شہر کو تین ہزار کنٹینروں کے پیچھے چھپا دیں اور پانچواں ہم تیس چالیس کروڑ روپے کے شیل چلا دیں اور آخر میں مذاکرات شروع کر کے مظاہرین کو اسلام آباد میں بیٹھنے کی جگہ بھی دے دیں اور اس دوران دس بیس پولیس اہلکار شہید اور دو اڑھائی سو زخمی ہو جائیں‘ یہ کھیل جاری ہے اور اس میں ہر بار ریاست کے دو تین ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور عوام کی املاک اور جانیں بھی خطرے میں پڑی رہتی ہیں اور یہ حکمت عملی دس سال سے جاری اور ساری ہے‘ ہم ایک طرف خود کو ایٹمی طاقت کہتے ہیں‘ ہم 25 کروڑ لوگوں کی ذہین ترین قوم بھی ہیں اور دوسری طرف ہم آج تک اسلام آباد کو احتجاجیوں سے بچانے کا کوئی مستقل بندوبست بھی نہیں کر سکے‘ دنیا میں ایسے ہزاروں انتظامات موجود ہیں لیکن ہم ہر بار لکیر پیٹ کر خوش ہوجاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے‘ ہم کسی قیمت پر عقل استعمال نہیں کریں گے۔
محسن نقوی ’’ویل ٹریولڈ‘‘ انسان ہیں‘ یہ دنیا میں پھرتے رہتے ہیں‘ یہ کسی دن آنکھیں کھولیں اور دیکھیں دنیا نے احتجاج سے بچنے کے لیے کیسے کیسے انتظام کر رکھے ہیں‘ مثلاً برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں حکومت سرکاری دفتروں کو آبادی سے دور کھلے علاقے میں لے گئی‘ اس کا یہ فائدہ ہوا اگر وہاں لاکھ لوگ بھی جمع ہو جائیں تو وہ کم محسوس ہوتے ہیں‘ برطانیہ نے 1970 میں کیمیکل تیار کرایا تھا‘ پولیس مظاہرے سے قبل سڑک پر اس کا چھڑکاؤ کر دیتی ہے‘ اس کے بعد جو بھی شخص یا گاڑی کیمیکل پر آتی ہے وہ سلپ ہونے لگتی ہے‘ مظاہرے کے بعد اس کیمیکل پر دوسرا کیمیکل چھڑک دیا جاتا ہے‘ چند منٹوں میں پہلے کیمیکل کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور سڑک کھل جاتی ہے۔
یورپ کے تمام بڑے شہروں کی اہم سڑکوں پر لوہے کے ہیوی ستون لگے ہیں‘ یہ ستون بٹن دبانے کے بعد زمین میں چلے جاتے ہیں اور بٹن آن کرنے کی بعد باہر نکل کر سڑک بلا کر دیتے ہیں‘ یہ اس قدر ہیوی ہوتے ہیں کہ انھیں توڑنا ممکن نہیں ہوتا‘ سڑکوں کے اندر نوکیلے کانٹے اب عام سی ٹیکنالوجی ہے‘ پولیس نے بڑی سڑکوں پر بھی یہ کانٹے لگا رکھے ہیں‘ یہ جب چاہتی ہے کانٹے اٹھا کر ٹریفک بند کر دیتی ہے‘ میں نے یورپ کے بے شمار حساس شہروں کے باہر لوہے کے عارضی پل دیکھے‘ ان پلوں سے ایک وقت میں ایک گاڑی گزر سکتی ہے‘ پل کے ساتھ پکٹ ہوتی ہے اور اس میں شارپ شوٹر بیٹھے ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ کسی بھی وقت یہ پل اٹھا کر شہر میں داخلے اور خروج کا راستہ بند کر دیتی ہے‘ پورے یورپ میں رپیڈ ایکشن فورسز موجود ہیں‘ انھیں گولی مارنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے‘ یہ فورس جوں ہی کسی جگہ پہنچتی ہے ان کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین پر چھروں والی مشین گنیں استعمال کرنا شروع کی تھیں‘ یہ گنیں ایک سیکنڈ میں ہزار چھرے پھینک دیتی ہیں‘ اس سے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرے رک گئے ‘ ہم ان میں سے کوئی بھی تکنیک استعمال کر سکتے ہیں‘ اس سے کسی کی جان بھی نہیں جائے گی اور مظاہرے بھی رک جائیں گے لیکن شاید ہم کسی مستقل حل کی طرف نہیں جانا چاہتے۔
پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے دنیا میں پہلی مرتبہ مظاہرے روکنے کے لیے کنٹینرز کا استعمال شروع کیا تھا‘ اسلام آباد انتظامیہ 18 سال سے یہ تکنیک استعمال کر رہی ہے اور اتنے ہی برسوں سے مظاہرین کنٹینرز کو دھکیل کر راستے کھولتے آرہے ہیں‘ مظاہرین اب اپنے ساتھ کنٹینر ہٹانے کی مشینری بھی لے کر آتے ہیں اور چند منٹوں میں راستے کھول دیتے ہیں۔
ہم اگر کچھ بھی نہ کریں تو بھی ہم اس میں جدت لا سکتے ہیں‘ حکومت اہم ترین سڑکوں کی سائیڈز پر لوہے کے مضبوط راڈز لگوادے جب سڑکیں بند کرنی ہوں تو یہ راڈز کنٹینرز کے سائیڈ ہولز سے گزر کر انھیں اچھی طرح گرپ کر لیں اور اس کے بعد انھیں اوپر سے ویلڈ کر دیا جائے یا ایسے لاک لگا دیے جائیں جو مخصوص آلات کے بغیر نہ کھل سکیں یوں کنٹینر ہٹانا مشکل ہو جائے گا‘ مظاہرین کے بعد حکومت لاک کھول کر کنٹینر ہٹا دے یوں سرمایہ بھی بچے گا اور وقت بھی‘اسی طرح اسلام آباد پر جب بھی یلغار ہوتی ہے توپولیس کو پتھر گڑھ (کٹی پہاڑی) 26نمبر چونگی‘ بھارہ کہو اور فیض آبادپر مار پڑتی ہے اور یہ زخمی اور لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
حکومت ایک ہی بار یہاں پکے اور محفوظ مورچے کیوں نہیں بنا دیتی تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں منظم طریقے سے اسلام آباد کی حفاظت کی جا سکے‘ مورچوں کے پیچھے پولیس کے دستوں کی عارضی قیام گاہیں بھی بنا دی جائیں تاکہ وہاں ہزار پندرہ سو کی فورس رکھی جا سکے‘ آخر اس میں کیا حرج ہے؟ ہم کیوں ہر بار دو تین ارب روپے خرچ کرتے ہیں اور اس کے باوجود پولیس اور رینجرز کی لاشیں اٹھاتے ہیں چناں چہ میری محسن نقوی صاحب سے درخواست ہے آپ ایک ہی بار وسائل خرچ کر کے مستقل حل نکال لیں ورنہ حکومت اور یہ شہر دونوں اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے‘ دارالحکومت اسی طرح غیر محفوظ رہے گا۔