ریاست جموں کشمیر کی تقسیم، سامراجی مائنڈسیٹ اور آج کے حالات

1947 کی تقسیم
1947 میں برطانیہ نے ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عمل کے تحت ایک ملک کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کر دیاگیا یہ تقسیم نہ صرف جغرافیائی طور پر ایک اہم واقعہ تھی بلکہ اس کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اثرات نے بھی برصغیر کی تاریخ کو نئی جہت دی۔ اس وقت کے سامراجی نظام کی باقیات نے دونوں ملکوں کی سیاست اور حکومت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
برطانیہ کی حکمرانی کے تحت، ہندوستان میں ایک پیچیدہ نو آبادیاتی نظام قائم تھا جس میں انگریزوں کے علاوہ دیسی تربیت یافتہ سول اور فوجی افسران، جاگیردار اور سہو کار شامل تھے۔
یہ لوگ سامراجی مائنڈ سیٹ کے حامل تھے، جس نے انہیں ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ ایک غیر انسانی رویہ اپنانے کی ترغیب دی۔ تقسیم کے بعد، پاکستان میں یہ مائنڈ سیٹ مزید مضبوط ہوا کیونکہ یہاں کے حکومتی ڈھانچے میں زیادہ تر وہی لوگ شامل تھے جو برطانوی دور میں کام کر چکے تھے۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو اپنے راستہ سے ہٹانے میں بہت جلدی کی۔
دوسری طرف، ہندوستان میں مہاتما گاندھی کو بھی راستہ سے ہٹایا گیا مگر وہاں کی دوسری لائن کی سیاسی قیادت پنڈت نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد اور دیگر نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کو ایک نئی سمت میں لے جانا ہوگا۔ انہوں نے نہ صرف سامراجی اور جاگیردارانہ نظام کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی بلکہ ایک نئی سیاسی ثقافت کی بنیاد بھی رکھی۔ جمہوریت، سیکولرزم اور عوامی حقوق کے اصولوں کو اپنایا، جس نے سامراجی مائنڈ سیٹ کو جڑیں پکڑنے سے روکا۔
اس سفر کو آج کی بی جے پی نے روک دیا ہے جس پر مذہبی انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کا بازار گرم ہے۔
پاکستان میں، تاہم، انگریز سامراج کے وقت کا مائنڈ سیٹ آج تک جاری ہے۔ سیاسی اور سماجی سطح پر، یہ اثرات اس وقت بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں جب کہ حکومتی ادارے، فوج اور بیوروکریسی کے اندرونی نظام میں وہی پرانے نظریات اور طرز فکر موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان میں سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ مذہبی اور لسانی تقسیم بڑھ رہی ہے۔
تقسیم کے وقت جبری طور پر بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد نے بھی اس مائنڈ سیٹ کے منفی اثرات کو محسوس کیا۔ دونوں نو زائیدہ ملکوں میں وسیع پیمانہ پر مذہبی فسادات کے نتیجہ میں بڑے پیمانہ پر لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ہزاروں خاندانوں نے اپنی جڑیں چھوڑ دیں، اور اس ہجرت نے ایک ایسا نفسیاتی اور انسانی بحران پیدا کیا جس کا اثر آج تک دونوں ممالک پر موجود ہے۔
جموں کشمیر پر قبضہ کی سازش
84786 مربع میل پر پھیلی ریاست جموں کشمیر واحد ایسی ریاست تھی جو برٹش انڈیا میں تقسیم اور فسادات کے دوران محفوظ رہی –
مگر چند ہی دنوں میں ایک سازش ہوئ۔ غیر منظم قبائلیوں کا کشمیر پر حملہ ایک سازش تھی،
اس وقت Field Marshal Sir Claude John Eyre Auchinleck اانڈیا اور پاکستان کی فوج کے مشترکہ کمانڈر ان چیف تھے ۔
پاکستان فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل میسوری اور بھارتی فوج کے سیکنڈ کمانڈر انچیف جنرل ڈوگلس ڈیوڈ کی کمان میں دونوں ملکوں کی فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں اور اس حملے کے نتیجے میں جموں کشمیر گلگت بلتستان تقسیم ہو گیا۔
تین جنگیں ہوئیں کشمیریوں کی زندگی مزید اجیرن ہوئی۔
سرینگر اور مظفر آباد کی تازہ صورتحال
دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اپنے زیر کنٹرول کشمیری علاقوں میں اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کے عمل میں وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو انہیں برطانوی سامراج کی حکمرانی کے وقت تربیت اور مزاج میں ملی ہیں۔ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں آرٹیکل 370 کی بحالی کا سوال ہو یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حقوق کی بحالی کی تحریک، اسے کچلنے کے جو حربے اختیار کیے جا رہے ہیں وہ انتہائی ظالمانہ و بے رحمانہ ہیں۔
2019 کے بعد بدلا ہوا کشمیر
کشمیری اب کسی ملک سے الحاق کی نہیں بلکہ دونوں سے مکمل آزادی کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے، جہاں وہ اپنے حقوق، خودمختاری، اور شناخت کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام کی طاقت پکڑتی یہ خواہش کہ وہ آزاد ہوں، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غیر ملکی غلامی یا کنٹرول کو قبول نہیں کریں گے۔
سرینگر اور مظفرآباد میں آنے والے دنوں میں اگر یہ مسائل حل نہیں کیے گئے تو یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی، علاقائی عدم استحکام، اور عالمی برادری کی توجہ کا فقدان اس خطے کی امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ کشمیری عوام کی آواز کو سننا اور ان کے حقوق کا احترام کرنا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے، ورنہ یہ بحران ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے