گلگت بلتستان کا محل وقوع خطہ میں بہت اہمیت کا حامل ہے. الیگزینڈر بزنس نے 1829 میں زار روس کی توسیع پسندی کے خوف سے دریا سندہ میں کشتی کے ذریعہ سفر کرتےہوئے سندھ سے پنجاب وہاں سے براستہ پشاور،کابل کاسفر کیا، افغانستان سے ثمرقند،بخارا سے ہوتے ہوئے مشہد ایران پہنچ کر دوبارہ برٹش ہندوستان واپس آگیا ،اس تمام سفرکاحاصل جو اب موصوف نے "گریڈگیم” کہا ۔اس کے علاوہ رائل جغرافیکل سوسائٹی کے زریعے فونافلورا Fuana Flora کے اوٹ میں عظیم پہاڑوں کے سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش کے مختلف دروں کا خفیہ اور اعلانیہ سروے ہوتے رہیں، جس کے بعد ہی افغانستان کو زار روس اور برطانوی ہند نے بفر اسٹیٹ قراردیا اور سابق فاٹا بھی اسی کا تسلسل تھا جو اب باقاعدہ آئینی طور پر خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکا ہے۔
گلگت بلتستان میں بہت سارے سرویئرز ہوئے جس کے بعد برطانیوی ہند کی فارورڈ بارڈر پالیسی کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ کو گلگت بلتستان(ناردرن بارڈر آف برٹش انڈیا) پر پیش قدمی پر بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی’چونکہ الیگزینڈر بزنس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ باورکرایا تھا کہ پنجاب کی سکھ سلطنت جلدہی بخرے ہوں گے جس کا حدود اربعہ پشاور سے کشمیر تک تھا لہذا انگریز سرکارنے فارورڈ بارڈر پالیسی کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ کی حکومت گلگت بلتستان میں تسلیم کرلی۔
بفر اسٹیٹس علاقوں کی تزویراتی اہمیت اب بھی مسلمہ ہے اور افغانستان میں طالبان حکومت کو امریکہ سے ہرہفتہ لاکھوں ڈالرز خصوص جہاز کے ذریعے کابل پہنچادیا جاتاہے۔کچھ عرصہ پہلے طالبان کے چترال تک پہنچنے کی خبر اور اب واخان پٹی پر بحث نے گلگت بلتستان کی سکیورٹی محرکات توجہ طلب ہے۔گلگت بلتستان ہمیشہ سے عسکری اور سلامتی کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز رہا ہے، اس کی سٹریٹجک اور معاشی پراثریت کا اندازہ ہمسایہ ممالک بھارت،چین،تاجکستان اور افغانستان جن کے عالم دنیا میں ترقی اور دہشت کا کوئی جواب نہیں۔
گلگت بلتستان میں مستقبل میں سابقہ قبائلی علاقے جیسے صورت حال کی پرورش کو رد نہیں کیاجاسکتااس کی قابل ازوقت روک تھام کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔گلگت بلتستان پاکستان میں وہ خطہ ہے جو چین کے ساتھ زمینی راستہ فراہم کرتاہے، اس کے علاوہ واخان پٹی کی اہمیت کے وجہ سے پاکستان سے پرخار قوتیں گلگت بلتستان میں اپنی منفی عزائم کی تکمیل کےلئے کسی وقت فتنہ الخوراج سے فائدہ اٹھائےجاسکتے ہیں۔
دوسرا پارہ چنار کے حالات سے گلگت بلتستان میں انجانے خوف کو ملک دشمن قوتیں اپنے لئے موافق بناسکتیں ہیں ۔سوشل میڈیا اور اس کے استعمال نے پوری دنیا میں بونچال پیداکیاہے جہاں شعور کے زاوئیے بدترین نہج پر پہنچیں ہیں،قومی سلامتی اور مفادکومدنظر رکھ کر امریکہ،برطاینہ،چین سیمت دیگر ترقی یافتہ ممالک نے سوشل میڈیا کے بہت ذرائع کو اپنے ملک میں پابندی عائد کیں ہیں۔مذکورہ بالا خدشات اور اس کے تدارک میں آپریشن فتنہ الخوراج گلگت بلتستان کے تناظر میں پیشیگی کاروائی قرار دی جاسکتی ہے جو مسلح افواج آپریٹ کررہی ہے۔
اسی طرح آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی پشاور میں تمام اعلی سیاسی قیادت سیمت خیبر پختون خواہ کی حکومت کے ساتھ سلامتی امور پر بامعنی مشاورت جس میں آپریشن فتنہ الخوراج اور پارہ چنار سرے فہرست تھے،اس مشاورتی عمل میں پختون خواہ کی سیاسی معہ قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کے باہم مشورے نیتجہ خیز ثابت ہورہے ہیں. پارہ چنار میں ضروریات زندگی کے تمام سامان کی ترسیل شروع ہوچکی ہے۔گرینڈ جرگہ کے فیصلے پر عمل درآمد کےلئے سول حکومت اور عسکری زمدار مستعد ہوئے ہیں ۔
آپریشن فتنہ الخوراج کو مزید کامیابی سے جاری رکھنے کےلئے بھی سیاسی اور عسکری قیادت میں یکسوئی پائی گئی۔یہاں یہ ذکر بہت ہی قابل ستائش ہے کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی پہلی دفعہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی جماعتیں،پارلیمنٹ اور افواج پاکستان کی مشترکہ منظور شدہ دستاویز ہیں، جس میں گلگت بلتستان کو تخصیصی طور پر شامل کیاگیاہے، اس کی روشنی میں گلگت بلتستان میں منفی رجحانات کا سدباب کرسکتے ہیں۔اسی سلسلے میں گلگت بلتستان سے چند ماہ پہلے قومی علماء مشائخ کانفرنس میں علماء کے نمائیندے شریک ہوئے، جہاں عسکری قیادت کی توسط سے قومی یکجہتی اور سلامتی کے جہتوں اور محرکات کو سمجھنے کا موقع انہیں ملا اور مستقبل میں کسی بھی فتنہ کے خلاف قومی سلامتی کے پس منظر میں یہ علماء موئثر کردار ادا کرسکےگا۔
گلگت بلتستان ملکی دفاع میں فرنٹ لائن ہمیشہ سے رہا ہے، جہاں سیاچن سیمت لائین آف کنٹرول پر مسلح افواج تعینات ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نقوی گلگت بلتستان کی جغرافیائی،سماجی اور معاشی ڈائینامکس اور اہمیت کو بہتر جانتے ہیں کیونکہ موصوف فورس کمانڈر ناردرن ایریاز رہ چکے ہیں، یہاں کے جملہ اشوز،پوٹینشل اور ویکنیسیس سے بخوبی آگاہ بھی ہیں جہاں سیاسی ،جمہوری حکومتوں کی دلچسپی گلگت بلتستان کی ترقی میں رہیں ہیں وہاں عسکری قیادت کی توجہ اظہر من الشمس ہے ۔
گلگت بلتستان کی معاشی اور سماجی ترقی یہاں کےمستحکم سیکیورٹی میں پنہاں ہے جس میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی کارگردگی بہتر ہیں مگر قومی سلامتی کے پس منظر میں سلامتی کے محرکات کو ہینڈیل کرنے کے لئے وسائل اور استعداد پاک فوج کے پاس ہی ہے۔پاکستان کے تمام صوبوں بشمول آذاد کشمیر ایک اپیکس کیمٹی موجود ہے صوبے کے وزیراعلی سمیت سرکاری زمدار شخصیات کیمٹی کے ممبرز ہیں. اس کمیٹی میں پاک آرمی کا کورکمانڈرز یا جی او سی بطورے نمائیندہ ہوتای ہے چونکہ کیمٹی کے اہداف خالصتا”سیکیورٹی نوعیت کے ہیں لہذا پاک فوج کے نمائیندہ کی پیش کردہ سفارشات اور حکمت عملی ،عملدرآمد کو حکومت فوقیت دیتی ہے،گلگت بلتستان کی اپیکس کیمٹی کی مٹینگ منعقد ہوتی رہتی ہیں جس میں وزیر اعلی گلگت بلتستان اور فورس کمانڈر ناردرن ایریاز شریک ہوتے ہیں، جس میں گلگت بلتستان میں امن امان اور بیرون جی بی سے ممکنا اور موجود خطرات کا جائزہ لینے کے ساتھ فیصلے کرتےہیں جو موئثر اور نیتجہ خیز ہوتے ہیں ۔
اپیکس کیمٹی کی قومی اور علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے متحرک اور فعال، وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔گلگت بلتستان اب ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا مرکز نگاہ ہے،جہاں معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی محرکات میں بڑی تبدیلی آچکی ہے، اس حوالے سے سیاحت کے فروغ کے لئے سہولیات کی فراہمی ضروری عمل ہے، ساتھ فکری اور نظری طورپر عوام کی رہنمائی بھی ناگزیر ہوتی جارہاہے تاکہ گلگت بلتستان میں فتنہ الخوراج جیسی دہشت گردی کو عوامی شراکت داری سے قومی سلامتی کے اہداف کو پورا کیاجاسکے۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر آمین ۔۔