صحافی وحید مراد کی گرفتاری: اغوا کے الزامات، ایف آئی آر اور صحافتی برادری کا احتجاج

اسلام آباد میں سینئر صحافی وحید مراد کی گرفتاری اور ان پر درج مقدمے نے ملک بھر کی صحافتی برادری میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان کے اہل خانہ، وکلا، اور مختلف صحافتی تنظیمیں اس معاملے کو جبری گمشدگی اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دے رہی ہیں، جبکہ حکومتی ادارے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر “غلط اور گمراہ کن معلومات” پھیلانے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔صحافی وحید مراد کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا

 

وحید مراد کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے قانونی کارروائی کے لیے درخواست کا عکس

گرفتاری یا اغوا؟ اہل خانہ کا مؤقف
صحافی وحید مراد کی گرفتاری: آزادی صحافت پر سنگین حملہ، دروازہ توڑ کر زبردستی لے گئے، اہل خانہ پر تشدد

اسلام آباد میں سینئر صحافی وحید مراد کی گرفتاری نے ملک بھر میں صحافتی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ وحید مراد کو رات گئے زبردستی ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا، دروازہ توڑا گیا، اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا اور ان کی بوڑھی والدہ کو زد و کوب کیا گیا۔

گھر پر دھاوا: دروازہ توڑ کر اندر گھسے

وحید مراد کی اہلیہ شنزہ وحید اور صحافی سمیرا اشرف کے مطابق، نامعلوم افراد رات کے اندھیرے میں گھر پر حملہ آور ہوئے، دروازہ توڑا، وحید مراد کو زبردستی گھسیٹ کر لے گئے اور گھر کی تلاشی لی۔

صحافی سمیرا اشرف نے اس رات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا:
“دو بجے شنزہ کی گھبرائی ہوئی کال آئی: ‘سمیرا، جلدی گھر جاؤ! انہوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا ہے۔ سمیرا، وہ میرے وحید کو لے گئے ہیں۔ سمیرا، ماما کو کچھ ہو جائے گا، جلدی پہنچو۔’”

جب سمیرا گھر پہنچیں تو وحید مراد کی بوڑھی والدہ شدید خوفزدہ تھیں اور روتے ہوئے بار بار یہی کہہ رہی تھیں:
“وہ کہہ رہے تھے، باہر نکلو وحید مراد، باہر نکلو! وہ زور زور سے دروازے کو لاتیں مار رہے تھے۔ وحید نے پوچھا: ‘آپ کون ہیں؟’ کہنے لگے: ‘یہاں افغانی رہتے ہیں۔’ وحید نے دروازے کے نیچے سے کارڈ باہر پھینکا، پھر انہوں نے دروازہ توڑا اور وحید کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ سمیرا، وہ میرا وحید لے گئے!”

اہل خانہ پر تشدد، قیمتی اشیاء ضبط

وحید مراد کی والدہ (جو کہ دل کی مریضہ ہیں) کو زد و کوب کیا گیا، گھر کی مکمل تلاشی لی گئی، موبائل فون، دستاویزات اور دیگر قیمتی اشیاء ساتھ لے جائی گئیں۔ اہل خانہ کے مطابق، حملہ آور بار بار وحید کی اہلیہ شنزہ وحید کے بارے میں بھی سوال کرتے رہے۔

اس واقعے کی اطلاع سب سے پہلے صحافی فرحان خان نے دی، جنہوں نے خبر بریک کرتے ہوئے لکھا:
“اسلام آباد سے سینئر صحافی وحید مراد کو ان کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان کے گھر پر حملہ کیا گیا، دروازہ توڑ کر انہیں زبردستی اٹھایا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔”

اس خبر کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر شدید ردعمل آیا، اور ملک بھر میں صحافتی حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی وحید مراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرنے لگے
وحید مراد کے اہل خانہ کے مطابق انہیں 26 مارچ 2025 کی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی-8 میں واقع ان کے گھر سے “نقاب پوش افراد” نے زبردستی اٹھا لیا۔ ان کی ساس عابدہ نواز، جو کینیڈا سے علاج کے لیے پاکستان آئی ہوئی ہیں، نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بتایا کہ رات دو بجے سیاہ لباس میں ملبوس افراد نے ان کے داماد کو افغان قرار دے کر دروازہ کھولنے پر مجبور کیا۔ جب وحید مراد نے خاتون پولیس اہلکار کی موجودگی کے بغیر دروازہ کھولنے سے انکار کیا تو مبینہ طور پر انہیں زبردستی اٹھا لیا گیا۔

 

ان کی اہلیہ شنزہ نواز، جو خود بھی ایک صحافی ہیں اور اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں، نے بتایا کہ انہوں نے والدہ کے ذریعے وحید مراد کو اپنی شناخت دکھانے کا مشورہ دیا، تاہم، اس کے باوجود انہیں نامعلوم افراد لے گئے۔

وحید مراد کے خلاف مقدمہ درج

کئی گھنٹے لاپتہ رہنے کے بعد وحید مراد کو 13 گھنٹے بعد اسلام آباد کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔

 

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے درج ایف آئی آر میں ان پر “جعلی، گمراہ کن اور غلط معلومات پھیلانے” کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق وحید مراد نے فیکٹ فوکس کی ایک رپورٹ شیئر کی تھی، جس میں آرمی چیف کے اہل خانہ کی تصاویر شامل تھیں۔ مزید یہ کہ ان پر جعفر ایکسپریس حملے سے متعلق مواد شیئر کرنے کا بھی الزام ہے۔ ان کے خلاف پیکا ایکٹ (PECA) کے سیکشن 9، 10، 20، اور 26-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اردو نیوز کے صحافی A Waheed Murad کے خلاف ایف آئی آر میں بلوچستان کے حوالے سے جس تحریر کا ذکر ہے وہ دراصل سردار اختر مینگل کی 12 مارچ کی ٹویٹ ہے۔ وحید نے اپنی پوسٹ کے آخر میں بھی مینگل صاحب کا نام دیا ہے مگر ایف آئی آر میں اسے حذف کر دیا گیا

اختر مینگل اور وحید مراد کی ٹویٹس کا عکس

صحافتی تنظیموں کا شدید ردعمل

وحید مراد کی گرفتاری پر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (RIUJ) اور ہزارہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (HJA) سمیت کئی صحافتی تنظیموں نے شدید ردعمل دیا ہے۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس نے ایک بیان میں کہا کہ وحید مراد کے خلاف “جبری گمشدگی” کی طرز پر کارروائی کی گئی ہے، جو آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وحید مراد کو فوری رہا کیا جائے اور اس قسم کی کارروائیوں کو بند کیا جائے۔

ہزارہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر لقمان شاہ، جنرل سیکریٹری عادل خان اور دیگر عہدیداروں نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی صحافت کو دبانے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وحید مراد کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو انہیں عدالت میں شفاف طریقے سے پیش کیا جائے، نہ کہ انہیں زبردستی لاپتہ کیا جائے۔

عدالت میں بازیابی کی درخواست

وحید مراد کی ساس عابدہ نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا کہ پولیس نے کراچی کمپنی تھانے میں درخواست کے باوجود مقدمہ درج نہیں کیا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ وحید مراد کو فوری بازیاب کرایا جائے اور ان کے اغوا میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

وحید مراد کا مؤقف

کچہری میں پیشی کے موقع پر وحید مراد نے صحافیوں سے مختصر بات چیت میں کہا کہ انہیں بیس منٹ پہلے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔

وحید مراد ایف آئی اے کی گاڑی سے عدالت میں پیشی کے موقع پر مسکراتے ہوئے نکلے

ان کا کہنا تھا کہ ان کی ساس کینسر کی مریضہ ہیں اور وہ کینیڈا سے علاج کے لیے آئی ہوئی ہیں، جب کہ ان کی اہلیہ بیرون ملک ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں وکالت نامے پر دستخط کی اجازت نہیں دی گئی۔

نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

وحید مراد کی گرفتاری اور ان کے خلاف درج مقدمے نے پاکستان میں آزادی صحافت اور انسانی حقوق سے متعلق کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ صحافتی تنظیمیں اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کا اعلان کر چکی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

یہ کیس آزادی اظہار اور ڈیجیٹل قوانین کے استعمال کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں پاکستانی صحافت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

وحید مراد کی گرفتاری: آزادی صحافت پر بدترین حملہ، ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان

اسلام آباد میں سینئر صحافی وحید مراد کی گرفتاری پر ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان (DigiMAP) نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر بدترین حملہ قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، حکومت پیکا (PECA) جیسے سیاہ قوانین کو استعمال کرکے صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جس سے چادر اور چاردیواری کا تحفظ بھی ختم ہو چکا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کا مؤقف

ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کے اعلامیے میں کہا گیا:

“وحید مراد کی گرفتاری ایک سوچا سمجھا حملہ ہے جو آزادی اظہار کو دبانے اور صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے کیا گیا۔ پیکا ایکٹ جیسے قوانین کا استعمال آزادی صحافت کے خلاف بطور ہتھیار کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف صحافی برادری متاثر ہو رہی ہے بلکہ عام شہریوں کی پرائیویسی اور بنیادی حقوق بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔”

تنظیم نے مطالبہ کیا کہ وحید مراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور پیکا جیسے قوانین پر نظرثانی کی جائے تاکہ انہیں سیاسی انتقام اور صحافیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔

پیکا قانون: صحافت کے لیے خطرہ؟

ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین اور صحافتی تنظیمیں پہلے بھی پیکا قانون پر اعتراضات اٹھا چکی ہیں۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا اور آن لائن اظہار رائے پر سخت پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جبکہ حکام کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار بھی حاصل ہے۔

پاکستان میں کئی صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ پہلے بھی اس قانون کے تحت مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادی صحافت کو کچلنے اور مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل

وحید مراد کی گرفتاری پر مختلف صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سخت ردعمل دیا ہے:

• راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (RIUJ) نے کہا:
“یہ گرفتاریاں صحافیوں کو ہراساں کرنے کی ایک نئی لہر کا آغاز ہیں۔ اگر وحید مراد کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو انہیں قانونی طریقے سے عدالت میں ثابت کیا جائے، نہ کہ انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا جائے۔”
• ہزارہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (HJA) نے بھی اس گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔
• انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے کہا کہ صحافیوں کو دبانے کی پالیسی ملک کے جمہوری تشخص کے لیے خطرناک ہے۔

کیا وحید مراد کی گرفتاری ایک مثال بنے گی؟

وحید مراد کی گرفتاری اور ان کے خلاف درج مقدمہ پاکستان میں آزادی صحافت کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے پیکا جیسے قوانین کا استعمال جاری رکھتے ہیں، تو اس کے اثرات نہ صرف صحافیوں بلکہ عام شہریوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان، صحافتی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے کو عدالت اور عالمی فورمز پر لے جانے کا عندیہ دے چکی ہیں، جس سے یہ کیس بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کر سکتا ہے۔

صحافی وحید مراد کو عدالت میں پیش کردیا گیا، دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اسلام آباد: صحافی وحید مراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردیا گیا، وحید مراد کو ایف آئی اے کے مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔

وحید مراد نے بتایا کہ انہیں 20 منٹ پہلے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں رات 3 بجے اٹھایا گیا، تب سے آنکھوں پر کالی پٹی باندھی رکھی گئی، 20 منٹ پہلے پٹی کو ہٹایا گیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

دوسری جانب ایچ آر سی پی نے صحافی وحید مراد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وحید مراد کو اغوا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے