چالاک سیاسی جماعت کا بے وقوف سیاسی کارکن

2016 میں میری ایک اپنے پرانے محلے دار سے اچانک کوئی چار پانچ سال بعد ملاقات ھوگئی۔ ہم دونوں بڑی گرمجوشی سے ملے، حال احوال دریافت ہوئے پرانی باتیں دہرائی گئیں۔ گپ شپ کے دوران میں نے پوچھا کہ جناب کیا مصروفیات ھیں اجکل ؟ وہی پراپرٹی کا بزنس ھے یا کوئی اور شغل ھے۔ پتا چلا کہ پراپرٹی کا بزنس بھی ہے لیکن موصوف تحریک انصاف کے سیاسی کارکن ھیں اس لیئے بزنس کچھ ہلکا ہی ہے کیوں کہ سیاست کی وجہ سے بزنس کے لیئے وقت نہیں نکال پاتے۔ مزید گپ شپ میں جو چیزیں میرے علم میں آئیں وہ میرے لیئے تو افسوسناک ھی تھیں۔

موصوف گزشتہ چار سال سے تحریک انصاف کے فعال کارکن تھے ۔ سیف اللہ نیازی کے ساتھ ان کے روابط تھے اور جب بھی کوئی جلسہ ھوتا ان کا کام دو چار ٹرکوں میں بندے بھر کر لانا تھا۔ اس عرصے میں چار سے پانچ کروڑ روپے وہ بطور سیاسی کارکن پلے سے پھونک چکے تھے۔ اور آج تک عمران خان سے شرف ملاقات اور گفتگو سے محروم تھے ۔ اور اس خوش فہمی میں سر تا پا ڈوبے ھوئے تھے کہ سیف اللہ نیازی اس بار یعنی 2018 کے الیکشن میں انہیں ٹکٹ دے گا۔

میں چونکہ اسے بہت پرانا جانتا تھا تعلیم بھی واجبی سی تھی، خاندانی پس منظر بھی مڈل کلاس تھا لیکن پراپرٹی میں ا چھا پیسہ بنایا تھا ۔ میں نے پوچھا گھر اپنا بنا لیا ھے یا کرائے پر ھو۔ کہنے لگا نہیں ابھی کرائے پر ہوں۔

میں نے اسے سمجھایا کہ بھائی تم جو کروڑوں روپے لگا چکے ھو اس میں تمھارا ذاتی گھر بن سکتا تھا ۔ تم بچوں کو بہت اچھے سکولوں میں پڑھا سکتے تھے۔ اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ دو چار ملک گھوم سکتے تھے ۔ یہاں تمھیں کیا ملے گا ۔ عمران خان سے تو آج تک تم مل نہیں پائے۔ اس وقت الیکشن لڑنے کے خواب اس کے آنکھوں میں اتنے روشن تھے کہ اسے میری کوئی بات سمجھ نہیں ائی۔ لیکن ھوا وھی۔ ٹکٹیں تو جن کو ملنی تھیں ملیں لیکن وہ ایسا دل برداشتہ ھوا کہ اس کے بعد ابھی تک اس سے بزنس بھی صحیح طرح نہیں ہو رہا۔

یہ کوئی ایک آدمی نھیں ہے جس کے ساتھ ایسا ہوا یا جس نے اپنی زندگی اپنی جمع پونجی ان سیاسی جماعتوں کے چکر میں گنوا دی ھے ایسے سینکڑوں لاکھوں لوگ ھیں جنہوں نے ماں باپ کو بیوی بچوں کو پس پشت ڈال کر خود کو سیاسی جماعتوں کے لیئے وقف کیئے رکھا لیکن آج پھٹے حالوں سڑکوں پر جوتیاں چٹخا رھے ھیں۔ لیکن کبھی ان کی سیاسی جماعت کے کسی لیڈر یا رہنما نے ان پر اچٹتی سی بھی نظر نھیں ڈالی۔

پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر جتنا کام تو کسی نے بھی اپنی پارٹی کے لیئے نھیں کیا ھوگا۔ فرحت اللہ بابر نے بھی اپنا اوڑھنا بچھونا پیپلز پارٹی کو ھی بنائے رکھا۔ ایک طویل مدت آصف علی زرداری کے ترجمان رھے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی ایسا ھی ھوا۔

فرحت اللہ بابر کے خلاف ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی ہے اور ان کی چھان بین کی جارھی ھے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ ان کی سیاسی زندگی بے داغ رھی یا نھیں ۔ ھم تو یہ دیکھ رھے ھیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھا جس نے پیپلز پارٹی کے تندور میں اپنی ساری جوانی کا بھرتہ بنوایا۔ ذاتی زندگی برائے نام ھی گزاری۔ آج جب ایف آئی کی انکوائری بھگت رھا ھے اور وہ بھی اس وقت جب اس کی پارٹی کا سربراہ ملک کا صدر ھے ، کوئی ایک آواز اس کے حق میں پارٹی کے اندر سے بلند نھیں ھوئی۔ پارٹی کا کوئی کارکن یا رہنما اس کے ساتھ نہیں کھڑا۔ صرف وکلا یا میڈیا اس کے لیئے آواز بلند کر رھے ھیں۔ تو پھر کیا کھویا کیا پایا فرحت اللہ بابر صاحب نے اور دیگرلاکھوں کروڑوں نے سیاسی جماعتوں کے لیئے اپنی عمریں ضائع کرکے؟
وہ تمام لوگ جن پر سیاستدان بننے کا بھوت سوار ھے ان کو یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ سوا اس کے کہ وہ اپنا تن من اور دھن سیاست میں ضائع کریں گے انھیں کچھ حاصل نھیں ھوگا ۔الیکشن کی ٹکٹیں چند مخصوص لوگوں کو ھی ھمیشہ سے ملتی آئی ھیں اور آئندہ بھی انھیں ہی ملیں گی۔

چند مخصوص خاندانوں اور گروہوں نے سیاست میں اپنے پنجے اس طریقے سے گاڑ رکھے ھیں کہ جو بھی سیاسی جماعت حکومت میں آئے اس خاندان اور گروہ کا کوئی نہ کوئی اس میں ھمیشہ شامل ھوتا ھے ۔ باقی تو سب تن تنہا کوئی انکوائری بھگتیں گے یا بڑھاپا سڑک پر جوتیاں چٹخاتے گزاریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے