پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک خونچکاں داستان ہے ایک ایسی کہانی جس میں کبھی عوامی امنگوں کو کچلا گیا، کبھی بیانیے کو زنجیروں میں جکڑا گیا اور کبھی سچ کی آواز کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ یہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی اس سرزمین پر کوئی رہنما عوامی طاقت کی علامت بن کر ابھرا، اس کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، محترمہ بینظیر بھٹو کی جلاوطنی ہو یا اب عمران خان کی قید — ہر دور میں طاقت اور عوام کے بیچ ایک جنگ جاری رہی ہے۔
عمران خان کا جرم کیا ہے؟
عمران خان کا جرم یہ نہیں کہ اس نے کرپشن کی یا آئین توڑا، بلکہ اس کا اصل قصور یہ ہے کہ اس نے عام پاکستانی کے دل میں خود داری اور غیرت کا بیج بو دیا۔ اس نے نوجوان کو یہ احساس دلایا کہ تمہاری حیثیت محض ایک ووٹر کی نہیں بلکہ تم اس ملک کے اصل وارث ہو۔ وہ کہتا رہا:
"نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”
پاکستان کا نوجوان، جو برسوں سے مایوسی، بے یقینی اور خوف کے اندھیروں میں گم تھا، عمران خان کی صورت میں روشنی دیکھنے لگا۔ اس نے کرپشن سے پاک پاکستان، میرٹ پر مبنی نظام اور خودمختار خارجہ پالیسی کا خواب دکھایا۔ یہی خواب اس ملک کے طاقتور طبقے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جب عوام نے مقبول بنایا، جب لاڑکانہ سے لے کر لاہور، ملتان سے پشاور تک بھٹو کا نعرہ گونجنے لگا تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھے۔ بھٹو کے خلاف بھی سازشیں ہوئیں، مقدمے بنے اور آخرکار ایک متنازع فیصلے کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔ مگر کیا بھٹو کی موت سے اس کا بیانیہ ختم ہو سکا؟ آج بھی "بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ سڑکوں پر سنائی دیتا ہے۔
اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو، جنہوں نے آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی، انہیں بھی جلا وطن کیا گیا مگر تاریخ نے دیکھا کہ جب وہ وطن واپس آئیں تو لاکھوں لوگ استقبال کے لیے موجود تھے۔ آج عمران خان اسی تاریخ کا ایک اور کردار ہے۔
عمران خان کو قید میں ڈالنے کا مطلب محض ایک سیاستدان کو خاموش کرنا نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک سوچ اور ایک تحریک کو دبانے کی ناکام کوشش ہے۔ جیل میں ڈالنے والے شاید بھول گئے ہیں کہ نظریات قید نہیں ہوتے، بیانیے زنجیروں میں نہیں جکڑے جا سکتے۔ بقول احمد فراز:
"سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں”
جیل کی سختیوں نے عمران خان کے حوصلے کو تو کمزور نہیں کیا، البتہ اس کی مقبولیت کو ضرور چار چاند لگا دیے ہیں۔ آج پاکستان کی ہر گلی، ہر بازار اور ہر محفل میں عمران خان کی بات ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر دیہاتی چوکوں تک ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے: "خان صاحب کو کب رہا کیا جائے گا؟”
حکومتی جبر جتنا بھی سخت ہو، تاریخ گواہ ہے کہ عوامی شعور اور بیداری کو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ جب جب کسی مقبول رہنما کو قید کیا گیا، اس کا بیانیہ مزید طاقتور ہو کر ابھرا۔ آج پاکستان کا نوجوان، مزدور، کسان، طالبعلم، وکیل اور عام شہری عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے۔ لوگ خاموش ضرور ہیں مگر دلوں میں طوفان پل رہا ہے۔ ایک غیر مرئی احتجاج، ایک ان دیکھی بغاوت ملک کے چپے چپے میں پروان چڑھ رہی ہے۔
پاکستان کی سیاست اس وقت ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اقتدار کے ایوان بے چین ہیں، مقتدر حلقے فکر مند اور عالمی دنیا بھی متوجہ۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں بھی اس کا سیاسی اثر ختم نہیں ہوا بلکہ مزید بڑھ گیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی عوامی لیڈر پر ظلم ہوا، تو تخت و تاج الٹ گئے۔ آج کا منظرنامہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
عمران خان کی قید وقتی ہے، مگر اس کا اثر پاکستان کی سیاست پر دائمی ہو گا۔ وہ جو خود داری کی علامت، عوام کی آواز اور نوجوان نسل کی امید بن چکا ہے، اس کا بیانیہ جیل کی دیواروں سے کہیں بلند ہے۔ طاقتور طبقہ شاید وقتی طور پر جیت جائے، مگر تاریخ نے ہمیشہ عوامی خواہشات کو فتح دی ہے۔ کل بھی آج "قیدی نمبر 804” کا خواب ہر دل کی دھڑکن بن چکا ہے۔ شاید احمد ندیم قاسمی نے ایسے ہی وقت کے لیے کہا تھا:
"وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا”
اور وہ وقت اب بہت قریب ہے۔